121

شانتی نگر سے جڑانوالہ براستہ جوزف کالونی


سانحہ جڑانوالہ کی ہرکس و ناکس نے دوٹوک انداز میں مذمت کی۔ مذمت ہی بنتی ہے۔ بالفرض توہین کا پہلا الزام درست بھی ہو تو بھی جواباً جو کچھ ہوا وہ صریحاً درندگی، توہین مقدسات اور انسانیت و امن پر کھلا حملہ تھا۔

تحریر: حیدر جاوید سید


سپیشل برانچ کی رپورٹ کے مطابق سانحہ جڑانوالہ میں مشتعل ہجوم نے 16 مسیحی عبادت گاہوں (گرجا گھروں) کو نذر آتش کیا۔ مسیحی برادری اور آزاد ذرائع کا موقف ہے کہ سپیشل برانچ نے جلائے گئے 5 غیر رجسٹرڈ گرجا گھروں کو شمار نہیں کیا۔ کل تعداد 21 ہے۔

بدھ کو سانحہ جڑانوالہ کے حوالے سے درج ایف آئی آر میں 40 کے قریب افراد نامزد کئے گئے ہیں۔ سینکڑوں نامعلوم ہیں۔ مجموعی طور پر 5 مقدمات درج کئے گئے یہ مقدمات توہین مذہب کے ابتدائی مسلم دعوے پر درج ہوئے مقدمہ سے الگ ہیں۔

مجموعی طور پر 12 سو افراد کے خلاف 5 مقدمات درج ہوئے تادم تحریر پولیس کے دعوے کے مطابق 150 بلوائیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

نگران صوبائی حکومت سانحہ جڑانوالہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانے پر غور کر رہی ہے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب جڑانوالہ کے درجنوں متاثرہ مسیحی خاندانوں نے بچوں بچیوں اور خواتین سمیت کھیتوں میں چھپ کر کھلے آسمان تلے رات بسر کی جس کی تصاویر وائرل ہوئیں جس سے ہر صاحب اولاد کا سر شرم سے جھک گیا۔

بلوائیوں کے خلاف درج مقدمات میں 295 سی کی دفعہ کیوں نہیں لگائی گئی یہ بذات خود ایک سوال ہے۔ اس سے اہم سوال یہ ہے کہ جن لوگوں نے مسیحی برادری کے خلاف احتجاج منظم کیا بلوائیوں کی قیادت کی ان چار سے چھ افراد کے خلاف کیا کارروائی ہوگی اور ان چھ میں سے چار افراد کے نام مقدمات میں کیوں شامل نہیں بلکہ چند نامزد ملزمان کو اعلیٰ پولیس افسروں کی پریس بریفنگ کے دوران ان کے ساتھ بیٹھایا گیا۔

سانحہ جڑانوالہ کی ہرکس و ناکس نے دوٹوک انداز میں مذمت کی۔ مذمت ہی بنتی ہے۔ بالفرض توہین کا پہلا الزام درست بھی ہو تو بھی جواباً جو کچھ ہوا وہ صریحاً درندگی، توہین مقدسات اور انسانیت و امن پر کھلا حملہ تھا۔

ہمیں سماجی رویوں، تین چار عشروں میں سرطان کی طرح پھیلی تنگ نظری، سٹریٹ جسٹس کے جنون ان سب کو نہ صرف شعوری طور پر دیکھنا ہوگا بلکہ لوگوں کو اس سے نجات دلانے کی کوشش کرنا ہوگی۔

سانحہ شانتی نگر، سانحہ گوجرہ و فیصل آباد ، جوزف کالونی لاہور، یوحنا آباد لاہور، اسلام آباد والے رمشا مسیح کیس سمیت پچھلے تین ساڑھے تین عشروں میں درجنوں افسوس ناک واقعات رونما ہوئے بعض واقعات کی تحقیقات میں ثابت ہوا کہ مدعی جھوٹا تھا۔ رمشا مسیح کیس میں تو مدعی کا اعترافی بیان بھی موجود ہے پھر ان جھوٹے مدعیوں کے خلاف توہین مذہب کے قوانین کے تحت کاروائی کیوں نہ ہونے دی گئی کون کہاں کہاں مانع ہوا؟

ان سوالوں اور باتوں کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ یہ درست ہے کہ سانحہ جڑانوالہ کے بعد پاکستانی سماج کے اکثریتی مسلم طبقے نے دوٹوک انداز میں اس کی مذمت کی اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا مگر کیا یہ مذمت اور کارروائی کا مطالبہ کافی ہے۔

اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے سماج کی ازسر نو تطہیر ہو۔ یہ کیسے ہوگی؟ یہی اہم اور بنیادی سوال ہے۔ ہمیں اپنے نصاب تعلیم کو متوازن بنانا ہوگا۔ اقلیتوں کی جگہ دیگر مذہبی برادریوں کی اصطلاح کو رواج دینا ہوگا۔ مساوی شہری حقوق کا احترام بہت ضروری ہے۔ توہین مذہب و مقدسات کے قانون پر قائم مسلم اجارہ داری ختم کرنا ہوگی۔ دیگر مذاہب اور ان کے مقدسات کی توہین پر بھی قانونی گرفت لازم ہے۔

ذرا یاد کیجئے کہ سانحہ جوزف کالونی لاہور کے بعد آئی جی پنجاب نے سپریم کورٹ میں کیا موقف اپنایا تھا۔ یہی کہ ’’اگر ہم (پولیس) بلوائیوں کے خلاف کارروائی کرتے تو ہنگامے پھیل جاتے‘‘۔ قانون کی حاکمیت مسلمہ اگر پیش نظر ہو تو اسے منوانے کے لئے فرض ادا کیا جاتا ہے اگر مگر وغیرہ کا سہارا نہیں لیا جاتا۔

نگران وزیراعلیٰ سانحہ جڑانوالہ پر تحقیقاتی کمیشن بنانا چاہتے ہیں پھر بسم اللہ کریں۔ کمیشن کے ٹی آر اوز تیار کرکے ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کریں البتہ ان کی خدمت میں یہ عرض کیا جانا ضروری ہے کہ اسی صوبے میں ایک ریٹائر جسٹس عارف اقبال بھٹی محض اس لئے قتل کر دیئے گئے تھے کہ انہوں نے توہین مذہب کا ایک مقدمہ غلط ثابت ہونے پر نامزد ملزمان کو بری کرتے ہوئے رہا کر دیا تھا۔

یہ یاد دلانے کا مقصد خوف پیدا کرنا نہیں بلک یہ بتانا مقصود ہے کہ جس سماج میں یہ صورت حال ہو وہاں انصاف کرنے والے بھی جان کی امان کے طلب گار ہوتے ہیں۔

اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ پورے سماج کی ازسر نو تطہیر ہو۔ یہ کیسے ہوگی؟ یہی اہم اور بنیادی سوال ہے۔ ہمیں اپنے نصاب تعلیم کو متوازن بنانا ہوگا۔ اقلیتوں کی جگہ دیگر مذہبی برادریوں کی اصطلاح کو رواج دینا ہوگا۔ مساوی شہری حقوق کا احترام بہت ضروری ہے۔ توہین مذہب و مقدسات کے قانون پر قائم مسلم اجارہ داری ختم کرنا ہوگی۔ دیگر مذاہب اور ان کے مقدسات کی توہین پر بھی قانونی گرفت لازم ہے۔

خطباء، واعظین وغیرہ کو متوجہ کرنا ہوگا کہ وہ اپنی تقاریر اور دروس میں شرف انسانی، سماجی وحدت اور باہمی احترام کی ضرورتوں کی طرف لوگوں کی توجہ دلائیں اور انہیں بتائیں کہ افضل و منتخب دین میں پسندیدہ امت والا کردار بھی اپنانا پڑتا ہے۔

یہ فوری حل ہے۔ طویل المدتی حل وہی ایک ہے کہ ریاست کا نظام سیکولر جمہوریت پر استوار ہو تاکہ قوانین اور انصاف امتیازی نہ ہوں۔ ہم سبھی اور بالخصوص ریاست کو اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے کہ قیام پاکستان کے وقت دیگر مذہبی برداریوں کا مجموعی فیصد تناسب کیا تھا اور آج کیا ہے نیز یہ کہ پچھتر برسوں میں ان کے مجموعی فیصد تناسب میں جو کمی ہوئی اس کی وجوہات کیا ہیں۔

ہمیں بطور خاص یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم مخلوق خدا ہیں خدا کے مقرر کردہ جلاد ہرگز نہیں اور مخلوق میں صرف مسلمان ہی نہیں آتے بلکہ پورے کرہ ارض پر بسنے والے تمام انسان خدا کی مخلوق ہیں۔

یہ کڑوی حقیقت ہے کہ سانحہ جڑانوالہ نے ہمارے سماج کے کھوکھلے پن کے ساتھ دور اندر تک سرائیت کر جانے والی انتہا پسندی کو ایک بار پھر بے نقاب کر دیا ہے۔ اس سماج کے "مہربانوں اور قدردانوں” ہر دو کو اصلاح احوال کے لئے حکمت عملی وضع کرنا ہوگی۔

اکثریتی مسلم طبقات کو ازسرنو اپنے رویوں، رجحانات اور فہمی بالادستی کے جنون کا نہ صرف جائزہ لینا ہوگا بلکہ اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کس بات اور عمل سے معاشرتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔

ریاست، حکومت اور عوام کو مل کر یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ دستور میں دیئے گئے شہری، سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کسی بھی طرح پامال نہ ہونے پائیں۔ دیگر مذہبی برادریوں کے بارے میں حقارت آمیز رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ان امتیازی قوانین کو باردیگر دیکھنا ہوگا جو ایک ہی ملک میں بسنے والے کچھ لوگوں کو درجہ اول کا اور کچھ کو درجہ دوئم کا شہری بناتے ہیں۔

ان معروضات پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت اگر سانحہ جڑانوالہ کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنانا چاہتی ہے تو بارِدیگر بسم اللہ۔ البتہ ایک صائب مشورہ ہے وہ یہ کہ اگر دستیاب ہوں تو سانحہ شانتی نگر، سانحہ گوجرہ ، سانحہ جوزف کالونی لاہور، سانحہ یوحنا آباد لاہور سمیت رمشا مسیح کیس کی رپورٹس اس کمیشن کو ابتدائی مطالعہ کے لئے فراہم کی جائیں تاکہ تحقیقات سے قبل کچھ ماضی اور واقعات بارے مواد ان کے سامنے تو ہو

کمیشن اگر بنتا ہے تو سب سے پہلے وہ اس بات کی تحقیقات کرے کہ شراب کا وہ ذخیرہ کس کا تھا جس کے پکڑے جانے کے بعد اے سی کی جانب سے سفارش کو مسترد کرنے کے بعد یہ سارا فساد برپا ہوا؟

یہ اگر محض الزام ہے تو جن لوگوں نے اسے اچھالا ان کے خلاف کارروائی ہو درست ہے تو اس سفارشی وفد کو کسی تاخیر کے بغیر سرکاری تحویل میں لیا جائے۔

ریاست، حکومت اور عوام کو مل کر یہ امر یقینی بنانا ہوگا کہ دستور میں دیئے گئے شہری، سیاسی، معاشی اور مذہبی حقوق کسی بھی طرح پامال نہ ہونے پائیں۔ دیگر مذہبی برادریوں کے بارے میں حقارت آمیز رویہ تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ان امتیازی قوانین کو باردیگر دیکھنا ہوگا جو ایک ہی ملک میں بسنے والے کچھ لوگوں کو درجہ اول کا اور کچھ کو درجہ دوئم کا شہری بناتے ہیں۔

مکرر اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ ماضی کے انگنت واقعات ماہ و سال گزر جانے کے بعد بھی کالک کی صورت میں ہمارے سماج کے چہرے پر موجود ہیں۔ درست یا غلط توہین ہوئی ہے یا نہیں فیصلہ بہر طور قانون اور عدالتوں کو کرنا ہے یہ سٹریٹ جسٹس کا جنون ریاست کی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہا ہے۔

جڑانوالہ کے سانحہ کے حوالے سے ایک بات بہت وٗاضح ہے، قرآن مجید کی توہین کا الزام ہے مقدس مسیحی کتاب بائبل اور دیگر مذہبی کتب جلائی گئیں۔ دونوں معاملات کی آزادانہ تحقیقات بہت ضروری ہیں۔

یہ بھی کہ جس ایک مذہبی تنظیم نے بدھ کو اس سارے فساد کو بڑھانے میں کردار ادا کیا اور جمعرات کو امن واک کا ڈھکوسلہ اس کے خلاف بلاخوف و امتیاز کارروائی ضروری ہے۔

میں نے گزشتہ کالم میں سانحہ کے پس منظر کے حوالے سے جن چا رباتوں کا ذکر کیا تھا ان میں مسیحی برادری کی قیمتی نجی کمرشل اور زرعی اراضی پر قبضہ گیری کی سوچ کا بھی تذکرہ شامل تھا۔

جڑانوالہ جیسے دورافتادہ چھوٹے شہر اور مضافات میں 16 رجسٹرڈ اور 5 غیر رجسٹرڈ گرجا گھروں کو نذر آتش کئے جانے سے بھی اگر آپ حقائق سے آنکھیں چراتے ہیں تو اپنے حال میں مست رہیں لیکن اگر آپ سانحہ جڑانوالہ کے پس منظر اور زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر دیکھیں گے تو کسی تامل کے بغیر سمجھ لیں گے کہ معاملہ صرف توہین مذہب کا ہرگز نہیں۔

توہین مذہب کے کارڈ کی آڑ میں مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لئے جلاؤگھیراؤ کیا گیا۔

مصنف کے بارے میں:

حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں  سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب  کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں