Baam-e-Jahan

پامیر ہائی وے: دنیا کی چھت پر واقع سڑک کے سفر کی تصویری کہانی

کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان واقع پامیر ہائی وے کا شمار دنیا کی سب سے مشکل گزرگاہوں میں ہوتا ہے، جس کا سفر کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں، لیکن بی بی سی ٹریول کے ڈیو سٹیمبولس پھر بھی اس سفر پر نکل کھڑے ہوئے۔

قرغزستان کے شہشر اوش سے تاجکستان کے شہر دوشنبہ تک 12 سو کلومیٹر طویل سڑک کسی بھی بےجگر مسافر کے لیے دنیا کے اعلیٰ ترین مناظر بھی پیش کرتی ہے جس کے دوران ویران دشت، بلند و بالا صحرا، برف سے ڈھکی چوٹیاں اور چار ہزار میٹر سے بلند دروں سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں انسانوں سے زیادہ برفانی چیتوں اور مارکوپولو شیپ جیسے نایاب جانوروں کی بود و باش ہے۔

دنیا کی چھت

سلسلہ ہائے کوہ پامیر کو دنیا کی چھت بھی کہا جاتا ہے اور یہاں کئی ایسی چوٹیاں ہیں جن کی بلندی سات ہزار میٹر (23 ہزار فٹ) سے متجاوز ہے۔ دنیا میں ہمالیہ، قراقرم، اور ہندوکش سلسلوں کو چھوڑ کر کہیں اتنے بلند پہاڑوں کی بہتات نہیں ہے۔ یہ علاقہ زلزلوں کی آماج گاہ ہے جس کے باعث یہاں کے پہاڑی سلسلے غیر مستحکم ہیں اور مٹی کے تودے گرنا روزمرہ کا معمول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنسنی کے متلاشی موٹر سائیکل سوار پامیر ہائی وے کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں۔

خطے پر بالادستی کی جنگ کا حصہ

یہ سڑک 19ویں صدی کے وسط میں روسیوں نے اس وقت تعمیر کی تھی جب برطانوی اور روسی سلطنتوں کے درمیان وسطی ایشیا پر غلبہ حاصل کرنے کے لیے ‘گریٹ گیم’ اپنے عروج پر تھی۔ اسی سڑک سے شاہراہِ ریشم کی ایک حصہ بھی گزرتا ہے اور آپ اب بھی پہاڑیوں کی چوٹیوں پر قدیم قلعوں کے کھنڈر دیکھ سکتے ہیں جنھیں تجارتی گزرگاہ کی حفاظت کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔

20ویں صدی میں سوویت یونین نے سڑک کی مرمت کروائی لیکن اب بھی اس کے بڑے حصے بجری اور کچی مٹی پر مشتمل ہیں اور پکے حصے کب کے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔

افغانستان کے کنارے کنارے

سڑک کا بڑا حصہ اس علاقے سے گزرتا ہے جسے واخان کی پٹی کہا جاتا ہے۔ سڑک خاصی دور تک افغانستان اور تاجکستان کی سرحد پر واقع تند و تیز دریائے پنج کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہے۔ دریا کے دونوں کناروں پر اسماعلی مسلمانوں کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ہیں۔ بعض اوقات سڑک تنگ موڑوں اور خطرناک کھائیوں سے گزرتے گزرتے دریا کے چوڑے اور ریتلے ساحل میں داخل ہو جاتی ہے جہاں گاڑی کے پہیوں اور دریا کے پانی کے درمیان چند انچ کا فاصلہ رہ جاتا ہے۔

جھیلیں اور اونٹ

طرح طرح کی صعوبتیں اٹھا کر یہاں آنے والے مسافروں کو اپنی مشقت کا صلہ بھی خوب ملتا ہے اور جگہ جگہ حیران کن حد تک ڈرامائی مناظر ان کی تھکن دور کرنے کا سامان مہیا کرتے ہیں۔ سڑک کے ایک ہفتے کے سفر کے دوران فیروزی رنگ کی جھیلیں اور دو کوہانوں والے اونٹوں سے بھرے ریتلے میدان دکھائی دیتے ہیں۔ اسی دوران یاشوکال جھیل سے بھی مڈبھیڑ ہوتی ہے جو اس علاقے میں میٹھے پانی کی بڑی جھیلوں میں سے ایک ہے۔

یہ جھیلیں ایک طرف تو مچھلیوں اور پرندوں کے گھر ہیں تو دوسری جانب تھکے ہارے مسافروں کو کیمپنگ کی جگہ بھی فراہم کرتی ہیں۔ ایک اور فائدہ یہ ہے کہ دنیا کے دوسرے علاقوں کی طرح یہاں آپ کو بھانت بھانت کے سیاحوں کے ہجوم میں گھر جانے کا خطرہ نہیں ہوتا۔

جس طرف آنکھیں اٹھاؤں، چوٹیاں ہی چوٹیاں

سفر کے دوران بعض مقامات پر ایسا لگتا ہے جیسے ہر طرف چوٹیاں ہی چوٹیاں ہیں، نہ صرف پامیر کی، بلکہ سرحد کی دوسری جانب ہندوکش کی چوٹیاں بھی افق کو چاروں طرف سے گھیرے میں لیے دکھائی دیتی ہیں۔ اگر آپ ان چوٹیاں کے نام معلوم کرنا چاہیں تو بعض بڑے دلچسپ ناموں سے واسطہ پڑے گا، جیسے ایک چوٹی کا نام ہے ‘اکیڈمی آف سائنسز۔’ البتہ سینکڑوں چوٹیاں اور پہاڑ ایسے بھی ہیں جنھیں ابھی تک کوئی نام نہیں دیا گیا۔

آہنی اعصاب

سڑک اکثر اوقات بلند گھاٹیوں سے گزرتی ہے جہاں کناروں پر کسی قسم کے حفاظتی پشتے نہیں ہیں۔ اس لیے اس علاقے کی سیاحت کمزور دل سیاحوں کے بس کا روگ نہیں ہے۔ آئے روز آنے والے زلزلے، برف اور مٹی کے تودے، سیلاب، ٹوٹی پھوٹی سڑک مل کر بڑا چیلنج پیش کرتی ہیں۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ راستے میں آبادی خال خال ہے اور زندگی کی سہولتیں ناپید۔ یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ یہاں وہی سفر کرنے کی ہمت کر سکتا ہے جس کے اعصاب لوہے کے ہوں اور وہ نہ صرف اچھا ڈرائیور ہو بلکہ ساتھ ہی ساتھ گاڑی کا عمدہ مکینک بھی ہو۔

مشکلوں کا صلہ

یہ علاقہ اس قدر اچھوتا ہے کہ آپ کو مشکل ہی سے کہیں کوئی دوسری گاڑی نظر آئے گی۔ لیکن تمام تر سفری مشکلات، طویل فاصلوں اور گرد و غبار کے باوجود خوشنما نظارے اور دنیا بھر سے الگ لینڈ سکیپ آپ کی تکالیف کا خاطر خواہ ازالہ کر دیتی ہے۔

بشکریہ بی بی سی

اپنا تبصرہ بھیجیں