Baam-e-Jahan

کم عمری کی شادی جرم کیوں ہے؟

اسرارالدین اسرار

تحریر: اسرارالدین اسرار


فلک نور کا کیس ، ٹھنڈے دماغ ، ہوش اور دانشمندی کے ساتھ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مروجہ قوانین کے تناظر میں سمجھنا ضروری ہے ۔ یہ کیس پسند کی شادی کا نہیں ہے بلکہ اغوا اور کم عمری کی شادی کا ہے۔ ملکی قوانین کی روشنی میں کم عمری کی شادی پسند سے ہو یا والدین کی رضا مندی سے دونوں صورتوں میں غیر قانونی اور بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔


اگر والدین کی رضا مندی شامل ہو تو بھی قانون میں کم عمری کی شادی کا انعقاد کرنے والے تمام افراد بشمول نکاح خواں، گواہ سمیت ہر ایک کو سزا ہوگی۔ اگر کسی نے بہلا پھسلاکر ، لالچ دے کر کسی بچی کو گھر سے شادی کی غرض سے لے گیا ہو تو بھی وہ اغوا اور زبردستی شادی تصور ہوگی جس کے لئے قاانون میں سزا مختص ہے۔

فلک نور کی عمر کا تعین ان کے بیان سے نہیں بلکہ قانونی طور پر نادرا کے ریکارڈ سے ہوگا، جس کے مطابق وہ بارہ سال کی ہے۔ اس لحاظ اس شادی کا بندوبست کرنے والے تمام افراد قانون کی گرفت میں آنے چاہئے۔

پسند کی شادی اس وقت قانونی اور انسانی حقوق کے تناظر میں جائز تصور ہوتی ہے جب لڑکا اور لڑکی دونوں بالغ اور عاقل ہوں، شناختی کارڈ رکھتے ہوں اور وہ اپنے اچھے برے کی تمیز جانتے ہوں۔ جب اٹھارہ سال سے زائد عمر کے دو بالغ مرد عورت والدین کی رضامندی کے بغیر شادی کرتے ہیں تو عدالت، انسانی حقوق کے ادارے اور قانون ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیونکہ یہ عمل قانونی لحاظ سے جائز ہے چاہے ان دونوں کا تعلق کسی بھی ذات، فرقہ، نسل یا خطہ سے ہو۔

یہ ایک فطری بات ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر بچوں کی تمام تر ضروریات ذندگی مثلا” خوراک ،لباس ، تعلیم، رہائش سمیت ہر چیز کا فیصلہ والدین کرتے ہیں مگر کم عمر ی کی شادی وہ واحد عمل ہے جس کا اختیار ریاست نے والدین کو نہیں دیا ہے۔ اس لئے ملکی قوانین کے ذریعے والدین سمیت تمام شہریوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کم عمری کی شادی کا انعقاد نہیں کرسکتے۔ اٹھارہ سال تک پہنچنے کے بعد خود نوجوان لڑکی اور لڑکا پسند سے شادی بھی کر سکتے ہیں چاہے وہ والدین کی رضامندی سے ہو یا کورٹ کے ذریعے سے ہو۔

بچوں کی شادی کی ممانعت کیوں ہے اس کے پیچھے طبی، قانونی، سماجی، معاشی، معاشرتی و سائنسی وجوہات ہیں جن کا ذکر ہم ان سطور میں کرینگے۔ اس سے پہلے اس قانون کا ادارک ضروری ہے جس کے تحت کم عمری کی شادی غیر قانونی قرار دی گئ ہے۔

پاکستان میں کم عمری کی شادی کی ممانعت کا 1929 کا قانون قومی سطح پر نافذ العمل ہے جس میں لڑکی کی سولہ سال سے کم اور لڑکا کی 18 سال سے کم عمر کی شادی قانونا جرم ہے۔ بچوں کے حقوق کا بین الاقوامی کنونشن، جس کا پاکستان نے بھی دستخط و توثیق کیا ہے، کے مطابق لڑکا یا لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر شادی بچوں کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کے صوبوں نے اپنے لئے الگ الگ قوانین بھی بنائے ہیں تاہم جس صوبے کا اپنا قانون موجود نہیں ہے وہاں مذکورہ قومی قانون نافذالعمل تصور ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن نشین کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک نے بچوں کی کم عمری کی شادی کے خلاف قوانین بنائے ہیں جن میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ دنیا میں کہیں پر بھی کم عمری کی شادی کی اجازت نہیں ہے۔

پسند کی شادی اس وقت قانونی اور انسانی حقوق کے تناظر میں تصور ہوتی ہے جب لڑکا اور لڑکی دونوں بالغ اور عاقل ہوں گے ، شناختی کارڑ رکھتے ہوں گے اور وہ اپنے اچھے برے کی تمیز جانتے ہوں گے۔ جب اٹھارہ سال سے زائد عمر کے دو بالغ مرد عورت والدین کی رضامندی کے بے غیر شادی کرتے ہیں تو عدالت، انسانی حقوق کے ادراے اور قانون ان کو مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے کیونکہ یہ عمل قانونی لحاظ سے جائز اور قانون کے مطابق ہے چاہے ان دونوں کا تعلق کسی بھی زات ، فرقہ یا نسل سے ہو۔

کم عمری کی شادی کی ممانعت اس لئے ہے کیونکہ اس کے انتہائی منفی اثرات شادی شدہ لڑکا یا لڑکی کے علاوہ ان سے پیدا ہونے والی نسل پر بھی پڑتے ہیں۔ شادی ایک ثقافتی سرگرمی ہی نہیں بلکہ یہ انسانی صحت اور ترقی کا مسئلہ بھی ہے۔ شادی صرف جنسی آسودگی کے لئے نہیں بلکہ ایک خاندان کا ادارہ قائم کرنے کے لئے کی جاتی ہے اس لئے شادہ شدہ جوڑے پر خاندانی و سماجی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پورے عقل و شعور، جسمانی و ذہنی مضبوطی و معاشی بندوبست کے ساتھ شادی کریں۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ اٹھارہ سال سے کم عمر لڑکا یا لڑکی جسمانی و ذہنی طور پر اتنے مضبوط نہیں ہوتے اس لئے ان کی صحت شادی کے بعد مثاثر ہوجاتی ہے۔خاص طور سے کم عمر لڑکی اگر ماں بن جاتی ہے تو نہ صرف اس کے لئے خون کی قلت کا سامنا ہوتا ہے بلکہ اس سے پیدا ہونے والے بچے بھی خون کی قلت اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔ کم عمر ماں کی ہڈیاں اتنی مضبوط نہیں ہوتی ہیں کہ وہ بچہ جنم دینے کی سختی برداشت کر سکے۔ اسی طرح کم عمری کی شادی کی وجہ سے تعلیم سمیت لڑکا یا لڑکی کے آگے بڑھنے کا عمل بھی رک جاتا ہے۔ وہ سماجی طور پر پیچھے رہ جاتے ہیں ۔

 سب سے اہم بات یہ ہے کہ کم عمر جوڑا ذہنی طور پر اتنا بالغ نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال اور بہتر تربیت کر سکے۔ کم عمری کی شادی کا فائدہ اٹھا کر جب مسلسل اور بلا روک ایک درجن کے قریب بچے پیدا کرنے کی صورت میں ان کی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال کے لئے وسائل کی کمی ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بچوں سے مشقت لیا جاتا ہے، بھیک مانگنے پر مجبور کیا جاتاہے یا ان کی تعلیم و تربیت کے لئے وقت اور وسائل فراہم نہ کئے جانے کی وجہ سے وہ مفید شہری ثابت نہیں ہوسکتے۔ زہنی د، معاشی دباّ کے نتیجے میں بے شمار سماجی مسائل اور گھریلو ناچاقی پیدا ہوتے ہیں۔

  آبادی میں تشویشناک حد تک اضافہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ممالک میں غربت کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہے۔ مذکورہ وجہ سمیت دیگر کئی وجوہات کی وجہ سے کم عمری کی شادی کی دنیا بھر میں ممانعت ہے۔ لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوگوں میں اب بھی اس کا شعور نہیں ہے۔

 پاکستان کے تمام صوبوں میں یہ سماجی مسلہ پایا جاتا ہے جبکہ گلگت بلتستان حکومت کی طرف سے 2017 کے ملٹی کلسٹر انڈیکیٹرز سروے کے مطابق گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کی شرح 26 فیصد ہے. جس کی بنیاد پر پالپولیشن کونسل اور یو این ایف پی اے کے اشتراک سے ایک ریسرچ اسٹیڈی بھی کی گئ تھی جس کا حصہ راقم بھی تھے۔ اس ضمن میں 2015 میں مسلم لیگ کی حکومت نے گلگت بلتستان میں اس مسئلے کو روکنے کے لئے الگ قانون بنانے کی کوشش بھی کی تھی اور قانون کا مسودہ اسمبلی میں پیش بھی ہوا تھا مگر چند اراکین اسمبلی کی مخالفت کی وجہ سے وہ قانون نہیں بن سکا۔ پچھلے مہنے خواتین کے قومی کمیشن کی سربراہ نیلوفر بختیار نے بھی اس ضمن میں کوشش کی تھی مگر وہ بارآور ثابت نہیں ہوسکی۔ اس بات کا یہاں خصوصی ذکر ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے ء2021 میں اپنے ایک اہم فیصلے میں یہ قرار دیا تھا کہ پاکستان کے صوبے عمر کی حد مقرر کر کے اس پر قانون سازی کر سکتے ہیں۔

 
کم عمری کی شادی کی ممانعت اس لئے ہے کیونکہ اس کے انتہائی منفی اثرات شادی شدہ جوڑے کے علاوہ ان سے پیدا ہونے والی نسل پر بھی پڑتے ہیں۔ شادی ایک ثقافتی سرگرمی ہی نہیں بلکہ یہ انسانی صحت اور ترقی کا مسئلہ ہے۔ شادی صرف جنسی آسودگی کے لئے نہیں بلکہ ایک خاندان کا ادارہ قائم کرنے کے لئے کی جاتی ہے اس لئے شادی شدہ جوڑے پر خاندانی و سماجی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پورے عقل و شعور ، جسمانی و ذہنی مضبوطی و معاشی بندوبست کے ساتھ شادی کریں۔

 گذشتہ دنوں گلگت بلتستان کے ضلع دیامر میں ایک نو سالہ طالب علم کی تیرہ سالہ بچی سے شادی کرادی گئ تو بجائے اس پر سنجیدہ بات چیت کرنے کے اس کو سوشل میڈیا میں مذاق کا ذریعہ بنایا گیا۔ واضح رہے کہ یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور توجہ طلب سماجی مسئلہ ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ اجتماعی تعمیر و ترقی کے متاثر ہونے کے علاوہ بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

حکومت گلگت بلتستان کو چاہئے کہ قومی قانون پر فوری عمل درآمد کے ساتھ گلگت بلتستان میں کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لئے دیگر صوبوں کی طرح الگ سے قانون بھی بنائے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے، نیز تمام بچوں کا میڑک تک تعلیم حاصل کرنا لازمی قرار دیا جائے تاکہ ہم محض آبادی بڑھانے کی بجائے مفید اور کارآمد شہری پیدا کرسکیں جو اپنے خاندان اور معاشرے کی ترقی میں بہتر کردار ادا کرسکیں ۔

جو بنیادی اور اہم بات ہے وہ یہ کہ کم عمری کی شادی کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیئے کیونکہ یہ بچوں کی اور ان کی آئندہ نسلوں کی زندگیوں کے لئے خطرناک ہے۔ اس ضمن میں لوگوں کو آگاہی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ عاقل و بالغ اور کم عمر بچوں کی شادی میں فرق کو سمجھیں اور اس کے مضر اثرات سے آگاہ رہیں۔

کم سن بچیوں کے کھیلنے کی عمر میں شادی رچانے کا عمل قانونا” بھی جرم ہے جبکہ انسانی عقل سلیم اور ضمیر بھی فطری طور پر یہ گورا نہیں کر سکتا کہ ننھنی منی بچیوں کی شادی کر کے ان پر بھاری سماجی، گھریلو، معاشرتی ذمہ داریوں کے علاوہ ذہنی، جسمانی و جنسی بوجھ لادا جائے جس کو اٹھانے کی ان میں سکت ہرگز نہیں ہوتی۔

بچیاں رحمت ہوتی ہیں لیکن ہمارے معاشرے میں بچیوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے وہ دور جہالت سے بھی ابتر ہے۔ بچیاں سانجھی ہوتی ہیں ان کا تحفظ اور بہتر نگہداشت پورے معاشرے کی اجتماعی ذمہ داری ہے۔ اپنی بچیوں پر رحم کریں اور ان کے لئے ساتھ غیر انسانی سلوک کی حوصلہ شکنی کریں۔


Israruddin Israr

اسرارالدین اسرار سینئرصحافی، کالم نگار ، سماجی کارکن اور حقوق انسانی کمیشن پاکستان کے کوآرڈینیٹر برائے گلگت بلتستان ہیں۔ وہ گزشتہ چند سالوں سے باقاعدگی کے ساتھ ‘قطرہ قطرہ’ کے عنوان سے ‘بام جہان’ اور ‘ہائی ایشاء ہیرالڈ میں کالم لکھتے ہیں۔ ‘

اپنا تبصرہ بھیجیں