Baam-e-Jahan

بچوں کا ادب

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی

 ایک عام شکایت یہ سنی گئی کہ بچے موبائل پر انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں کارٹون دیکھتے ہیں مادری زبان کی کہانیاں نہیں سنتے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہندکو، توروالی اور دیگر زبانوں میں لوک کہانیوں پر مبنی کارٹون بنا ئے گئے ہیں جو بچوں میں بیحد مقبول ہیں۔

تحریر: ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی


بظاہر ایسا لگتا ہے کہ بچوں کا ادب زندگی کے اسلوب سے تعلق رکھتا ہے مگر بچوں کا ادب نظم و نثر کی ان تحریروں سے بھی تعلق رکھتا ہے جن میں بچوں کی دلچسپی کا مواد ہو اور جو بچوں کے لئے لکھا گیا ہو جیسے بچوں کی کہا نیاں، بچوں کے گیت اور بچوں کی پہیلیاں وغیرہ.

 اس ادب کا کچھ حصہ زبا نی طور پر سینہ بہ سینہ منتقل ہو کر ہم تک پہنچا ہے جو لوک ورثہ کہلاتا ہے اور کچھ حصہ ریڈیو، ٹی وی، رسائل، جرائد اور کتابوں کے لئے بطور خاص لکھا گیا ہے اکادمی ادیبیات پا کستان کے اہتمام سے اسلام Aباد میں اس حوالے سے کانفرنس منعقد ہوئی جس کا عنوان تھا ”ہم جگنو تارے دھرتی کے“۔

  کانفرنس کا افتتاح وفاقی وزیر جمال شاہ نے کیا آخری روز مشہور ادبی اور ثقافتی شخصیت عکسی مفتی نے اختتامی نشست کی صدارت فرمائی کانفرنس میں پروفیسر اباسین یوسفزئی، ڈاکٹر حنیف خلیل، احمد حسین مجاہد، ڈاکٹر ادل سومرو، احسان شاہ، اشرف سہیل، زبیر توروالی، کشور ناہید، کلثوم زیب، اعجاز احمد لال، فرید براہوی، واحد بحش بزدار، حاکم علی برڑو اور حمید شاہد سمیت نامور ادیبوں اور شاعروں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور لوک ادب کے نمونے اپنی اپنی مادری زبانوں میں پیش کئے۔

وفاقی وزیر جمال شاہ سکول کے بچوں کے ساتھ

 ساتھ ہی اردو ترجمہ سنا کر حاضرین سے داد حاصل کی اسلام آباد اور راولپنڈی کے سکولوں سے بچوں کو خصوصی طور پر کانفرنس میں شریک کیا گیا افتتاحی نشست میں پا کستان نیشنل کونسل آف آرٹس نے پتلی تماشا دکھایا جس کا ایک آئیٹم تھا ”ٹوٹ بٹوٹ نے کھیر پکائی“ اکادمی ادیبیات کی چیئرپرسن ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کا نفرنس کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ادب کا 80 فیصد بچوں کے لئے لکھا جاتا ہے ہمارے ہاں صرف 20 فیصد بچوں کا ادب شائع اور نشر ہوتا ہے اس کا بھی آدھے سے زیادہ دوسرے ممالک سے مستعار لیا جاتا ہے۔ ہمارے بچوں اور بچیوں کو ڈوری مون، ہیری پوٹر اور کو کو ملن سے واقفیت ہوتی ہے، اکوبکو، انگاگ بنگاگ جیسے مقامی کرداروں سے واقفیت نہیں ہوتی۔

 جمال شاہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے ماں کے کردار کی عظمت کا ذکر کیا انہوں نے کہا میں بچپن میں کوئلہ، قلم وغیرہ سے دیواروں پر تصویر بناتا تو باپ اور بڑے بھائی کی طرف سے ڈانٹ پڑتی تھی البتہ میری ماں ہردم مجھے حوصلہ دیتی اور مشقت اٹھا کر دیواروں کو خود صاف کرتی میں پھر سے اپنا مشق دیواروں پر ازماتا وہ پھر سے صاف کرتی میرے برش، قلم اور کوئلہ محفوظ رکھتی جنہیں میں پھر استعمال میں لاتا۔ اپنی ماں کی وجہ سے میں مصور اور فنکار بنا اللہ پا ک نے مجھے عزت دی اور مقام دیا۔

 کشور ناہید نے  اس بات پر زور دیا کہ گھریلو ماحول میں بچوں اور بچیوں کی تربیت میں دادی اماں کی کہانیوں، ممتا کی لوریوں اور بچوں کے لوک گیتوں کی پرانی روایات کو زندہ اور تازہ رکھا جائے تاکہ بچے اپنی دھرتی سے جُڑے رہیں اور ان کے معصوم ذہنوں میں دھرتی کی روایات کا عکس نمایاں ہو۔

 جمال شاہ نے اپنی کہانی سناتے ہوئے ماں کے کردار کی عظمت کا ذکر کیا انہوں نے کہا میں بچپن میں کوئلہ، قلم وغیرہ سے دیواروں پر تصویر بناتا تو باپ اور بڑے بھائی کی طرف سے ڈانٹ پڑتی تھی البتہ میری ماں ہردم مجھے حوصلہ دیتی اور مشقت اٹھا کر دیواروں کو خود صاف کرتی میں پھر سے اپنا مشق دیواروں پر ازماتا وہ پھر سے صاف کرتی میرے برش، قلم اور کوئلہ محفوظ رکھتی جنہیں میں پھر استعمال میں لاتا۔ اپنی ماں کی وجہ سے میں مصور اور فنکار بنا اللہ پا ک نے مجھے عزت دی اور مقام دیا۔

بچوں کے ادب کے سلسلے میں منعقدہ کانفرنس سے نامور ادیب و دانشور زبیر توروالی خطاب کر رہے ہیں۔

 کانفرنس کی دس نشستوں میں 56 مندو بین نے کشمیری، پوٹو ہاری، پہاڑی، شینا، سرائیکی، ہندکو، بروشسکی، توروالی، کھوار، پشتو، سندھی، بلوچی، بلتی، براہوی، اور پنجا بی زبانوں میں بچوں کی کہانیوں اور بچوں کے گیتوں کا خوب صورت اور دل نشیں گلدستہ پیش کیا دلچسپ بات یہ تھی کہ ایک ہی کہانی براہوی میں بھی ہے، تور والی اور کھوار میں بھی ہے، پنجا بی،شینا اور پشتو میں بھی ہے البتہ کرداروں کے نام ہر زبان میں مختلف ہیں۔

 ایک عام شکایت یہ سنی گئی کہ بچے موبائل پر انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں کارٹون دیکھتے ہیں مادری زبان کی کہانیاں نہیں سنتے اس کا جواب یہ دیا گیا کہ ہندکو، توروالی اور دیگر زبانوں میں لوک کہانیوں پر مبنی کارٹون بنا ئے گئے ہیں جو بچوں میں بیحد مقبول ہیں۔

 عکسی مفتی نے کانفرنس کی حاصلات کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ لوک ادب، لوک کہانیاں اور لوک گیت مقامی دانش اور عوامی تجربات کا خزانہ ہوتے ہیں جیسا کہ آلہ دین کی کہانی میں جادو گر بھیس بدل کر آتا ہے اور نیا چراغ بڑھیا کو تھما کر آلہ دین کا چراغ لے جاتا ہے ایسے ہی مارکیٹ کا جادو گر آیا، پلاسٹک کے کھلونے ہمارے ہاتھوں میں دے کر مقا می دانش کا خزانہ لے گیا۔

مصنف کے بارے میں :

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی چترال سے تعلق رکھنے والا ماہر تعلیم، محقق اور کالم نویس ہے۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں تمغہ امتیاز سے نوازا ہے۔ وہ ملک کے نامور اور موقر اخبارات کے لئے ریگولر بنیادوں پر کالم لکھتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے