چترال میں انگریزوں کی آمد اور برطانوی کالونائزیشن کے بعد جب یہاں پر باڈی گارڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے بعد یہاں نسلی و نسبی تعصبات کو گویا ہوا مل گئی۔ مورخ ہدایت الرحمن کے مطابق باڈی گارڈ میں بعض پلاٹوں مختلف قبائل کے لئے مختص تھے جن میں انہی قبیلوں کے لوگ شامل ہو سکتے تھے جب ان قبیلوں کے لوگ پورا نہیں ہوتے تھے تو دوسرے قبیلوں کو بھی اپنے قبیلے میں ضم کرکے بارڈی گارڈ میں اپنا اعداد و شمار پورا کرتے تھے۔
تحریر: کریم اللہ
چترال میں نسبی و نسلی تعصبات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہاں کی ہر برادری دوسرے برادری کو نیچا دکھانے، اپنے سے کمتر ظاہر کرنے اور خود کو عظیم ترین نسل ظاہر کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ رویہ نہ صرف سابقہ ریاستی دور کے مراعات یافتہ طبقے میں عام ہیں بلکہ عام لوگوں یعنی یوفت طبقے میں بھی یہی رویہ پایا جاتا ہے۔ آج بھی اکثر رشتے ناطے میں لوگ قابلیت و لیاقت سے زیادہ برادری کا پوچھتے ہیں۔ یہ ایک ایسا ناسور ہے جو معاشرے کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے اور اسی ناسور کی وجہ سے چترال میں نہ تو ڈھنگ کا سیاسی قیادت ابھر رہا ہے اور نہ صحافی، ادیب، شاعر، لکھاری، ایکٹوسٹ وغیرہ پیدا ہو رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ چترالی معاشرے اپنے اندرونی تعصبات اور عدم برداشت کی وجہ سے بدترین تنزلی کا شکار ہے۔
المیہ یہ ہے کہ یہاں کے سارے لوگ اپنے آباؤ و اجداد کو باہر سے آئے ہوئے شہزادے اور دوسرے اعلی درجے کے مخلوق ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں کی تاریخ اور تاریخ نویسی بھی کم و بیش انہی پہلیوں کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
چترال میں انگریزوں کی آمد اور برطانوی کالونائزیشن کے بعد جب یہاں پر باڈی گارڈ کا قیام عمل میں لایا گیا تو اس کے بعد یہاں نسلی و نسبی تعصبات کو گویا ہوا مل گئی۔ مورخ ہدایت الرحمن کے مطابق باڈی گارڈ میں بعض پلاٹوں مختلف قبائل کے لئے مختص تھے جن میں انہی قبیلوں کے لوگ شامل ہو سکتے تھے جب ان قبیلوں کے لوگ پورا نہیں ہوتے تھے تو دوسرے قبیلوں کو بھی اپنے قبیلے میں ضم کرکے بارڈی گارڈ میں اپنا اعداد و شمار پورا کرتے تھے۔ یہاں سے چترال میں نسب و نسل تبدیلی کا نیا دور شروع ہوا۔ اور خصوصا یہاں کے قدیم الایام پشتنی باشندے اپنی برادریاں تبدیل کرکے بڑے مراعات یافتہ قبیلوں میں خود کو ضم کیا۔
المیہ یہ ہے کہ چترال کے سارے لوگ اپنے آباؤ و اجداد کو باہر سے آئے ہوئے شہزادے اور دوسرے اعلی درجے کے مخلوق ظاہر کرتے ہیں۔ یہاں کی تاریخ اور تاریخ نویسی بھی کم و بیش انہی پہلیوں کے گرد گھومتا رہتا ہے۔
پاکستان بننے کے بعد جب چترال میں بھی سیاسی دور کا آغاز ہوا تو اسی دور میں بھی برادری تبدیلی بالخصوص الیکشن لڑنے والے افراد کی جانب سے مختلف لوگوں اپنی برادریوں میں شامل کرنے کا رجحان جاری رہا۔
اس سلسلے میں سب سے بڑا ایوبی یونین ہیں جس میں سابقہ ریاستی دور کے مراعات یافتہ اکثر برادریوں کے لوگ شامل ہیں مگر حیران کن طور پر بابا ایوب کے بیٹے شاہ نو کی اولاد یعنی شاہنوے یا شاہنوی اس یونین کا حصہ نہیں۔ البتہ شاہنوے یونین نے خود کو منوانے اور ایوبی یونین کا حصہ بننے کی بہت کوشش کی جس کے لئے انہوں نے اپر و لوئر چترال میں بہت سارے غیر شاہنوے لوگوں کو بھی اپنی برادری میں شامل کیا اس کے باؤجود وہ ایوبی یونین ک باضابطہ حصہ نہ بن سکیں۔
میری اپنی تحقیق کے مطابق روشتے برادری کے اتالیغ صاحب نے بھی موڑکھو میں بڑی تعداد میں عام لوگوں کو اپنی برادری میں شامل کیا تھا۔
اسی طرح موڑکھو ہی سے تعلق رکھنے والے دشمانے برادری کے چیرمین نے بہت سارے لوگوں کو اپنی برادری میں شامل کیا حد تو یہ ہے کہ چیرمین نے جن لوگوں کو اپنی برادری میں شامل کیا تھا انہیں دیگر دشمانے بھی اپنی برادری تسلیم نہیں کرتے مگر الیکشن کے دنوں میں یہ ایک ہو جاتے ہیں۔ دشمانے یونین میں لٹکوہ سے بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو شامل کیا گیا تھا۔
کہ چترال میں نسل و نسب پرستی کا جن بے قابو ہو گیا ہے اور چترال میں کوئی بھی شخص اجتماعی سوچ کے ساتھ الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی برادری کا کوئی فرد کامیاب ہو جائے تاکہ انہیں کلاس فور ملازمتیں مل سکے اور ان کے کسی غیر قانونی کام دھندے کو سہارا مل سکیں۔
اسی طرح اپر چترال مستوچ کے علاقے کی بات کی جائے تو یہاں بھی بڑی تعداد میں پشتنی باشندوں کو وقتا فوقتا زوندرے بنایا گیا اور وہ لوگ بھی دل بخوشی زوندرے برادری میں شامل ہو گئے یہ پوچھے بنا کہ آخر ہماری پرانی شناخت کا کیا ہوگا۔۔؟ لٹکوہ کے علاقوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگوں کو زوندرے بنانے کے قصے کہانیاں مشہور ہیں۔ اور ہمارے علاقوں میں چند برس قبل بھی یہ پریکٹس کیا گیا۔ زوندرے یونین کے میٹنگوں میں ان نئے شامل ہونے والوں میں بھی بااثر افراد کو بلایا جاتا ہے اور ان سے مشورے لئے جاتے ہیں جبکہ الیکشن کے دنوں میں یہ نئے زوندرے یعنی نان کسٹم پیٹ( یہ این سی پی کی اصطلاح ان نئے شامل ہونے والوں کے لئے وہ خود استعمال کرتے ہیں) اپنی برادری ( جس میں شامل ہوئے ہفتہ ہفتہ دس دن نہیں گزرے ہیں) کے لئے تن من دھن کی بازی لگا دیتے ہیں۔
اسی طرح ہمارے ہاں 1999ء کے رئیسے بھی کافی تعداد میں موجود ہے جن کے بارے میں مشہور ہے کہ اخونزادہ صاحب نے انیس سو ننانوے کے دور میں رئیسے بنا کر انہیں نئی شناخت دی تھی۔ جبکہ 2018ء کے عام انتخابات میں مولانا عبدالاکبر چترالی نے رئیسے کارڈ کا بھر پور استعمال کر کے مستوچ کی سطح پر بڑی مقدار میں ووٹ بٹور لئے۔ ٹھیک اسی طرح لٹکوہ سے حاجی غلام محمد صاحب کو بھی کافی ووٹ پڑے۔ جبکہ اسرار صبور کو تورکھو و تریچ اور موڑکھو کے ماژے اور مستوچ کے پانے برادری نے کافی سپورٹ کیا تھا۔
ابھی حال ہی میں خیبرے یونین کا بھی بڑا چرچا ہے جنہوں نے اپنی برادری کو عرب میں موجود خیبر کے ساتھ ملا کر اور حضرت علی رض کے ساتھ جوڑنے کی کافی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ہمارے ہاں بشگالی یعنی بشگال سے آئے ہوئے برادری خود کو قریش کہہ کر عرب ظاہر کر رہے ہیں۔ یہ سارا کچھ اس امر کا غماز ہے کہ چترال میں نسل و نسب پرستی کا جن بے قابو ہو گیا ہے اور چترال میں کوئی بھی شخص اجتماعی سوچ کے ساتھ الیکشن میں ووٹ نہیں ڈالتے بلکہ ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی برادری کا کوئی فرد کامیاب ہو جائے تاکہ انہیں کلاس فور ملازمتیں مل سکے اور ان کے کسی غیر قانونی کام دھندے کو سہارا مل سکیں۔
مصنف کے بارے میں :
کریم اللہ عرصہ پندرہ سالوں سے صحافت سے شعبے سے منسلک ہے اس کے علاوہ وہ کالم نویس، وی لاگر اور وڈیو جرنلزم کر رہے ہیں۔
چترال اور گلگت بلتستان کے سیاسی، سماجی و معاشی مسائل و مشکلات اور روزمرہ کے واقعات پر لکھتے ہیں۔ جبکہ وہ بام دنیا کے ایڈیٹر ہے ۔