بچپن میں بندوقوں کے ساتھ کھیلنے والے بڑے ہو کر پھول تو نہیں بیچ سکتے اس لئے ہمارے ہاں معمولی باتوں پر جان سے مارنا عام بات ہے جس کی وجہ سے پورے گاؤں میں گنتی کے کچھ خاندان، گھر ایسے ہوں گے جن کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہوگی ورنہ یہاں کی اکثریت کو ہمیشہ کسی انجانی گولی کا انتظار رہتا ہے۔
تحریر: گمنام کوہستانی
ہمارے ہاں بچے سکول جانے سے پہلے بندوق چلانا، کھولنا اور صاف کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ میں نے پہلی بار بندوق اس وقت چلائی تھی جب میری عمر کچھ سال تھی۔ ٹھیک سے نہیں یاد لیکن سردیوں کا موسم تھا برف پڑی تھی، حضرت حسین بابا نے بندوق میرے ہاتھوں میں دیتے ہوئے ایک تختے کے طرف اشارہ کیا کہ اس پر فائر کرو۔ تختے پر کوئلے سے گول دائرہ بنایا گیا تھا۔ میں نے فائر کرنے کی کوشش کی لیکن میں ڈرا ہوا تھا زور لگانے پر بھی فائر نہیں ہوا۔ بابا نے میری انگلی پر اپنی انگلی رکھی اور فائر کیا۔ گولی نشانے پر لگنے کے بجائے کہیں اور چلی گئی۔
میرے بعد چھوٹے بھائی انعام کو موقع دیا گیا جس نے بغیر کسی سہارے گول دائرے کو نشانہ بنایا۔ والد اور دوسرے بزرگوں سے دو چار گالیاں اور اچھا خاصا لیکچر سننے کے بعد جب دوسرا فائر کرنے کا حکم ملا تو میں نے انکار کیا اور بھاگ گیا۔ ڈز کی آواز، کانوں کا سن ہونا اور پھر ایک دم ہوا کا شور جیسے بہت سارے بلائیں شور مچاتی آ رہی ہو سب یاد ہے۔
اس دن کے بعد میں بندوقوں سے دور ہوتا چلا گیا۔ میرے باقی بھائیوں نے بھی اسی طرح بندوق چلانا سیکھی ہے۔ سب سے چھوٹے نے جو اس وقت آٹھویں کلاس کا بچہ ہے تین سال پہلے چاند رات کے موقع پر پہلی بار بندوق استعمال کی۔
میرے والد صاحب نے خود گن لوڈ کی اور بندوق پکڑنے میں اس کی مدد کی۔ اس نے خوشی سے سرشار ہو کر بندوق کا رخ آسمان کے طرف کرکے لبلبی دبا دی۔ میں نے انہیں روکنے کی کوشش نہیں کی کیونکہ میں جانتا ہوں یہاں یہ عام بات ہے اور میرے روکنے سے کچھ ہوگا بھی نہیں۔
یہ صرف میری گھر کی کہانی نہیں ہے یہاں اکثر گھروں کی یہی کہانی ہے۔ ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو بندوق اور اس سے جڑے مسائل سے دور رہتے ہیں ورنہ اکثر لوگ دن کو سفید کپڑے پہنتے ہیں اور رات کو بندوق سر ہانے رکھ کر سوتے ہیں۔
بچپن میں بندوقوں کے ساتھ کھیلنے والے بڑے ہو کر پھول تو نہیں بیچ سکتے اس لئے ہمارے ہاں معمولی باتوں پر جان سے مارنا عام بات ہے جس کی وجہ سے پورے گاؤں میں گنتی کے کچھ خاندان، گھر ایسے ہوں گے جن کی کسی کے ساتھ دشمنی نہیں ہوگی ورنہ یہاں کی اکثریت کو ہمیشہ کسی انجانی گولی کا انتظار رہتا ہے۔
دشمنی میں مرنے کے لئے ضروری نہیں ہے کہ آپ نے کسی کو خود قتل کیا ہوں آپ کے کسی کزن چچا ماموں وغیرہ کا قاتل ہونا کافی ہے۔ یہاں دشمن سے بدل لیتے وقت یہ نہیں دیکھا جاتا کہ قاتل کون ہے بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ مخالف خاندان کا ایسا کون سا بندہ ہے جو ذہین قابل ہو کیونکہ بعد میں وہ مسائل پیدا کرے گا۔ یہاں ذہانت اور ہوشیاری بچاتی نہیں مرواتی ہے۔
ہم میں سے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا کہ ہمارے ہاں ایسا نہیں ہوتا۔
چھوٹے سے ہوتے ہیں جب بزرگ ہمیں افغانستان اور کشمیر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ہم نے بڑے ہو کر وہاں لڑنا ہے اس لئے بڑے ہو کر کشمیر سے لے کر افغانستان تک ہر محاذ پر ہم حاضر ہوتے ہیں اور بدلے میں ہمیں ملا کیا یتیم بچے اور جوان بیوائیں۔
چھوٹے سے ہوتے ہیں جب بزرگ ہمیں بتاتے ہیں بندوق چلانا سیکھو مرد بنو تاکہ کل کو دشمن کا مقابلہ کر سکو۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے بزرگوں سے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے بندوق چلانا سیکھا۔ ہم نے اپنے بزرگوں سے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے بندوق چلانا سیکھا۔ ہم میں اور ان میں کیا فرق ہے ؟
اگر ایک دوسرے کو مارنے سے مسائل حل ہوجاتے تو ہم صدیوں سے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں اب تک یہ مسائل حل کیوں نہیں ہوئے ؟
ہمارے آس پاس دوسرے علاقوں میں رہنے والوں نے بندوق سے جان چھڑائی آج وہاں امن، سکون، ترقی اور خوشحالی ہے جب کہ ہم اس جدید دور میں بھی بنیادی ضروریات زندگی کے لیے ترستے ہیں کیوں؟
ناراض نہیں ہونا لیکن بندوق کے یارانے میں امن سکون خوشیاں نہیں دکھ درد ملتے ہیں۔ جب تک ہم لوگ بندوق سے محبت کریں گے تب تک ہم اسی طرح ایک دوسرے کو مارتے اور چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لئے سسکتے رہیں گے۔ جس دن ہمارے دل میں بندوق کے لئے نفرت پیدا ہوئی اسی دن سے ہم صحیح معنوں میں ترقی کے راستے پر گامزن ہوجائیں گے۔
عمران خان آزاد کا تعلق دیر بالا کے تھل، کلکوٹ کے علاقے سے ہے۔ وہ ایک ابھرتے ہوئے روشن خیال نوجوان لکھاری ہیں جو گمنام کوہستانی کے قلمی نام سے سماجی اور ثقافتی موضوعات پر لکھتے ہیں۔