Baam-e-Jahan

پروفیسر مشیر الحسن: جیسا میں نے انہیں جان

تحریر: محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی
شجاع خاور نے کہا ہے:
یہ ہنر بھی میں کراس (cross) کر جاوں گا
وقت کی پالکی سے اتر جاوں گا

اکثر ایسا ہوتا ہے، کہ ہمارے درمیان سے بڑی شخصیات دبے پاوں گزر جاتی ہیں۔ وقت کی پالکی سے اترنے والے کچھ لوگ یقینا ایسے ہوا کرتے ہیں، جنھوں نے ہماری زندگی کے خد و خال طے کرنے اور ہماری فکری عمارتوں کو کھڑی کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ ایسی ہی ایک ہستی پروفیسر مشیر الحسن کی ہے، جو طویل علالت کے بعد، 10 دسمبر 2018 کی ایک یخ بستہ صبح، خاموشی سے اس دنیا سے چلے گئے۔ مشیرالحسن 15 اگست 1949 کو بلاس پور ضلع بارہ بنکی یوپی میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ تھے۔ وہاں سے 1969 میں ایم اے کیا، اور پھر 1977 میں کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

مشیر الحسن تاریخ کے بہترین استاد ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے محقق اور دانشور تھے۔ تقریباً تیس سال تک جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ تاریخ میں درس و تدریس کی خدمات انجام دیں۔ انھیں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا شیخ الجامعہ بھی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ 2004 سے 2009 کے دوران وہ جامعہ کے وائس چانسلر رہے، اس دوران انھوں نے اسے ایک مثالی ادارہ بنا دیا۔ مئی 2010 میں وہ نیشنل آرکائیوز آف انڈیا کے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔ 2007 میں ’پدم شری‘ کے اعزاز سے سرفراز کیے گئے۔ مجھے جب ان کی وفات کی اطلاع ملی تو ذہن میں یادوں کا ایک ریلا سا بہ نکلا۔
یں نے پروفیسر مشیر الحسن کو ایک طالب علم اور ایک قاری کی نظر سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہو گا، کہ اب تک مجھے جن چند قابل ترین اساتذہ سے سیکھنے کا موقع ملا، مشیر الحسن ان میں سے ایک ہیں۔ وہ پل کیسے بھلایا جا سکتا ہے، جب ایم اے تاریخ کے سال اول کے پہلے روز مشیر الحسن نے مارکس پر معروضی لیکچر دیا۔ اگلے دن کے لیے طلبا کو تاکید کی کہ وہ ان نوٹس کو ترتیب دے کر لائیں، وہ سب سے سنیں گے۔ میری انگریزی واجبی سی تھی، تو میں ان کے لیکچر کا بہت سا حصہ نوٹ نہ کر سکا۔ نقل اتار نہیں سکتا تھا، کہ پکڑے جانے پر بے عزتی مقدر ہو جاتی۔ روز حساب انھوں نے لیکچر سے قبل، باری باری سب سے کل کے نوٹس کے بارے میں دریافت کرنا شروع کیا۔ کسی سے دو سطریں سنیں، کسی سے ایک بند، کسی سے ایک صفحہ؛ یوں آگے بڑھتے گئے۔ وہاں زیادہ تر طلبا اچھے انگریزی میڈیم اسکول کے پڑھے تھے؛ بعضوں نے پورے لیکچر کو کاپی پر اتار رکھا تھا۔ میری باری آئی تو میں پہلے ہی ان طلبا سے اس قدر مرعوب ہو چکا تھا، کہ کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی؛ پھر بھی جرات دکھاتے کہا:
’’سر میں نے پوئٹری لکھی ہے‘‘۔
’پوئٹری‘ کا نام سنتے ہی ان کی بھنویں تن گئیں، غصے سے لال پیلے ہو گئے، سارے طلبا ہنسنے لگے۔ اپنی تو جیسے کاٹو تو لہو نہیں والی کیفیت تھی۔
’’سناو‘‘!
میں نے ڈرتے ڈرتے نظم سنائی، تو انھوں نے حکم دیا، کہ کھڑے ہو کر ایک مرتبہ زور سے سناؤ، تا کہ سب سنیں۔ میں نے تعمیل کی۔ خلاف توقع انھوں نے بہت تعریف کی اور میری ہمت افزائی کرتے ہوئے کہا، کہ اس کو کہتے ہیں ’آوٹ آف دی وے‘ جا کر کام کرنا۔ انھوں نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ بعد میں ملنے کی تاکید بھی کی
پروفیسر مشیر الحسن کے لیکچر دینے کا ایک مخصوص انداز تھا، جو طلبا کو متاثر کرتا تھا۔ سمجھیے وہ لیکچر نہیں دیتے تھے، گھول کر پلا دیا کرتے تھے۔ مشیر صاحب غالباً جامعہ کی واحد شخصیت تھی، جن کے لیکچر میں دوسرے موضوعات کے طلبا بھی شریک ہوتے تھے۔ کلاس میں اگر پہلے نہ گئے، تو جگہ ملنا مشکل ہو جاتا تھا۔ طلبا کھڑے کھڑے بھی دل چسپی سے ان کا لیکچر سنا کرتے۔ وہ ہر میدان میں آگے چلنے والوں میں سے تھے۔ طلبا کے درمیان بھی وہ یہی کیفیت پیدا کرنا چاہتے تھے اور اس کے لیے انھوں نے جامعہ میں علمی و ادبی ماحول سازی کے لیے خاصی کوششیں کیں، تا کہ صحیح معنوں میں وہ اسے دانش گاہ کی شناخت دلا سکیں۔ البتہ کچھ لوگ ان کے فکری نظریات اور بائیں بازو کے نظریات کے باعث، انھیں مذہب بیزار شخص کے طور پر بھی دیکھتے ہیں۔

مجسم تحریک پروفیسر مشیر، طلبا کے مشفق سر پرست تھے۔ ایک ایسے سر پرست جنھوں نے طلبا کی اس وقت ڈھارس بندھائی، جب ان کے ساتھ کوئی نہ تھا۔ 19 ستمبر 2008 کو جامعہ کے دو طلبا کو مبینہ طور پر دہشت گرد قرار دے کر ’انکاونٹر‘ کر دیا گیا۔ بٹلہ ہاوس انکاونٹر کی اس رپورٹ میں جامعہ کے طلبا کا نام میڈیا میں اُچھالا گیا، اور اس کی بنیاد پر پکڑ دھکڑ شروع ہوئی، جامعہ اور اس کے اطراف میں خوف کی فضا طاری تھی۔ اس وقت مشیر الحسن ہی تھے، جو ’ملزم طلبا‘ کی مدد کو آگے آئے، نا صرف ان کا کیس لڑنے کی بات کی بلکہ کانگریس حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔

وہ منظر بھی نہ بھلائے جانے والا ہے، جب کھچا کھچ بھرے انصاری آڈیٹوریم میں طلبا سے خطاب کرتے ہوئے، انھوں نے کہا، میں یہاں آج ایک وائس چانسلر کے طور پر نہیں، ایک باپ کی حیثیت سے بات کرنے آیا ہوں۔ اس جذباتی منظر میں کہے گئے ان کے سب الفاظ صحیح سے تو یاد نہیں ہیں، ہاں! انھوں نے ڈر خوف میں مبتلا طلبا کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وقت بھی تھم جائے گا، ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ طلبا سے خطاب کرتے ہوئے وہ خود رو پڑے تھے۔ اور ساتھ ساتھ طلبا کی پلکیں بھی نم ہو رہی تھیں۔ انھوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس وقت کے وزیر تعلیم ارجن سنگھ سے ملاقات کی اور بہت سخت موقف اپنایا اور اس کے بعد اپنی قیادت میں ایک امن مارچ بھی نکالا۔ وہ منظر بڑا دیدنی تھا جب طلبا اپنے ہاتھوں میں ترنگا لیے ہوئے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا، جیسے آزادی کی صبح میں نوجوان ایک نئے جوش و خروش کے ساتھ کسی نیا جہان تعمیر کرنے کے لیے تیار ہو گئے ہیں۔

بشکریہ ہم سب

اپنا تبصرہ بھیجیں