تحریر: جاوید احمد
ڈومینین سٹیٹس سے یوم جمہوریہ اور پھر یوم پاکستان کا سفر طے کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ پر 23 مارچ منایا جا رہا ہے۔
لائل پور کے رہنے والے برصغیر کے سب سے بڑے حریت پسند ، مذاحمت کار اور آزادی کے متوالوں بھگت سنگھ ، راج گرو اور سکھ دیو کی شہادت کا دن ہے۔
اس موقع پر میں چار کتابوں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ 1974 میں پاکستان کے ممتاز کمیونسٹ لکھاری اور روشن خیالی کے استاد سبط حسن نے اجے کمار گھوش کے مضمون کے ساتھ دس صفحات پر مشتمل پیش لفظ شامل کر کے پہلی دفعہ "بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی” کے نام سے یہ کتابچہ شائع کیا۔ جس میں بھگت سنگھ کی شہادت کی تاریخ سہوا 13 اپریل 1930 شائع ہوئی۔
2001 ء میں بھارتی سپریم کورٹ کے ممتاز وکیل عبدالغفور نورانی ( اے جی نورانی) نے تین سو انتالیس صفحات پر مشتمل”ٹرائل آف بھگت سنگھ” تصنیف کی، جسے اکسفورڈ پریس نے شائع کیا۔ جس میں بھگت سنگھ کے مقدمے میں قائد اعظم کے تاریخی کردار کو بہت واضح کیا گیا ہے۔
2002 میں بھارت کے ممتاز صحافی کلدیپ نیر کی کتاب "بھگت سنگھ اور جہد انقلاب” کا ترجمہ پاکستان کی ممتاز ترقی پسند شاعرہ فہمیدہ ریاض نے کیا۔ دو سو بیالیس صفحات کی اس کتاب کو بھی اکسفورڈ پریس نے شائع کیا اس انتہائی دلچسپ کتاب میں سکھ دیو کے بھائی تھاپر اور مقدمے میں شامل افراد کے خلاف گواہی دینے والے بوڑھے ہنس راج وہرہ کی خط و کتابت خاصی اہمیت کی حامل ہے ۔
جس میں وہ الزام لگاتا ہے کہ سکھ دیو پہلے ایک اقبالی بیان دے چکا ہے جبکہ اس کے بھائی کا کہنا ہے کہ سکھ دیو نے کبھی اقبالی بیان نہیں دیا بلکہ پولیس نے اس کی جانب سے ایک من گھڑت بیان لکھ کر ہنس راج کو پڑھ کر سنا دیا ہو گا۔
حقیقت یہ ہے کہ ” سکھ دیو کو بھگت سنگھ اور راج گرو کے ساتھ پھانسی دی گئی ایسے کوئی شواہد نہیں کہ مقدمے کے دوران یا اس کے بعد اس کے قدم میں کوئی لغزش آئی ہو۔جب سکھ دیو ابھی بچہ تھا اور سکول میں پڑھتا تھا تب اس جرم پر اس کو بید مارے گئے تھے کہ اس نے انگریز افسروں کو سلوٹ کرنے سے انکار کر دیا تھا یہ ہمت اور دلیری آخری دم تک اس کی شخصیت کا حصہ بنی رہی اگر پولیس کو معلومات سکھ دیو نے دی ہوتی تو ہنس راج کی جگہ اسے معافی کیوں نہیں ملتی سکھ دیو تو ہنس راج سے بہت زیادہ باتیں جانتا تھا۔
2007ء میں کویت میں مجھے روزنامہ جہاد اور اتحاد پشاور کے مدیر اعلی شریف فاروق نے اپنی دستخط شدہ کتاب "قائد اعظم محمد علی جناح برصغیر کا مرد حریت برطانوی سامراج کے خلاف منفرد جدوجہد” پیش کی۔
532 صفحات کی کتاب میں 14 صفحات پر مشتمل "بھگت سنگھ اور مجاہدین آزادی کا ہوش ربا دفاع” کے عنوان میں بھگت سنگھ کے مقدمے میں قائد اعظم کے کردار کا ذکر کرتے ہیں۔
شریف فاروق کہتے ہیں جس روز جواں سال بیرسٹر محمد علی جناح کی بے مثال وکالت کے باوجود بھگت سنگھ اور اس کے رفقاء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا تو ہندوستان کے طول و عرض میں صف ماتم بچھ گئی۔ مولانا ظفر علی خان نے 12 اپریل 1931ء کو "شہیداں آزادی” کے زیر عنوان پر جوش نظم لکھی جسے انہوں نے اپنے روزنامہ "زمیندار” میں شائع کیا۔
"شہیدان وطن کے خون ناحق کا جوست نکلے
تو اس کے ذرہ ذرہ سے بھگت سنگھ اور دت نکلے
چڑھا ایران میں منصور انا الحق کہہ کر سولی پر
مزہ جب ہے کہ تار ہند سے ایسی ہی گت نکلے
مسلمانوں نے کتنے نوجوان اب تک کیے پیدا
جو ازادی کے گہوارے میں پا کر تربیت نکلے
خدا حافظ مسلمانوں کے اقبال اور دولت کا
خدا کے شیر بھی نکلے تو شیر آغا صفت نکلے
حقوق مسلمین کے کچھ محافظ چل دیے لندن
مگر وہ بھی پرستاران کیش عافیت نکلے
نثار اس رند عالم سوز پر سو جاں سے ہے محفل
کہ جس کوچہ میں جا نکلے حریف مصلحت نکلے”
وہ لکھتے ہیں کہ مولانا ظفر علی خان کی یہ ایک صرف نظم ہی نہیں تھی بلکہ تمام پریس شہدائے آزادی کی پھانسی کی سزا کے خلاف سراپا ماتم تھا بلکہ یوں کہنا چاہیے اردو انگریزی اور ہندی زبانوں کا پریس غم و حزن کا پیکر بنا ہوا تھا۔
اور گاندھی نے اہنسا کا سہارا لیتے ہوئے شہدائے آزادی کی کوئی حمایت نہیں کی۔ گاندھی کے اس فیصلے کے خلاف پورے ہندوستان میں آگ لگ گئی یہاں تک کہ پشاور سے ایک ہندو خاتون نیکو دیوی برقعے میں پستول چھپا کر گاندھی کے گھر پہنچ کر پستول نکال کر چلا کر کہنے لگی بھگت سنگھ کے قاتل میں تمہیں یہیں ڈھیر کر دینا چاہتی ہوں۔
پاکستان میں ترقی پسند صحافی اور انسانی حقوق کے رہنما آئی اے رحمان مرحوم نے بھی قائد اعظم کی تقریروں کے حوالے سے بھگت سنگھ کے بارے میں ذکر کیا۔
یاد رہے کہ قائد اعظم کے 11 اگست کی تقریر کو نشر کرنے میں رکاوٹیں ڈالی گئیں تھی اور بعد میں سرکاری ریکارڈ سے ان کی یہ تقریب بھی غائب کر دی گئی۔ حتی کہ قائد اعظم کے مشہور فرمان "اتحاد، ایمان اور تنظیم” کو تبدیل کر کے ایمان اتحاد اور تنظیم کر لیا گیا ہے۔ جس کی ایک مثال فیض آباد سے روات جاتے ہوئے پہاڑی پر دیکھی جا سکتی ہے۔
یہ جاننے کی بھی ضرورت ہے کہ یوم جمہوریہ کیسے یوم پاکستان میں تبدیل ہوا اور اس کا کیا پس منظر ہے؟
لاہور میں جب اس پنجابی سورما کو تختہ دار پر لٹکایا گیا تو پنجاب بھر میں شادی کی روایت کے مطابق جب دولہا گھوڑی پر چڑھتا ہے تو اس کی بہنیں گھوڑی کی باگ پکڑ کے گیت گاتیں ہیں اسی طرح اس شہادت پر سکھ، ہندو اور مسلمان عورتوں نے گھوڑیاں گائیں۔
پھانسی چم لے بھگت سنگھ ویرا
تے بنیاں میں آپ کٹ لوں
راج گرو تے سکھ دیو سربالے
چڑھیا تو ہی وچکار وے ہاں
باگ پھڑائی تیتھوں بہناں نے لینڑی
بہناں دا رکھیاں ادھار وے ہاں
یہ تھا ایک سیکولر پنجاب
” پنجاب میں بھگت سنگھ کو پھانسی کے پھندے تک لے جاتے ہوئے برطانوی استعمار یہ سوچ رہا تھا کہ اس شہادت سے آزادی کے متوالوں کی جدوجہد ماند پڑ جائے گی تو اسے علم نہیں تھا ہیمو کلانی جنم لے چکا ہے”۔