ہمارا قدیم ہمارے جدید کی نسبت بہت سنہرا رہا ہے۔ ہم تاریخی اعتبار سے آزاد سلطنتوں اور خود مختار راجواڑوں کے باسی رہے ہیں۔ ہمارا خطہ تین سلطنتوں کے ملاپ کا مرکز رہا ہے۔ ہم ہی نے عظیم قدیم تہذیبوں کو اہم ترین تاریخی تجارتی رستے فراہم کئے ہیں۔ ہم نے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے سنگم میں چاربڑے مذاہب کو کشادہ دلی سے جگہ دی ہے۔ ہمارے اجداد نے زرتشتوں کے مقدس آگ کا الاو ہاتھ میں تھامے مغرور پہاڑوں پر عظیم بدھا کو کُندہ کیا ، بھگوان رام کو نمسکار کہا اور لا الہ الا اللہ کے کلمے کی تاثیر کو یہاں کے ہوا میں ثبت کر دیا ۔
تحریر: عنایت بیگ
میرا تعلق دنیا کی آخری نوآبادی سے ہے۔ میں اس جدید نوآبادی کی پانچویں نسل میں سے ہوں اور میرے بعد کی تیسری نسل نے اسی نوآبادی میں ابھی سانسیں لینی شروع کی ہیں۔ مشہور الجزائری دانشور فرانز فینن نوآبادیوں میں بسنے والی نسلوں کے بابت لکھتے ہیں کہ” جب میں نے ہوش سنبھالا تھا تو میرے والد فرانسیسی آقاوں کی غلامی کی اذیت کاٹ رہے تھے، اور میرے والد نے جب ہوش سنبھالا تھا تو ان کے والد بھی فرانسیسی نوآبادیاتی جبر کے شکار تھے ، لہذا یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ نوآبادیات کا باشندہ نسلوں میں جاری تشدد، جبر اور بربریت کا پیداوار ہوتا ہے”۔
سماجی تاریخی تضادات کے نتیجے میں دنیا اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے دورِ غلامی سے فیوڈل ازم (زرعی سماج) پر پہنچی، وہاں سے انڈسٹریل کیپیٹلزم (صنعتی سرمایہ داری کے سماج) میں داخل ہوئی، پھر گلوبلائزیشن، جدیدیت، مابعد جدیدیت، روشن خیالی کا دور وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ میں سماجی ارتقاء کو لکیری مرحلوں کا پابند ہرگز نہیں سمجھتا مگر ہوا یہی کہ صنعتی سرمایہ داری کے آغاز سے لے کر جدید سرمایہ داری نظام تک دنیائے اول فیوڈل ازم اور اس کی تمام باقیات کا خاتمہ کر چکی اور فیوڈل ازم اور اس کے باقیات کے مکمل خاتمے کو سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ترقی، جدیدیت اور روشن خیالی کے لئے ایک لازمی مرحلہ سمجھا گیا، مگرادھر برصغیر اور اس کی تقسیم شدہ اکائیوں بالخصوص پاکستان میں نہ سرمایہ داری پوری طرح آسکی نہ یہا ں سے جاگیرداری کا خاتمہ ہو سکا۔
مجھے گلگت بلتستان محض اس فرق کے ساتھ اکیسویں صدی کا الجزائر لگتا ہے کہ نہ تو یہاں کوئی فرانز فینن پیدا ہو سکا اور نہ ہی ہمارے قبضہ گیروں کی مٹی کسی جین پال سارتر کو جنم دے سکی۔
اس وطن کے قبائلی مال برداروں اور زراعت پیشہ لوگوں پر قبضے کی ایک کہانی تو انیسوی صدی کے وسط سے بھی شروع ہوئی تھی، مگر ایک صدی تک باقاعدہ قبضہ گیروں کی ریاست کا تیسرا شمالی صوبہ رہتے ہوئے ہمارے اجداد نے نہ تو اپنی زبان کھوئی، نہ اپنی روایات، ثقافت اور تہذیب، بلکہ اس ریاست کے والی نے ہماری زمینوں اور وسائل کی بذریعہ قانون حفاظت بھی کی، جسے ہم آج بھی اپنی زمینوں پر قبضے کے خلاف بطور سیاسی آلہ اپنی مزاحمتی سیاسی بحث کا حصہ بناتے ہیں اور اسے سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نام دیتے ہیں۔ حالانکہ اس جبری قبضے کے مسائل اور نقصانات بھی اپنی نوعیت میں اہم ہیں، مگر بیسوی صدی کے وسط سے ہم جس نوآبادیاتی جبر کا شکار ہوئے ہیں اس نے ہم سے وہ تمام مراعات بھی چھین لئے جو ہمیں سابقہ نوآبادی میں دستیاب تھے، اسی نسبت میں اسے جدید نوآبادیاتی نظام لکھتا اور بولتا ہوں،جو کہ اس تحریر کا مرکز و محور ہے۔
یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ تضاد ہمیشہ کچھ نئے کو جنم دیتا ہے۔ سماجی تاریخی تضادات کے نتیجے میں دنیا اپنے ارتقائی مراحل سے گزرتے ہوئے دورِ غلامی سے فیوڈل ازم (زرعی سماج) پر پہنچی، وہاں سے انڈسٹریل کیپیٹلزم (صنعتی سرمایہ داری کے سماج) میں داخل ہوئی، پھر گلوبلائزیشن، جدیدیت، مابعد جدیدیت، روشن خیالی کا دور وغیرہ وغیرہ۔ حالانکہ میں سماجی ارتقاء کو لکیری مرحلوں کا پابند ہرگز نہیں سمجھتا مگر ہوا یہی کہ صنعتی سرمایہ داری کے آغاز سے لے کر جدید سرمایہ داری نظام تک دنیائے اول فیوڈل ازم اور اس کی تمام باقیات کا خاتمہ کر چکی اور فیوڈل ازم اور اس کے باقیات کے مکمل خاتمے کو سرمایہ دارانہ نظام سے جڑی ترقی، جدیدیت اور روشن خیالی کے لئے ایک لازمی مرحلہ سمجھا گیا، مگرادھر برصغیر اور اس کی تقسیم شدہ اکائیوں بالخصوص پاکستان میں نہ سرمایہ داری پوری طرح آسکی نہ یہا ں سے جاگیرداری کا خاتمہ ہو سکا۔
برصغیر کو تاج برطانیہ نے سامراجی ایجنڈے کے ذریعے اپنی نوآبادی بنائے رکھا اور برصغیر کی مشترکہ قوت کو اپنے سامراجی مفادات کے پیش نظر ہندو اور مسلمان میں بانٹ کر دو مملکتیں علیحدہ کی۔ اسی دور میں برصغیر کے شمال کی طرف ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا موجود تھی جس کے والی سامراجی خدمات تو سرانجام دیتے رہے مگر تقسیم کے فارمولے (مسلم آبادی پاکستان اور ہندو آبادی بھارت) کے متضاد اپنی ریاستی حیثیت کو برقرار رکھنے کا اعلان کیا مگر پاکستان اور بھارت یکے بعد دیگرے ریاست جموں کشمیر و اقصائے تبت ہا کے مختلف اکائیوں پر قابض ہوگئے اور منقسم ریاست پر نوآبادیاتی جبر کی ایک نئی کہانی شروع ہو گئ۔ پاکستان اور بھارت نے برصغیر سے انگریزوں کے نوآبادیاتی دور کے "ختم” ہوتے ہی ہماری ریاست پر قبضہ جما کر اپنی اپنی نئی نوآبادیات کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ یہ سن 47ء کی کہانی ہے۔ اس بار ہم نہ کسی ریاست کا حصہ تھے، نہ از خود کوئی ریاست۔ کبھی کسی کے شمالی علاقہ جات بنے ، کسی کی شہہ رگ اور نہ ہی کسی کا اٹوٹ انگ۔
ہمارا قدیم ہمارے جدید کی نسبت بہت سنہرا رہا ہے۔ ہم تاریخی اعتبار سے آزاد سلطنتوں اور خود مختار راجواڑوں کے باسی رہے ہیں۔ ہمارا خطہ تین سلطنتوں کے ملاپ کا مرکز رہا ہے۔ ہم ہی نے عظیم قدیم تہذیبوں کو اہم ترین تاریخی تجارتی رستے فراہم کئے ہیں۔ ہم نے ہمالیہ، ہندوکش اور قراقرم کے سنگم میں چاربڑے مذاہب کو کشادہ دلی سے جگہ دی ہے۔ ہمارے اجداد نے زرتشتوں کے مقدس آگ کا الاو ہاتھ میں تھامے مغرور پہاڑوں پر عظیم بدھا کو کُندہ کیا ، بھگوان رام کو نمسکار کہا اور لا الہ الا اللہ کے کلمے کی تاثیر کو یہاں کے ہوا میں ثبت کر دیا ۔ ہمارا تعلق اس مٹی سے سینکڑوں نہیں ہزاروں سالوں کا ہے۔ ہمارے دریا وں (شینا:سِن, بروشسکی: سِندا) نے سندھو کی عظیم تہذیب کو جنم دیا ہے اور سندھو کی تہذیب نے ہند اور سندھ کو جنم دیا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ آج سندھو کے پوتے اور پڑپوتے سندھو کے نقطہِ آغاز پر سوال اٹھائے کھڑے ہیں۔
تبت اور کاشیر نے تم کو صدیوں سے سیراب کیا
اور پھر آج جو تبت سوکھا ہے, سندھو خاموش ہے
میرے ملنگ اور جان علی نے کیا تعریف لکھی تیری
عرضِ شمال میں قحط پڑا ہے تو باہُو خاموش ہے
بروشال، دردستان اور بلور ہمارے اجداد کی جدوجہد کے سنہرے تاریخی اوراق ہیں مگر 47 ء کے بعد بھی اس نومولود جبر کے خلاف ہمارے اجداد پوری جانفشانی سے نبرد آزما رہے ہیں۔ ایف سی آر کے خلاف پوری دھرتی ہم آواز تھی۔ اس تحریک کے تینوں رہنما تینوں بڑے مسالک (شیعہ، سنی اور اسماعیلی) سے تعلق رکھتے تھے مگر کوئی تفرقے کا عنصر نہیں تھا اور عوام کا ایک جم غفیر ان کی قیادت پر بھروسہ کیا کرتا تھا اور ان کے حکم پر لبیک کہتا تھا۔ ان اکابرین کی جدوجہد کامقصد ایف سی آر کے کالے قانون کا خاتمہ تھا، مگر جب ان کی جدوجہد اپنے منطقی انجام کے قریب پہنچی تو پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس خطے میں تشریف لا کر ایف سی آر کے ساتھ مقامی راجگی نطام کے بھی خاتمے کا اعلان کیا، جو کہ اس تحریک کے مطالبات سے تجاوز تھا۔راجگی نظام کے مسائل اپنی جگہ مگر یہ ایک طرح کا راجا اور پرجا کے درمیان کا عمرانی معاہدہ تھا، جس کو ختم کرنے کے بعد اس خطے کی عوام کو بغیر کسی عمرانی معاہدے کے چلایا جاتا رہا۔ گلگت بلتستان کے نامور محقق و دانشور عزیز علی داد اس عمل کو نوآبادیات کے لئے انتہائی خطرناک سمجھتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جو خطے بغیر عمرانی معاہدے کے چلائیں جائیں وہاں عوام اور حکمرانوں کے درمیان موجود خلا کو بڑے بھیانک نتائج پُر کر سکتے ہیں۔
نوآبادیاتی جبر ایک طرف، مگر 1960 کے بعد اس خطے میں این جی اوز کی آمد شروع ہوئی جو کہ تاحال جاری ہے۔ نوآبادیاتی ریاست نے اپنا جبر تیز کیا، این جی اوز نے سیاسی تنظیم کاری کو کچلا اور نام نہاد جدید تعلیم نے وفادار نوکروں کی ایک فوج پیدا کی۔ زراعت پیشہ اور مال برداد قبائلیوں کو پراجیکٹس اور پروپوزلز میں مصروف رکھا گیا۔ خطے کے کچھ اضلاع کو این جی اوز کے حوالے کیا گیا، کچھ کو نوآبادیاتی آقاوں نے براہ راست بندوق کی نوک پر ترقی سے الگ رکھا تو کہیں پر رجعت پرستی کو فروغ دے کر نام نہاد افغان جہاد کے لئے ایندھن تیار کیا گیا۔ نتیجتاً آج ہمارا وطن ایک ناقابل واپسی عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے۔ ایک طرف نام نہاد روشن خیالی ٹھاٹھیں مار رہی ہے تو دوسری طرف رجعت پسندی کاٹ کھا رہی ہے۔ پھر ہماری نئی نسلوں کو جدید تعلیم، جدید نصاب اور جدید میڈیا کے ذریعے اس فریب پر راضی کیا گیا ہے کہ یہ تفریق سیاسی نہیں بلکہ مسلکی ہے اور اس کی ذمہ داری ریاستی پالیسیوں پر نہیں بلکہ مخالف مسلک پر عائد ہوتی ہے۔ لہذا اب ایک ضلعے میں خواتین کا رقص اسلام کو خطرے میں ڈال دیتا ہے دوسرے ضلعے میں عورتوں کو ووٹ کے حق سے محروم رکھنے سے نام نہاد روشن خیالی کا جنازہ اٹھ جاتا ہے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ نوآبادیاتی ریاست کی پالیسیوں کے نتیجے میں ہمیں منظم انداز میں تقسیم کیا گیا ہے کیونکہ سامراجیت کی بقا ہمارے منقسم رہنے میں ہی ہے. ہمارا باہمی اتحاد کا ماضی ہمارے دشمنوں کے لئے سبق آموز رہا ہے، مگر ہم اسے کفریہ اتحاد مان کر ترک کر چکے ہیں۔
سن 80 کی دہائی تک صوبہ مانگنے والے ملک کے غدار کہلاتے تھے اور پابند سلاسل کئے جاتے تھے۔ 90 کی دہائی میں آزاد ریاست کا مطالبہ سامنے آیا اور وہ بھی ملک دشمن قرار پایا اورمطالبہ کرنے والے اپنی سزا پاگئے۔ آج پانی کا حق مانگنے والےبھی غدار ہیں، اپنے جنگل اور اپنے معدنیات پر اپنی خود مختاری کی بات کرنے والے بھی بیرونی ممالک کے ایجنٹ ہیں، گھر کی دہلیز پر تعلیم اور روزگار کے حق کا مطالبہ بھی غداری کے ضمرے میں آتا ہے اور حال ہی میں معیاری انٹرنیٹ کی سہولت طلب کرنا بھی ریاست مخالف بیانیہ تسلیم کیا جا چکا ہے۔
1960 کے بعد اس خطے میں این جی اوز کی آمد شروع ہوئی جو کہ تاحال جاری ہے۔ نوآبادیاتی ریاست نے اپنا جبر تیز کیا، این جی اوز نے سیاسی تنظیم کاری کو کچلا اور نام نہاد جدید تعلیم نے وفادار نوکروں کی ایک فوج پیدا کی۔ زراعت پیشہ اور مال برداد قبائلیوں کو پراجیکٹس اور پروپوزلز میں مصروف رکھا گیا۔ خطے کے کچھ اضلاع کو این جی اوز کے حوالے کیا گیا، کچھ کو نوآبادیاتی آقاوں نے براہ راست بندوق کی نوک پر ترقی سے الگ رکھا تو کہیں پر رجعت پرستی کو فروغ دے کر نام نہاد افغان جہاد کے لئے ایندھن تیار کیا گیا۔ نتیجتاً آج ہمارا وطن ایک ناقابل واپسی عدم توازن کا شکار ہو چکا ہے۔
جدید قانون قومی ریاستوں کے انتظام و انصرام کے لئے آئین مرتب کرتا ہے۔ ایسا ہی ایک آئین ریاست پاکستان و ہندوستان کا بھی ہے جس پر آئے روز ان ممالک کی کوئی نہ کوئی قومی اکائی اعتراض اٹھاتی رہتی ہے۔ یہاں یہ بات نہایت اہم ہے کہ ہمارے خطے کا اپنا قدیم قانون تھا، جو لکھت میں نہیں ہونے کے باوجود خطے کے طول و عرض پر تمام قانونی معاملات پر پوری یکسانیت سے لاگو تھا اور اس کی عملداری بھی اپنی مثال آپ تھی۔ ہمارے یہ کسٹمری قوانین ہمارے زمین، جنگل، پانی، بائیوڈائیورسٹی کی حفاظت کا واضح پلان رکھتے تھے، مگر آج ہمارے پشتنی قوانین کو ہماری نئی نسل کے حافظے سے یکسر مٹایا جا چکا ہے۔ دوسری طرف جدید تھانہ کچہری کی آمد کے ساتھ ہی نہ صرف جرائم کی شرح میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے بلکہ ہمارے وسائل کی بے دریغ لوٹ مار بھی عروج پر پہنچ چکی ہے۔
میں جب اس تمام تاریخی و سیاسی ارتقاء پرگہرائی سے سوچتا ہوں تو مجھے پورا یقین ہوجاتا ہے کہ اس غیر منظم جدیدیت نے روشن خیالی کے نام پر ہماری کئی نسلوں کو اپنے پُشتنی سیاسی اظہار سے بیگانہ کر دیا ہے اور دوسری طرف ریاستی پالیسی کے پیش نظر پھیلائی گئی رُجعت پسندی نے ہماری کئی نسلوں کو جدیدیت کی اہم ضروریات و حاصلات سے بھی محروم رکھا ہے۔ یہ ہمارے مشترکہ پُشتنی سیاسی اظہار کے بقاء کی لڑائی ہے اور اس میں فتح یاب ہونے کے لئے ہمیں نام نہاد روشن خیالی کے فریب اور موذی رُجعت پسندی کے چنگل دونوں سے نکلنا ہوگا۔ ہماری تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہمارا قدیم ہمارے جدید سے زیادہ سنہرا رہا ہے، لہذا ایک ترقی پسند مستقبل کے حصول کے لئے اپنے قدیم سے رجوع کرنا اب ہمارے لئے ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں قدامت پسندی میرے لئے لُغت کا مفہوم کھو رہی ہے اور اس جدوجہد کا ایک اہم آلہ بن کر سامنے آ رہی ہے، کیونکہ نام نہاد روشن خیالی نے ہمیں محص ایک سنہرے مستقبل کا فریب دیا ہے اور مذہبی و ثقافتی رُجعت پسندی نے ہمیں نوآبادیاتی آقاوں کی جنگوں کا ایندھن بنایا ہے۔ پس ، ایک ترقی پسند مستقبل کے لئے ایک قدامت پسند حکمت عملی اب وقت کی ضرورت ہے۔