رپورٹ: کریم اللہ
20 اور 21 اپریل 2024ء کو بالائی چترال کے علاقہ ریشن سے تعلق رکھنے والے انجینئرنگ کے طالب علم رفیق علی کی لاش گاؤں سے دور سڑک سے کافی فاصلے پر کھیل کے میدان میں ملی تھی جس کے ساتھ موٹر سائیکل بھی گرے ہوئے تھے تاہم ذرائع کے مطابق موٹر سائیکل میں کوئی زیادہ خرابی نہیں دیکھی گئی جس سے یہ حادثہ ظاہر ہو سکیں۔
اس سلسلے میں گزشتہ ایک ہفتے سے پولیس تفتیش کر رہی تھی تاہم گزشتہ روز یعنی 26 اپریل کو اس وقت کیس میں بڑی پیش رفت ہوئی جب پولیس نے طویل تفتیش کے بعد اس قتل کے مبینہ ملزم اکرم نواز ولد گل نواز سکنہ ریشن گول کے خلاف دفعہ 302 کے تحت قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا۔
ریشن میں قتل ہونے والا نوجوان رفیق علی کی فائل فوٹوز
اس سلسلے میں تفتیشی آفیسر اور ایس ایچ او تھانہ بونی اپر چترال خلیل الرحمن نے ہمارے نمائندے کو بتایا کہ ابتدائی طور پر اس واقعے کے حوالے سے ابہام پائے جاتے تھے کیونکہ اس کو کلئیر قتل قرار نہیں دے سکتے تھے تاہم اپر چترال پولیس نے اس کیس کو مختلف زاویوں سے دیکھنے اور تفتیش کرنے کے بعد کال ڈیٹیلز ریکارڈز یعنی سی ڈی آر اور دوسرے ذرائع سے معلومات حاصل کرنے کے بعد اس قتل میں اکرم نواز کے ملوث ہونے کے کافی ثبوت پائے جس کی بنیاد پر ان کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے انہیں گرفتار کر لیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ ملزم اکرم نواز سے مزید تفتیش کا سلسلہ جاری ہے اور بہت جلد اس کیس میں بڑی پیش رفت ہو گی۔
اس سلسلے میں مقتول رفیق علی کے بھائی اور دوسرے ورثاء نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے اپر چترال پولیس کی تفتیش پر اعتماد کا اظہار کیا تاہم انہوں نے پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مطالبہ کیا کہ اس کیس کو مزید جامع انداز سے تحقیقات کر کے کیس میں اگر کوئی اور بھی ملوث ہے تو ان تک پہنچنے کی کوشش کی جائے اور قاتلوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔
اس سلسلے میں ریشن کے سماجی حلقوں نے ہمارے نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی و صوبائی حکومت کے انسانی حقوق کے اداروں اور ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی رفیق علی کے بہیمانہ قتل میں ملوث افراد کو سزا دلوانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کریں۔
رفیق علی مرحوم کے خاندانی ذرائع نے ہمارے نمائندے بتایا کہ ان کے سر کے پچھلے حصے میں شدید زخم تھے اور ان سے بہت زیادہ
خون بہنے کے باعث ان کی موت واقع ہو گئی تھی۔
یاد رہے کہ اپر اور لوئر چترال میں گزشتہ کئی سالوں سے قتل کے اندوہناک واقعات رونما ہوتے آرہے ہیں مگر شواہد نہ ہونے اور مقتولیں کے لواحقین کی جانب سے کیسز میں دلچپسپی ظاہر نہ کرنے کے باعث ایسے کیسز کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اور اکثر واقعات کو خود کشی کا نام دے کر دبا دیا جاتا ہے۔
ایسے واقعات میں مقتولیں کے ورثاء اور سول سوسائیٹی کو بھر پور آواز اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ چترال کے اندر رونما ہونے والے ایسے واقعات کی روم تھام ممکن ہو سکیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ رفیق علی کا قتل اپر چترال پولیس کے لئے ایک ٹسٹ کیس ہے جس کی جامع انداز سے تحقیقات کرکے اگر ملزماں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا تو اس سے عوام کی نظروں میں پولیس کے وقار میں بھی اضافہ ہو گا۔