تاریخ میں چترال کے لوگوں نے مختلف محاذوں پر بیرونی حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ایک چھوٹی کمیونٹی ہونے کے باؤجود اپنے سے کئی گنا بڑی تعداد والے طاقت ور حملہ آوروں کو شکست دی ہے جس کی توقع ان سے نہیں کی جا سکتی تھی بالخصوص کمزور دفاعی وسائل ہونے کے باؤجود۔
تحریر: پروفیسر رحمت کریم بیگ
ترجمہ: کریم اللہ
چترال کی برفانی سرحدی چوٹیوں کے اندر بڑی اور چھوٹی وادیوں کا مجموعہ زمانہ قدیم سے تاریخ میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ چترال کے محل وقوع کی اس حیثیت کو ماضی کے حکمرانوں نے بخوبی سمجھا تھا اس لیے انہوں نے اپنے تجربات کی بنیاد پر دفاعی نظام ترتیب دیا گیا۔
چترال اور اس کی جغرافیائی اہمیت:
چترال کے پاس ریڈ زون پاسز اور پر خطر پاسز موجود ہیں جنہیں مختلف ادوار میں مختلف حملہ آور استعمال کرتے آئے ہیں۔ جب برطانوی ہندوستانی حکام کو اس پہاڑی ریاست کے تزویراتی محل وقوع کے بارے میں علم ہوا تو وہ اسے زار روس سے قربت اور اس کے جنوب کی جانب پیش قدمی کے لیے متجسس ہوگئے۔ زار روس کی ناقابل شکست سلطنت انگریزوں کے لیے تشویش کا باعث بن رہا تھا اس لیے انہوں نے مہتر امان الملک سے دوستی شروع کر لی اور بدلے میں تحفے تخائف، اسلحہ اور گولہ بارود دے کر چترال کی سیاست میں شامل ہو گئے۔
یہ انگریز دوستی کئی لحاظ سے چترال کے لوگوں کے مستقبل کے لیے سود مند بھی ثابت ہوئی۔
چترال سے نکلنے والے راستے بے شمار ہیں، لیکن ان میں سے چند ایک چترال کی سرحدوں میں داخل ہونے میں آسانی کے لیے زیادہ اہمیت کے حامل درے ہیں جبکہ بیشر درے موسم گرما میں بہت ہی تھوڑے عرصے کے لیے کھلتے ہیں جنہیں پار کرنا بھی انتہائی دشوار ہوتا ہے۔
تاریخ میں چترال کے لوگوں نے مختلف محاذوں پر بیرونی حملہ آوروں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے اور ایک چھوٹی کمیونٹی ہونے کے باؤجود اپنے سے کئی گنا بڑی تعداد والے طاقت ور حملہ آوروں کو شکست دی ہے جس کی توقع ان سے نہیں کی جا سکتی تھی بالخصوص کمزور دفاعی وسائل اس سلسلے میں سرفہرست ہوتے تھے۔
اس سب کا سہرا قیادت کے ساتھ ساتھ یہاں کے لوگوں کی بہادری، جفاکشی اور حب الوطنی سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔
چترالیوں نے دفاعی ٹیکنالوجی یا ہتھیاروں کی ترقی پر زیادہ توجہ دی تھی اور (سی ایف ہندو کش اسٹڈی سیریز: جلد 1؛ دوسری بین الاقوامی ہندو کش کلچرل کانفرنس کی کارروائی) انہوں نے اپنے مقامی وسائل کو ایک طویل جنگ لڑنے کے لیے خود کفیل ہونے کے لیے استعمال کیا۔
حملہ آور فوج:
مقامی لوگوں کے پاس اپنے دشمنوں پر حملہ کرنے کے لیے تمام مقامی کھلے اور خفیہ راستوں کو جاننے کی قدرتی صلاحیت تھی ۔
تاریخ میں بہت سی فتوحات پہاڑی پٹڑیوں اور پہاڑیوں پر تاریخی ورثے کی پگڈنڈیوں کی وجہ سے ہوئیں جن کے اپنے مخصوص نام ہیں اور انہوں نے ماضی بعید سے ماضی قریب تک ریاست چترال کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
اب چونکہ پرانے ورثے کی پگڈنڈیاں ہمارے لیے بہت اہم ہو چکی ہیں (لیکن اس وقت بھولی ہوئی اور موجودہ نسل کے لیے ناواقف ہیں)، ہمیں چترال کے تمام علاقوں میں پگڈنڈیوں کی تمام تفصیلات کے ساتھ ان پگڈنڈیوں کو دستاویزی شکل دینے میں پہل کرنی ہوگی۔
یہ چترال کے جنوب سے لے کر شمال کے آخری مقام تک تقریباً تمام وادیوں میں موجود ہیں۔ یہ کام ریسرچ اسکالرز کے متقاضی ہے اور یونیورسٹی آف چترال کو اپنے طلبہ کے ایک گروپ کا انتخاب کرنا ہے اور ان کے تحقیقی مقالوں کو حتمی شکل دینے کے لیے اس موضوع پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جن لوگوں کا اس موضوع سے گہرا تعلق ہے ان کو اس کام میں ضرور شامل کیا جائے اور اس طرح آج کل کے چترالی طلباء و طالبات چترال کے مختلف علاقوں کا سفر کریں گے اور وہاں کے لوگوں، ان کے وسائل، اس کے مخصوص حصوں کے مقامی علم سے واقفیت حاصل کریں گے۔
خطے اور تمام متعلقہ معلومات کو اکٹھا کریں اور تمام ٹریلز کو شامل کرنے میں چند سال لگیں گے تاکہ چترال یونیورسٹی کو اس بات پر فخر ہو کہ اس نے ریاست کے سٹریٹجک ٹریلز اور دفاعی مقامات کا ایک قیمتی حجم حاصل کیا اور اس میں ہیروز کا کردار ادا کیا۔
پروفیسر رحمت کریم بیگ چترال سے تعلق رکھنے والے نامور محقق، مورخ اور سیاحت کے شعبے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے چترال کی تاریخ، ثقافت اور یہاں کی تاریخی روٹس پر کئی کتابیں لکھ چکے ہیں بالخصوص ہندوکش اسٹیڈی سیریز نام سے تین جلدوں پر ضخیم کتاب کے علاوہ چترال، اے اسٹیڈیز ان اسٹیٹ کرافٹس اور متعدد کتابوں کے تراجم کر چکے ہیں۔
چترال کی تاریخ و ثقافت اور یہاں کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے پروفیسر رحمت کریم بیگ کو ایک اتھارٹی سمجھی جاتی ہے