سرمایہ کاروں سے آرمی چیف کی گفتگو کے چنیدہ چنیدہ جو نکات گردش کر رہے ہیں ان پر بات ہونی چاہیے۔ بات اس لئے بھی ہونی چاہیے کہ آرمی چیف کی گفتگو سے جو تاثر ابھرا ہے وہ یہ ہے کہ ’’کوئی لمبا‘‘ پروگرام ہے۔
تحریر: حیدر جاوید سید
اس پر دو رائے نہیں کہ کرپشن کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ ڈالر سمگلنگ خصوصاً اس کی افغانستان سمگلنگ کرنے والوں، حصہ داروں اور سرپرستوں کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ ایرانی تیل (پٹرولیم مصنوعات) کی سمگلنگ کا بھی خاتمہ ہونا چاہیے۔ ملک کے خسارے والے اداروں میں سے سیاسی بھرتیاں ختم ہونی چاہیں (اس پوائنٹ میں یہ اضافہ کر لیجئے کہ ملک کے تمام سول اداروں میں کھپائے گئے ریٹائر عسکری نابغوں کو بھی گھر بھیجا جانا چاہیے۔
سیاسی بھرتیاں جتنا جرم ہیں بندوق کے زور پر حاصل کی گئی بوڑھاپے کی نوکری بھی اتنا ہی ظلم ہے) غیرمنافع بخش اداروں کی نجکاری یقیناً ضروری ہے ، شرپسند عناصر سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا فیصلہ تو ہوتا ہی رہتا ہے عمل کب ہوگا ؟ نان فائلر معیشت کا خاتمہ ، عرب ممالک سے سرمایہ کاری لاکر ڈالر کی شرح تبادلہ میں کمی، پاکستان میں سیاسی استحکام اور معیشت کی بحالی ، یہ مجموعی طور پر 10 نکات ہیں۔
پچھلے دو دن سے سوشل میڈیا اور بعض ٹی وی چینلز پر یہ دس نکات اس دعویٰ کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں کہ یہ باتیں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے ملک کے 50 ممتاز سرمایہ کاروں سے اپنی حالیہ ملاقات میں بیان کیں ۔
اصولی طور پر ان میں سے کوئی بات یا یوں کہہ لیجئے کہ کام غلط نہیں سیاسی بھرتیوں والے نکتے کے ساتھ ضمنی طور پر اپنی رائے لکھ دی ہے مکرر بھی عرض کئے دیتا ہوں کہ سول محکموں میں ریٹائر عسکری نابغوں بابوں کو ازسرنو ملازمت دینا یا حاضر سروس افسران کو دونوں کام غلط ہیں یہ ایک تو اہل و باصلاحیت افراد کا استحصال ہے ثانیاً اس کی وجہ سے نئی نسل میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔
اب آیئے اصل معاملے کے حوالے سے بنیادی بات کرتے ہیں۔ یہ باتیں اگر 50 ممتاز سرمایہ کاروں سے ملاقات میں واقعتاً آرمی چیف نے کی ہیں تو یہ ان کا دائرہ اختیار ہی نہیں ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ وہ ان نکات کو (اگر واقعی ان کے ہیں) ایک تحریر کی صورت میں وزارت دفاع کی معرفت حکومت کو بھجوادیتے تو زیادہ بہتر تھا۔
یہ بھی کہ امریکی حکومت نے بارڈر مینجمنٹ کے لئے اعلان کردہ ساڑھے 4 ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی عارضی طور پر ملتوی کر دی ہے۔ یہ التواء کانگریس کے اس طے شدہ اصول کے مطابق ہے کہ کسی ملک کو کسی بھی طرح کی امداد دیتے وقت یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ اس ملک میں جمہوری نظام ہے یا نہیں البتہ امریکی صدر امداد لینے والے ملک کے معروضی حالات اور ضرورتوں کے حوالے سے کانگریس کو اطمینان دلائیں کہ غیر منتخب قیادت والے ملک کو دی جانے والی امداد نادرست مدوں میں استعمال نہیں ہوگی۔
ذاتی طور پر میں اس رائے سے بھی متفق نہیں ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی ملازمت کا شعبہ اور فرائض منصبی دونوں انہیں اپنی حدود سے تجاوز کی اجازت نہیں دیتے۔
جبکہ ان سے منسوب یہ گفتگو سیاسی اور معاشی حوالوں سے ہے فوج کا کام سیاست و معیشت نہیں ملکی سرحدوں کا دفاع اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات سے نمٹنا ہے۔
ہمارے ہاں چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے، دستور بنانے والے منتخب قانون سازوں نے ہی اپنے بنائے دستور کو کبھی اہمیت نہیں دی تو دوسرے ایسا کیوں کریں گے۔
باردیگر عرض کئے دیتا ہوں یہ کام ہونے چاہئیں اور کرنے کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے جس نے اپنے ماتحت محکموں اور اداروں سے یہ کام لینا ہے لیکن اگر جان کی امان رہے تو یہ عرض کردوں کہ افغانستان کو ڈالرز سمیت دیگر اشیاء کی سمگلنگ کے کاروبار کے پس پشت کون ہے کیا بارڈر مینجمنٹ کے تعاون کے بغیر سمگلنگ ممکن ہے؟ ظاہر ہے کہ جواب نفی میں ہوگا۔
اسی طرح ایران سے پٹرولیم مصنوعات اور ٹائروں کی سمگلنگ کے کاروبار کا اصل سرپرست کون ہے؟ کم از کم پچھلے 2 عشروں سے کوئٹہ کے کس گھر کے مکین کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں اس حوالے سے؟
اسی طرح پچاس سرمایہ کاروں سے ہوئی گفتگو کا جو ایک اور جملہ ذرائع کے حوالے سے گردش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں کرپٹ لوگ موجود ہیں نیز یہ کہ یہ تینوں جماعتیں ملک اور نظام سے مخلص نہیں کیا کرپٹ لوگ صرف سیاسی جماعتوں میں ہی ہوتے ہیں ۔
حکومت پاکستان کے تمام محکموں اور اداروں میں سارے "حاجی لطیف اللہ” بھرتی ہیں ان میں کرپشن بالکل نہیں ہوتی؟
سرمایہ کاروں سے آرمی چیف کی گفتگو کے چنیدہ چنیدہ جو نکات گردش کر رہے ہیں ان پر بات ہونی چاہیے۔ بات اس لئے بھی ہونی چاہیے کہ آرمی چیف کی گفتگو سے جو تاثر ابھرا ہے وہ یہ ہے کہ ’’کوئی لمبا‘‘ پروگرام ہے۔
’’لمبا‘‘ پروگرام بنانے والے بین الاقوامی برادری کا دباؤ برداشت کرلیں گے؟ کیا کسی کے علم میں یہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف نے پاکستانی ذمہ داروں سے حال ہی میں کہا ہے کہ ایسے اقدامات اور بیانات سے گریز کیا جائے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ نظام کو منتخب قیادت کے بغیر چلانے کا پروگرام ہے۔
یہ بھی کہ امریکی حکومت نے بارڈر مینجمنٹ کے لئے اعلان کردہ ساڑھے 4 ارب ڈالر کی رقم کی ادائیگی عارضی طور پر ملتوی کر دی ہے۔ یہ التواء کانگریس کے اس طے شدہ اصول کے مطابق ہے کہ کسی ملک کو کسی بھی طرح کی امداد دیتے وقت یہ ضرور دیکھا جائے گا کہ اس ملک میں جمہوری نظام ہے یا نہیں البتہ امریکی صدر امداد لینے والے ملک کے معروضی حالات اور ضرورتوں کے حوالے سے کانگریس کو اطمینان دلائیں کہ غیر منتخب قیادت والے ملک کو دی جانے والی امداد نادرست مدوں میں استعمال نہیں ہوگی۔
یہاں ایک سوال ہے وہ یہ کہ کیا اس وقت پاک امریکہ تعلقات اس نہج پر استوار ہیں کہ امریکی صدر بارڈر مینجمنٹ کے لئے اعلان کردہ رقم کی پاکستان کو فراہمی کے لئے مزید عملی اقدام کرے؟ کم از کم میرا جواب نفی میں ہے۔
کابل پر افغان طالبان کا قبضہ کرانے کے وقت سے اب تک یہ تعلقات ٹھنڈے ماٹھے ہیں۔
کرپشن ایک مسئلہ ہے لیکن یہ کہنا کہ صرف سیاسی جماعتوں کے لوگ کرپشن کرتے ہیں یہ سفید جھوٹ تو ہے ہی اس کے ساتھ ساتھ یہ الزام اصل میں ان بڑے ڈاکوؤں کے جرائم سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اچھالا جاتا ہے جن کی کرپشن پر بات کرنے سے خطرات حادثات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔
اسی طرح پچاس سرمایہ کاروں سے ہوئی گفتگو کا جو ایک اور جملہ ذرائع کے حوالے سے گردش کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں کرپٹ لوگ موجود ہیں نیز یہ کہ یہ تینوں جماعتیں ملک اور نظام سے مخلص نہیں کیا کرپٹ لوگ صرف سیاسی جماعتوں میں ہی ہوتے ہیں
نظام میں بہتری لانے کے لئے اصلاحات ہونی چاہئیں اس کے لئے تجاویز طریقہ کار کے مطابق دی جانی چاہئیں۔
صرف نگران وزیراعظم نہیں مجھے ماضی کے منتخب وزرائے اعظموں کے اس بیان پر ہمیشہ حیرت ہی ہوئی کہ ’’فوج کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں ہم ایک پیج پر ہیں سیاسی استحکام اور معاشی بحالی کے لئے مل کر کام کر رہے ہیں‘‘۔
یقین کیجئے اس طرح کا بیان قانون کی حاکمیت والے کسی ملک میں اول تو کسی وزیراعظم کی جرات نہیں کہ وہ دے اور اگر اتفاق سے وہ دے بھی دے تو یہ اتفاق اس کی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بن سکتا ہے۔
ہمارے ہاں سب جائز اور چلتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاست دان اپنے منتخب کرنے والوں پر اعتماد نہیں کرتے۔ وہ بھی پچھتر نہیں تو ستر برسوں سے ملک کا اصل مالک عوام کو نہیں سول و ملٹری اشرافیہ کو سمجھتے ہیں۔
ہم کسی شخص یا منصب دار کے اخلاص پر سوال نہیں اٹھا رہے ہیں ہم صرف یہ عرض کررہے ہیں کہ اگر مملکتیں نظام کے تحت چلتی ہیں تو پھر ہر کس و ناکس کے لئے ایک حد مقرر ہے اس سے تجاوز درست نہیں۔
بالفرض اگر ہم مان لیتے ہیں کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں میں کرپٹ لوگ موجود ہیں والی بات آرمی چیف نے کی ہے تو کیوں نہ ایک کام کرلیں
پچھلے 20 برسوں کے دوران وزیر، مشیر، ارکان اسمبلی، جج، بیورو کریٹس اور جرنیل رہنے والوں کے اثاثوں کی تحقیقات کروا لیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا۔
دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ان چاروں شعبوں میں پچھلے بیس برسوں میں کام کرنے والے کچھ ’’دانوں‘‘ کا انتخاب کرکے ان کے اثاثوں کی تحقیقات کروالی جائیں۔
یہ دونوں باتیں ممکن نہیں ہو پائیں گی وجہ اس کی یہ ہے کہ اگر کسی دن واقعی تحقیقات کا ڈول پڑ گیا تو سیاست دان باقی کے تین شعبوں کے لوگوں کے مقابلہ میں "کمی کمین” ثابت ہوں گے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جس کا جو کام ہے اسے وہی کرنا چاہیے یہ نگران دور ہے قانون اس دور میں امور مملکت چلانے نبھانے کی جو ذمہ داریاں اور حدود مقرر کرتا ہے ان سے تجاوز نہیں ہونا چاہیے۔
ثانیاً اس امر کو بطور خاص مدنظر رکھنا ہوگا کہ ایسی کوئی بات نہ کی جائے جس سے یہ تاثر ابھرے کہ ’’ہنوز دلی دور است‘‘ یعنی الیکشن ’’دور‘‘ ہیں۔
مصنف کے بارے میں:
حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔