سیاسی نظام، انصاف، معاشی صورت حال اور سماجی اقدار کے حوالے سے پاکستان آج کہاں کھڑا ہے اس پر سنجیدہ مکالمہ اٹھانے کی ضرورت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ مکالمے اور علاج تلاش کرنے بلکہ علاج کرنے میں جتنی بھی تاخیر ہوئی گھمبیر ہوتے مسائل عذاب کی صورت اختیار کر لیں گے۔
تحریر: حیدر جاوید سید
امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستانی نظام (امور مملکت) میں بالادست حیثیت ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کی ہی رہی ہے۔ پچھتر برسوں کی ملکی تاریخ میں اسٹیبلشمنٹ نے صرف ایک بار پیچھے ہٹ کر سول قیادت کو اقتدار منتقل کرنے پر رضامندی ظاہر کی جب سقوط مشرقی پاکستان کے بعد جی ایچ کیو میں نوجوان افسروں نے سینئر حکام کی نہ صرف بات سننے سے انکار کر دیا بلکہ زور دیا کہ طالع آزمائی ترک کر کے اپنے اصل کردار کی طرف توجہ دی جائے۔
اس ایک موقع کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ یا تو تجربے کئے یا پھر اپنی شرائط منوائیں اور ساجھے داری کے نظام میں حصہ وصول کیا۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے اس طرح کے کردار اور فوائد سمیٹنے میں خود سیاسی قوتیں بھی ذمہ دار ہیں۔ اس رائے کو یکسر درست نہ بھی تسلیم کیا جائے تو بھی یہ حقیقت ہے کہ اگر سیاسی قوتوں نے جمہوری اقدار کے فروغ اور سیاسی عمل کو آگے بڑھانے کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہوتا تو ملک میں 4 مارشل لاء نہ لگتے اور اس کے ساتھ ہی منیجمنٹ کے ذریعے مرضی کی حکومتیں بھی نہ لائی جاسکتیں۔
بظاہر ایسا لگتا ہے کہ پچھتر برسوں میں اسٹیبلشمنٹ نے کچھ سیکھا نہ سیاسی قوتوں نے اور غالباً اگلے پچھتر برسوں میں بھی دونوں اس روش پر گامزن رہیں گے۔
سیاسی نظام، انصاف، معاشی صورت حال اور سماجی اقدار کے حوالے سے پاکستان آج کہاں کھڑا ہے اس پر سنجیدہ مکالمہ اٹھانے کی ضرورت ہر گزرنے والے دن کے ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔ اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ مکالمے اور علاج تلاش کرنے بلکہ علاج کرنے میں جتنی بھی تاخیر ہوئی گھمبیر ہوتے مسائل عذاب کی صورت اختیار کر لیں گے۔
کیا ہمارے نظام اور مالکانہ خود فریبی کا شکار اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کے طبقات میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ ان عذابوں کا مداوا کرپائیں؟
گزر جانے والی ساڑھے سات دہائیوں کا ایک طائرانہ جائزہ اس امر کو دو چند کر دیتا ہے کہ نظام، خوراک، معیشت، فہم، تاریخ اور نظام تعلیم سمیت کوئی بھی چیز جب خالص دستیاب نہ ہو تو پراگندگی بڑھتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ڈنگ ٹپاؤ کی سوچ اپنا رزق حاصل کرتی ہے۔ اصلاح احوال کے لئے انقلابی خطوط پر سوچنے اور جدوجہد کرنے کی خواہش عمل کی صورت اختیار نہیں کر پاتیں۔
پاکستان آج جن مسائل سے دوچار ہے اس میں شناخت کے بحران سے لے کر طبقاتی بدحالی تک ہر مسئلہ اپنی جگہ اہمیت رکھتا ہے۔ عوام الناس کو شکایت ہے کہ ان کی گردنیں ایسے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہیں کہ بس ایک اطاعت گزار کے طور پر جی رہے ہیں زندہ معاشرے کا کارآمد شہری بننے کے لئے مدد دینے والی قوتیں چونکہ خود شراکت داری کے نظام سے پہلے فیض پانے کے لئے مری جا رہی ہیں اس لئے ان کے بارے میں سوچنے کے لئے کوئی تیار نہیں۔
سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟ کیا اصلاح احوال کی سنجیدہ کوششوں کے بغیر عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد سازی ممکن ہے۔ بادی النظر میں تو ایسا ممکن نہیں کیونکہ عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد سازی کے لئے ابتدائی شرط یہ ہے کہ خود ریاست زمینی حقائق کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس امر کو بھی مدنظر رکھے کہ ایک جمہوری فلاحی نظام کی بنیادیں اسی صورت رکھی جاسکتی ہیں جب انصاف اور مساوات کا دور دورہ ہو۔
ہمارے ہاں انصاف طبقاتی بنیادوں پر فراہم ہوتا ہے اور وسائل پر مخصوص طبقات کی اجارہ داری ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب لوگ بھوک سے بد حال ہوں کروڑوں ڈالر میزائل تجربات پر پھونک دینے سے ریاست کی سنجیدگی ہی نہیں ترجیحات بھی دو چند ہو جاتی ہیں۔
بعض اہل دانش کے نزدیک اصلاح احوال اور آگے بڑھنے کے لئے ایک بڑی سرجری کی ضرورت ہے اور یہ زندگی کے ہر شعبہ میں کرنا پڑے گی یہی نہیں بلکہ 1973ء کے دستور کی بھی بڑی سرجری لازم ہو گئی ہے۔ اس رائے کے حاملین کا موقف ہے کہ سرجری کا آغاز دستور سے کیا جائے اور یہ ایک نئے عمرانی معاہدے سے ہی ممکن ہے۔
عمرانی معاہدہ پر کام اور اس کی تدوین و منظوری سے قبل یہ حقیقت کھلے دل کے ساتھ تسلیم کی جانی چاہیے کہ ایک کثیر القوی فیڈریشن میں وسائل اور دیگر امور میں مساوات کا اصول نہ اپنا کر اب تک جن تباہیوں کو مقدر کے طور پر منوایا گیا ہے اس پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔
نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد ہی قومیتی معاہدے پر رکھی جائے یہ معاہدہ فیڈریشن میں بسنے والی قدیم قومی شناخت کی حامل قومیتوں کے درمیان ہونا چاہیے جن کے تاریخی وجود اور شناخت سے یک قومی نظریہ کے نام پر انکار کیا گیا۔
قوموں کے فیڈریشن پر اعتماد کے بغیر اگر کسی نئے عمرانی معاہدے کی تدوین و منظوری کے عمل کو طے بھی کر لیا جاتا ہے تو اس کا حشر بھی وہی ہوگا جو 1973ء کے دستور کا ہوا ہے ۔
اسی طرح یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ نیا عمرانی معاہدہ قوموں کے درمیان ان کی قدیم تاریخی قومیتی تہذیبی شناخت اور فہمی ورثے پر ہوگا تو یہ ایک ایسے سوشل ڈیموکریٹک نظام کے لئے ٹھوس بنیادیں فراہم کر سکے گا جو بلا امتیاز انصاف اور مساوات کے اعلیٰ اصولوں پر قائم ہو۔
انصاف اور مساوات کے اعلیٰ اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پانے والے نظام میں ریاست فرد کے سیاسی معاشی قومی تہٓذیبی اور مذہبی حقوق کے تحفظ کے ساتھ اس میں ریاست یا گروہی عدم مداخلت کے عمل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ہوگی۔
نصاب تعلیم کی ازسرنو تدوین کے عمل میں مقامی تاریخ و تمدن سے رہنمائی لازمی ہونی چاہیے۔ اس امر کو بھی یقینی بنانا ہوگا کہ قوموں کے درمیان مساوی بنیادوں پر جس عمرانی معاہدے کی تدوین و منظوری ہو وہ اس امر کی ضمانت فراہم کرے کہ فیڈریشن کے تمام وفاقی محکموں اور اداروں میں قوموں کو ان کے حجم کے مطابق نمائندگی فراہم کی جائے۔
اسی طرح سینیٹ آف پاکستان میں بھی قوموں کی مساوی نمائندگی ہونی چاہئے ۔ اس امر کی بھی ضمانت ہونی چاہیے کہ کسی طبقے سے نفرت کی بنیاد پر تنظیم سازی ہو سکے گی نہ ہی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والی خطابت کی اجازت۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عمرانی معاہدے کی تدوین و تشکیل کی طرف موجودہ حالات میں بڑھا کیسے جائے تو اس کا بہت آسان جواب اور حل ہے۔ ملک میں اڑھائی تین ماہ بعد انتخابات ہونے جا رہے ہیں رائے دہندگان سیاسی جماعتوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے انتخابی منشور میں نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت اور نکات کو شامل کرکے منشور عوام کے سامنے رکھیں۔
اس کے ساتھ ساتھ رائے دہندگان بھی اس امر کو بطور خاص مد نظر رکھیں کہ جو بھی سیاسی جماعت طویل المدتی اصلاح احوال کے لئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت و اہمیت سے انکار کرے اسے انتخابی عمل میں مسترد کر دیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ صرف اور صرف رائے دہندگان ہی اپنے آہنی عزم سے سیاسی جماعتوں کو عوام کی منشا اور زمینی حقائق جاننے سمجھنے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ آج کے حالات میں اگر رائے دہندگان نے اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کی بجائے شخصیت پرستی، اندھی تقلید، برادری ازم، مذہب و مسلک وغیرہ کو ہی ماضی کی طرح ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے ہوئے اہمیت دی تو پون صدی برباد کرکے یہاں تک پہنچنے والے سماج کی اگلی نصف پون یا ایک صدی ایسے ہی اندھیروں، جبر و استحصال اور عدم مساوات میں بسر ہوگی۔
ہم امید ہی کر سکتے ہیں کہ رائے دہندگان اپنے ووٹ کی حقیقی طاقت کو سمجھیں اور اپنے فرض کو بھی نیز اس امر کو بھی شعوری طور پر سمجھیں کہ کسی بھی تبدیلی کی بنیاد اصل میں رائے دہندگان رکھتے ہیں۔
اس لئے بہت ضروری ہو گیا ہے کہ انصاف، مساوات، اظہار رائے کی حقیقی آزادی اور دوسرے معاملات کے حوالے سے ریاست اور سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھنے کی بجائے ریاست اور سیاسی جماعتوں کو مجبور کیاجائے کہ وہ عوام کے جذبات و خواہشات کا احترام کریں۔ تجربات کی بھٹیاں بند کردیں۔
بار دیگر اس امر کی جانب توجہ دلانا ضروری ہے کہ رائے دہندگان نے اگر اپنی ذمہ داری پوری نہ کی تو مسائل و عذابوں، عدم مساوات اور طبقاتی انصاف سے نجات دلانے کے لئے آسمانوں سے فرشتے نہیں اتریں گے۔
مصنف کے بارے میں:
حیدر جاوید سید پاکستان کے سینئر ترین صحافی، کالم نویس اور تجزیہ نگار ہے۔ وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے صحافت و اخبار نویسی کے شعبے سے منسلک ہے۔ اور پاکستان کے موقر اخبارات و جرائد کے لئے کام کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے چوتنیس کے قریب کتابین لکھی ہے جن میں سچ اور یہ عشق نہیں آساں تصوف کے موضوع پر ہیں باقی کچھ سیاسی ادبی کتب ہیں اور ایک سفر نامہ ہے جبکہ خلیل جبران کے کلیات کو مرتب کر چکے ہیں۔ آج کل وہ اپنی سوانح عمری لکھنے میں مصروف ہے جبکہ روزنامہ مشرق پشاور اور بدلتا زمانہ کے لئے کالم اور ایڈیٹوریل لکھتے ہیں۔ آپ پاکستان کا واحد صحافی ہے جسے جنرل ضیا کے دور میں بغاوت کے مقدمے میں سپیشل ملٹری کورٹ نے تین سال قید کی سزا دی تھی۔