فکر فردا
کریم اللہ
یوں تو پورا چترال اپنے فطری حسن اور منفرد ثقافتوں کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے تاہم چترال کی اصل وجہ شہرت یہاں کے چند ہزار کیلاش قبیلہ اور چترال گول میں پایا جانے والا برفانی چیتا ہے۔ فی الوقت ہمارے بحث کا موضوع وادی کیلاش ہے۔ کیلاش لوگ چترال کے تین دور افتادہ وادیوں یعنی بمبوریت، بریر اور رمبور میں رہائش پزیرہیں۔ ان کی آبادی چار ہزار ایک سو نفوس پر مشتمل ہے۔ سروے رپورٹس یہ ظاہر کررہی ہیں کہ اس کمیونٹی کی آباد ی میں اضافے کی بجائے نمایاں کمی واقع ہورہی ہے۔ جس کی بنیادی وجہ یہاں کے لوگوں کا اسلام کی جانب بڑھتا ہوا رجحان ہے۔ کئی رپورٹس سے یہ بات سامنے آچکی ہے کہ سالانہ بہت سارے کیلاش مشرف بہ اسلام ہورہے ہیں۔ جب کیلاش افراد اسلام قبول کرتے ہیں تو مذہب کی تبدیلی کے ساتھ وہ اپنی زبان اور ثقافت بھی چھوڑ دیتے ہیں ۔ یہی اس کمیونٹی کی تعداد میں کمی کی بنیادی وجہ ہے ۔
کیلاش بنیادی طور پر ایک مذہب بھی ہے ثقافت بھی اور یہاں کے باسیوں کی زبان بھی کلاشہ کہلاتی ہے۔ کلاش قبیلے والے خود کو سکندر اعظم کی نسل کہتے ہیں جبکہ بعض جدید محقیقیں انہیں انڈو آرئین نسل بتاتے ہیں تاہم ابھی تک کیلاش پر جینیاتی اندا ز سےسائنسی تحقیق نہیں ہوسکی ہے۔ اس لئے ان سے متعلق حتمی فیصلہ کرنا آسان نہیں۔ کیلاش لوگ توحید پر ایمان رکھتے ہیں اور وہ ایک خدا کو مانتے ہیں البتہ ان کے ہاں چھوٹے چھوٹے دیوتاؤں کا تصور بھی پایا جاتا ہے۔ تاریخ چترال کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چترال میں اسلام کی آمد سے قبل کیلاش کی حکومت ہواکرتی تھی جسے مقامی روایات میں کیلاش دور کہا جاتا ہے ۔ مسلمانوں کی آمد کے بعد کیلاش کی آبادی کم ہوتی گئی اور آج یہ چترال کے دورافتادہ تین وادیوں میں پانچ ہزار کے قریب نفوس تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔
وادی کیلاش تاریخی لحاظ سے موسیقیت سے بھر پور خطہ رہا ہے ، یہاں کے لوگ سال میں کئی تہوار مناتے ہیں ۔ ان میں سے موسم بہار کے آمد کی خوشی میں کیلاش کے تینوں وادیوں میں چیلم جوشٹ یا جوشی کا تہوار منعقدہوتا ہے جو کہ چار روزہ تہوار ہے۔ جوشی یا چلم جوشٹ طویل سرما سے نکل کر موسم بہار کی شروعات کاپہلا جشن ہے ۔ جبکہ دسمبر کے مہینے میں یہاں کا سب سے طویل دورانئے کا تہوار چھتر مس یا چھوموس کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ تہوار اس وقت منعقد کیا جاتا ہے جب لوگ سردیوں کے لئے سارا بندوبست کر چکے ہوتے ہیں غلہ جمع کرنے کے علاوہ دوسری ضروریات زندگی گھروں میں جمع کرتے ہیں ۔ یوں دسمبر کے پہلے ہفتے میں رمبور سے چھومس تہوار کا آغاز ہوتا ہےجشن کے آغاز میں کیلاش قبیلے کے مرد وخواتین رقص اور مذہبی گیت گا کر آنے والے سال کے لئے دعائیں مانگتے ہیں ۔سال روان میں بھی جشن چھتر مس یا چھوموس کا تہوار کیلاش کے تینوں وادیوں میں جوش وخروش اور پرامن طریقے سے منایاگیا ۔
رواں سال 7 دسمبر کوسے شروع ہونے والے چھوموس کا تہوار 22 دسمبر کو اختتام پزیر ہوا ۔ تہوار کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ اس کے آخری دنوں میں کیلاش کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اپنی پسند کی شادی رچاتے ہیں اور بعض نوجوان گھر والوں کی مرضی سے بھی شادی کرتے ہیں ۔ ماضی کے برعکس سال روان میں آٹھ جوڑوں نے شادی کرکے نئی زندگی کا آغاز کیا۔ کیلاش ثقافت کے مطابق اکثر لڑکے اور لڑکیاں اپنی مرضی سے جیون ساتھی کا انتخاب کرتے ہیں اور تہوار کے دنوں میں حالات کو موافق پا تے ہوئے اپنی پسند کی شادی رچاتے ہیں جسے مقامی زبان میں ”اڑاشنگ ” کہا جاتا ہے۔ چھوموس کے دوران کئی تہواروں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور کیلاش لوگ سیر ہوکر شراب پیتے ہیں ۔ کیلاشہ ثقافت میں شراب کو تقدس کا درجہ حاصل ہے ۔
حال ہی میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس وثقافتی تنظیم یونیسکو نے کیلاشا کو خطرے سے دوچار ثقافتوں کی لسٹ میں شامل کیا ہے اور اس ثقافت کو بچانے کے لئے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ امید ہے کہ خطرے سے دوچار اس قدیم ترین ثقافت کو بچانے کے لئے حکومت وقت اپنا بھر پور کردار اداکرے گی ۔