Baam-e-Jahan

خوش بخت کی شادی اور ہمارا پچھتاوا


تحریر: صاحب مدد شاہ

تین جنوری کو مبینہ طور پر کراچی کے ایک نجی ہسپتال سے لاپتہ ہونے والی دوشیزہ خوش بخت جس کا تعلق گلگت بلتستان کے دورافتادہ علاقہ یاسین سے ہے کل اپنے ویڈیو پیغام میں اپنی شادی کا اعتراف کر لیا۔ اس کا کہنا تھا اس نے قربان نامی لڑکے سے بغیر کسی دباؤ کے اپنی مرضی سے کورٹ میرج کی ہے اور وہ اپنی ازدواجی زندگی میں خوش ہے۔

اس ضمن میں گزشتہ رات سے سوشل میڈیا پر ایسی بحث چھڑ گئی جس کا نہ کوئی سر ہے نہ کوئی پیر۔۔ خصوصا ہمارے کچھ سمجھدار اور پڑھے لکھے حضرات کل تک خوش بخت کی مبینہ گمشدگی کو قومی غیرت سمجھ کر اس کی بازیابی کے لیے گلگت سے کراچی تک احتجاج اور مر مٹنے کو تیار تھے۔ جب سے خوش بخت نے اپنے ویڈیو پیغام میں اعتراف کر لیا ہے کہ وہ صحیح سلامت ہے اور رشتہِ ازدواج سے منسلک ہو گی ہے ، تب سے ان کو یہ بات ناروا لگی ہے ۔ آخر یہ لوگ چاہتے کیا تھے؟ شاید ان کو انتظار تھا کہ خوش بخت کا مسخ شدہ لاش کسی کچرا کنڈی سے ملے یا ایک مہینے بعد ایدھی فاؤنڈیشن کے کسی سرد خانے سے۔۔۔۔ ان کو اس بات کا بھی ادراک نہیں ہے آخر خوش بخت کو یہ قدم اٹھانا کیوں پڑا اس کی کیا مجبوری تھی ہمیشہ کے لیے اپنے والدین رشتہ دار اور عزیز و اقارب سے بچھڑنے کی؟

کسی پر نکتہ چینی کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے ہم نے معاشرے میں اپنی خواتین کو کس حد تک خودمختار بنایا ہے ان کے مسائل کو ہم کن ترجیحی بنیادوں پر حل کرتے ہیں اور ان پر ہم کتنا بھروسہ کرتے ہیں ؟
سمجھ سے بالاتر ہیں کچھ لوگوں کو عورت کے قول و فیل سے اختلاف ہے۔ عورت ڈانس کرے وہ دشمن، عورت گانا گائے وہ دشمن, عورت کھیل کود میں حصہ لے وہ دشمن، عورت اپنی مرضی کا جو بھی کام کرے وہ دشمن ۔۔۔۔

حالانکہ یہ کوئی پہلا واقع نہیں ہے۔۔۔ ہمارے معاشرے میں ایسے سینکڑوں واقعات رونما ہوئے ہیں کچھ خواتین نے بے بس ہوکر اپنی زندگی کا چراغ گل کر دیا ہیں کچھ بے حد مجبور ہو کر کورٹ میرج کر لیتی ہیں۔

کیا ہم نے سوچا ہے اس لعنت کا حل بھی ہمارے پاس موجود ہے ہم خوش بخت جیسی اپنی لاکھوں بہنوں کو بچا بھی سکتے۔
ہیں۔ اس لعنت سے بچنے کے لیے ہمیں کسی بڑے ڈاکٹر سے علاج معالجے کی ضرورت نہیں ہے نہ کہ ہمیں بہت زیادہ پیسہ خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سادہ سا نسخہ ہے اپنے بہنوں اور بیٹیوں سے پیار سے بات چیت کرے ان کے مسائل کو سنے اور ان سے احترام کا رشتہ قائم کرے۔ اس سے بڑھ کر عورت چاھتی بھی کیا جس کو ہم نے ایک معیوب شے سمجھا ہے۔ خداوند ہمارے بہنوں کو راہ راست پر چلنے اور ہمیں ایک زمہ دار باپ، بھائی اور شوہر بن کر اپنے زمہ داریوں کو احسن انداز میں سر انجام دینے کی توفیق دے۔ امین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے