عزیز علی داد 11

گلگت بلتستان میں حقیقت سے فرار


از: عزیزعلی داد

کمزور سماج میں مصنوعی ذہانت (AI) انفرادی نفسیات کے کونے کھدروں میں مخفی خواہشات، خوابوں، محرومیوں اور فنتاسیاتی تصورات کو تصویری جامہ پہنائے گی اور یوں حقیقت سے فرار کا ایک راستہ مہیا کرے گی۔ اس کی ایک جھلک گلگت بلتستان کے مختلف مقامات کی فیوچرسٹک تصویریں ہیں جس میں بہتے دریا اور سرسبز کھیتوں کے درمیان سے ٹرین گزر رہی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گلگت بلتستان کے خوبصورت مقامات پر بااثر لوگوں اور طاقت ور اداروں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ اگر یقین نہیں آتا ہے تو ذرا استور، پھنڈر، نلتر، ہنزہ اور سکردو وغیرہ پہ ایک نظر ڈالیں۔ ایک ہم ہیں کہ بچے کی طرح کھلونے کے ٹرین کو چلا کر سمجھ رہیں ہیں کہ علاقے میں ریلوے کا نظام آگیا۔

جب حقیقت بہت تلخ ہو تو خواب ہی پناہ گاہ بن جاتے ہیں۔ ہماری حقیقت کو تلخ بنانے میں اس ریاستی نظام کا قصور ہے جس نے ایک ایسی خوف ناک معروضی حقیقت کی تشکیل کی ہے جہاں ہم اپنے آپ سے بے گانہ ہوگئے ہیں، زمین اتنی زہر آلود ہو گئی ہے کہ کوئی خواب نہیں اگ سکتا، اور سماج ایسا کہ ہر لحظہ ایک ہیرو کی تلاش میں ہر دن ایک ایسا ہیرو تیار کر رہا ہے جو اصل ہیرو کی پرجھائی بھی نہیں۔

 

پینٹگ: پہلی پینٹگ مصنوعی ذہانت کی بنائی ہوئی ہے۔

دوسری پینٹنگ میں فرانس کا اپنے نوآبادت کے لوگوں کے ساتھ سلوک دکھایا جا رہا ہے۔

بریخت کے ڈرامے "گلیلیو” میں گلیلیو کا شاگرد اندریاس کہتا ہے "غم سے معمور ہے وہ زمین جس میں کوئی ہیرو نہیں ہے”۔ گلیلیو جواب میں کہتا ہے "نہیں غم ناک صورت حال اس کی سرزمین کی ہے جسے ہیروز درکار ہیں۔”

ہماری حالت یہ ہے کہ آج ہم کارٹون کا ایک کردار اپنے بچوں کے لیے نہیں بنا سکتے ہیں۔ مگر دیدہ و نادیدہ قوتیں ہر دن ایک نیا ہیرو تیار کرکے سماج میں لانچ کر رہی ہیں۔ ہر شعبے میں سینکڑوں ہیروز نظر  آتے ہیں۔ ہر پانچ سال بعد ایک نیا آرڈر آتا ہے۔

گلگت بلتستان کا مروج نظام دنیا کے واٹر ٹاور میں پانی اور بجلی نہیں دے سکا تو مصنوعی ذہانت ہمارے معروضی حالات سے نکالنے کے لیے ایک نجات دہندہ بن کے سامنے آیا ہے۔یہ دور معروض سے فرار کا ہے۔ اگر یہ روش رہی تو ایک وقت ایسا بھی آئے گا جہاں معروض میں ہمارا جسم ہوگا اور ذہن اور روح مصنوعی ذہانت کو مقروض ہوگا۔ مصنوعی ذہانت کے لیے اصلی ذہانت چاہئے۔ آپ مصنوعی ذہانت سے اصلی حقیقت کو پینٹ کریں۔ یہ تبھی ممکن یوگا جب آپ کو معروض کی آگاہی ہوگی۔

ہماری موضوعیت کے سوتے ہماری معروضی حقیقت سے ہی پھوٹتے ہیں۔ اسی لیے اگر خوبصورت سماج اور خواب کی تعبیر چاہتے ہو، تو معروض بدلو۔ ورنہ گلگت بلتستان والو تم یہ صدی بھی فرسودہ نظام کے تشکیل دئیے گئے بھیانک خواب میں ہی گزارو گے۔

عزیزعلی داد ایک سماجی مفکر ہیں۔ انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اور پولیٹکل سائنس سے سماجی سائنس کے فلسفے میں ماسٹرز کی ڈگری لی ہے۔ وہدی نیوز، فرائڈے ٹائمز، ہائی ایشیاء ہیرالڈ اور بام جہاں میں مختلف موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے فلسفہ، ثقافت، سیاست، اور ادب کے موضوعات پر بے شمار مضامین اور تحقیقی مقالے ملکی اور بین الاقوامی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔ ؑعزیز جرمنی کے شہر برلن کے ماڈرن اوریئنٹل انسٹی ٹیوٹ میں کراس روڈ ایشیاء اور جاپان میں ایشیاء لیڈرشپ پروگرام کےریسرچ فیلو رہے ہیں

عزیز علی داد

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں