تحریر: عزیز علی داد
راجہ شاہ رئیس خان کے متعلق مشہور ہے کہ وہ یہ کہتے ہوئے اپنا آفس چھوڑ کے بھاگ جاتے تھے”مہ صدر نے بومس (مجھے صدر نہیں بننا ہے۔”
کہا جاتا ہے کہ ان کو فرار سے روکنے کے لئے دفتر کے باہر دو گارڈ تعینات کر دیئے گئے۔ مگر ان سب کوششوں کے باوجود آخر کار وہ گندم کے ڈپو کے آفیسر بننے میں کامیاب ہو گئے۔
ہماری ناعاقبت اندیشی کا سلسلہ تھما نہیں بلکہ ہمہ وقت جاری ہے۔ 1974 میں ہنزہ کا راجہ بغیر شرائط کے اپنی بڑی ریاست کو قلیل وفاقی وظیفے کے عوض ضلع میں تبدیل کرنے پر راضی ہوا۔
کسی بھی معاشرے کی اجتماعی ارادے کااعلی اظہار اپنے نمائندے کے انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔ اور ہمارے منتخب نمائندے اس کلی اظہار کو ٹھو کر مار کر جج کی صورت میں نوکر بننا پسند کرتے ہیں۔
یوں ہم نے گلگت بلتستان کا حاکم بننے کی بجائے نوکر بننے کو ترجیع دی۔ نوکر معاشرے کی کوئی منزل نہیں ہوتی بلکہ تواتر سے غلامانہ حرکات دھراتے رہتے ہیں۔ ان حرکات میں بااختیار نمائندے کے اعمال کی نقل کرکے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے کہ وہ بااختیار ہیں۔ یوں ساری قوم طاقت کے مغالطے پر مبنی ایک نظام میں جعلی زندگی گزارتی ہے۔
اگر ہم اس نظام کے خلاف احتجاج بھی کرتے ہیں تو مضحکہ خیز مطالبات و حرکات کرتے ہیں۔ وہ یوں کہ اس نظام کے کل پرزوں سے ہمارے اردگرد حصار مزید تنگ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ گندم میں سبسڈی میں کمی کو حکومت اچھا اقدام قرار دے رہی ہے۔
ہماری غلامانہ نفسیات کی عکاسی 1960 کی دھائی میں رونما ہوئے ایک واقعے سے عیاں ہوتی ہے۔ ہوا یوں کہ گلگت کے پرانے جیل کی ایک دیوار سخت بارشوں کی وجہ سے گر گئی۔ قیدی تین دن تک انتظار میں رہے کہ دیوار دوبارہ کھڑی کر دی جائے گی۔ مگر دیوار نہیں بنائی گئی۔
غصے کے عالم میں گلگت کے جیل کے قیدیوں نے احتجاج کیا اور دھمکی دی کہ اگر دیوار تعمیر نہیں کی گئی تو وہ بھاگ جائیں گے۔ حالات کے نزاکت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے دیوار تعمیر کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ اس رات قیدیوں نے اپنی کامیابی پر جشن منایا۔ یہی حال ہم گلگت بلتستان والوں کا ہے۔ جشن آزادی مبارک ہو۔
پینٹنگ: قیدی از وان گوگھ