آسان بھاشا میں سمجھاؤں تو وہ چترال کی روتھ فاؤ تھیں، فلورنس نائٹنگیل تھیں۔
رپورٹ: فخر عالم
آسان بھاشا میں سمجھاؤں تو وہ چترال کی روتھ فاؤ تھیں، فلورنس نائٹنگیل تھیں۔
1967 ء میں جب وہ کراچی سے مڈوائف بن کر واپس آئیں تو چترال میں ایک بھی تربیت یافتہ دائی نہیں تھی جو زچہ و بچہ کے کیسز دیکھ سکے۔ آج چترال کی نرسز پاکستان سے باہر مشرق وسطیٰ اور یورپ میں بھی کام کر رہی ہیں۔ چترال کی بچیوں میں نرس بننے کا تناسب ملک بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
ان کو انسانیت کی خدمت کی یہ راہ دیکھانے والی لعل زمرود تھیں۔ وہ جس راہ پہ تن تنہا 37 سال سفر کرتی رہیں وہ آج ہزاروں کے قافلوں کی گزرگاہ بن گئی ہے۔
پچھلے سال ان سے ایک ملاقات کے بعد جو لکھا تھا وہ پیشِ خدمت ہے:
73 سالہ لعل زمرود بتا رہی تھیں،
"میرا چھوٹا بھائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ وہ اسکول جاتا تو گھر والے مجھے بھی اس کے ساتھ ان کی دیکھ بھال کرنے کے لیے بھیجتے۔ میں اس کے ساتھ کمرہ جماعت میں جا کر بیٹھتی اور تانک جھانک کر ان کی کتابیں پڑھتی اور استاد کو سُنتی۔ فارسی میں اس لیے نہیں پڑھ سکی کیوں کہ فارسی کے استاد کو میرا لڑکوں کے ساتھ بیٹھنا گوارہ نہیں تھا۔ گاؤں میں عورتوں کے پڑھنے کا نہ ہی رواج تھا نہ ہی اسکول۔ پھر اساتذہ کو اندازہ ہوا کہ میں اسکول کے لڑکوں سے زیادہ قابل ہوں اور تعلیم میں دلچسپی بھی لیتی ہوں۔ میرا بھائی بڑا ہوا تو مجھے اسکول جانے کی ضرورت نہیں رہی مگر اساتذہ نے مجھے اسکول سے نکالنے سے منع کیا۔ یوں میں نے لڑکوں کے اسکول سے پہلے مڈل پاس کیا، پھر چترال شہر جا کر میٹرک کیا۔
1964 میں مجھے کراچی لے جاکر کھارادر میں آغا خان میٹرنٹی سینٹر میں نرسنگ کی تربیت دی گئی۔ واپس آ کر آغاخان ہیلتھ سنٹروں میں کام کیا۔
چترال سے ہم صرف 4 خواتین نرسنگ کی تربیت لینے گئے تھے۔ باقیوں نے واپس آکر نرسنگ چھوڑ دی اور دوسرے شعبوں میں چلی گئیں۔ اچھے عہدوں پر کام کیے اور اچھی تنخواہ پائی مگر میں نے طب کے شعبے کو اپنی زندگی کے 40 سال دئیے۔ عزت کمائی اور لوگوں کی خدمت کی۔ کبھی کبھی ایک رات تین تین ڈیلیوری کے کیسز اٹینڈ کیے۔ بس یہی میری کہانی ہے۔”
یہ لعلِ زمرد کی کہانی ہے۔ چترال کی پہلی نرس۔ وہ مسکرا کر کہتی ہیں کہ میں بھائی کی کتابوں سے سیکھ کر نرس بن گئی۔ اگر گھر والے مجھے الگ سے کتابیں لے کر دیتے تو شاید میں نرس نہیں ڈاکٹر بن جاتی۔
اس میں کوئی شک بھی نہیں۔ عورتوں کی صلاحیتوں پر شک نہیں کیا جائے تو وہ کیا نہیں بن سکتی، کیا کچھ نہیں کرسکتی۔
اس دن 6 ستمبر کے جنگی نغموں کی گونج میں ابھرتی لعلِ زمرد کی دھیمی اور نحیف سی آواز میں حوصلے، جرات اور عزم کے کئی پہلو پنہاں تھے۔