Baam-e-Jahan

نقیب کے والد جنرل باجوہ کے وعدے کی تکمیل کے منتظر

پاکستان کی تاریخ میں پولیس مقابلے میں مارے جانے والے سب سے مشہور کیس کو پاکستان کی عدلیہ ایک سال میں کیوں نہیں نمٹا سکیں؟ کیا مرکزی ملزم کے ساتھ خفیہ ہاتھ ملے ہوئے ہیں اور اس سارے عرصے میں نقیب محسود کے خاندان پر کیا گزری؟
نقیب قتل کیس اور مرکزی ملزم راؤ انوار

13 جنوری کو کراچی کے مضافات میں ایک پولیس مقابلے میں نقیب محسود کو ہلاک کیا گیا۔ اس مقابلے کے بعد اس آپریشن کے سربراہ راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ نقیب محسود کا تعلق مسلح شدت پسندوں سے تھا۔

18 جنوری کو نقیب محسود کے خاندان نے یہ الزامات رد کرتے ہوئے ملک بھر میں مظاہرے کیے اور اسی روز سندھ کے وزیرداخلہ نے اس مبینہ پولیس مقابلے کی تحقیقات کا حکم دیا اور 19 جنوری کو ہی سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخودنوٹس لیا۔ 20 جنوری کو راوانوار ملازمت سے معطلی کے بعد روپوش ہوئے اور 21 مارچ تک روپوش رہے۔

یکم فروری 2018 سے دس فروری تک اسلام آباد پریس کلب کے سامنے نقیب محسود قتل کے خلاف دھرنا دیا گیا اور اسی دھرنے سے پشتون تحفظ مومنٹ کے سفر کا آغاز ہوا۔

نقیب محسود قتل کیس میں کراچی پولیس کے سابق افسر راؤ انوار کے خلاف اس وقت انسداد دہشت گردی کی عدالت اور سندھ ہائی کورٹ میں کیسز چل رہے ہیں، جبکہ سپریم کورٹ میں نقیب محسود قتل کیس کا ازخود نوٹس کیس الگ ہے۔

سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کیس میں راؤ انوار کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا اور اس لسٹ سے نام نکالنے کے لیے حال ہی میں ایک درخواست خارج بھی کی جا چکی ہے۔ کراچی پولیس کے مذکورہ آفیسر پچھلے سال دسمبر میں ملازمت سے ریٹائر ہوئے تھے۔
محمد خان محسود وعدے کے تکمیل کے منتظر

گذشتہ روز کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ میں ایک تقریب میں نقیب محسود کی پہلی برسی منائی گئی، جبکہ خیبرپختونخوا کے ضلع ٹانک میں نقیب محسود کی برسی پر پشتون تحفظ موومنٹ نے ایک بڑے جسلے کا انعقاد کیا تھا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے نقیب محسود کے والد محمد خان محسود کا کہنا تھا کہ وہ اب بھی پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے وعدے کی تکمیل کے انتظار میں ہیں۔

’جنرل صاحب فوج کے سربراہ ہیں، جب اُنھوں نے ہم سے وعدہ کیا، تو اب ہمیں ایسے پریشان حال نہیں چھوڑیں گے۔‘

محمد خان محسود اپنے بیٹے کی پہلی برسی منانے کے لیے جنوبی وزیرستان سے کراچی گئے تھے، اور کراچی سے ٹیلی فون کے ذریعے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا، کہ بری فوج کا سربراہ جھوٹا نہیں ہو سکتا اور اُنھیں اُمید ہے کہ اُن کی فیملی کو انصاف ملے گا۔

گذشتہ ایک سال میں راؤ انوار لگ بھگ ایک مہینے روپوش بھی رہے اور سپریم کورٹ نے باقاعدہ طور پر نہ صرف سویلین اداروں بلکہ فوج سے بھی اُن کی گرفتاری میں مدد کی درخواست کی تھی۔ بعض حلقے راؤ انوار کے سر پر مقتدر حلقوں کے ہاتھ کا الزام لگاتے ہیں، جو کہ اُن کے بقول اُنہی کے لیے کام کیا کرتے تھے۔

سماجی رہنما جبران ناصر جو کہ نقیب محسود کیس کے قانونی ٹیم کے رکن بھی ہیں، کہتے ہیں کہ راؤ انوار نے ضمانت کے لیے دی گئی درخواست کے ساتھ جو کریکٹر سرٹیفیکیٹ جمع کیے تھے، وہ خفیہ اداروں نے بنائے تھے۔ ’راؤ انوار جو کریکٹر سرٹیفیکیٹس اور لیٹر آف ریکمنڈیشنز لگاتے ہیں، وہ معذرت کے ساتھ، ہمارے حساس اداروں کے ہیں۔‘

پی ٹی ایم کے سفر کا آغاز

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب محسود کی ہلاکت کے بعد منظرعام پر آنے والی پشتون تحفظ موومنٹ نے ٹانک میں اُن کی پہلی برسی ایک بڑے جلسے کی شکل میں منائی۔

جلسے سے خطاب کرتے ہوئے موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کا کہنا تھا کہ وہ سالہا سال احتجاج کرتے رہیں گے اور تب تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک نقیب محسود سمیت دیگر بے گناہ لوگوں کے قتل میں ملوث افراد کو سزاہیں نہیں ملتیں اور اُن کے دیگر مطالبات تسلیم نہیں ہوتے۔

منظور پشتین نے اپنے خطاب میں الزام لگایا کہ ’پشتون سرزمین‘ پر دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں ہو رہی، بلکہ بقول اُن کے لوٹ مار ہو رہی ہے۔

’اس سرزمین پر شدت پسندی کے خلاف کوئی جنگ نہیں ہو رہی، لوٹ مار ہو رہی ہے۔‘ منظور پشتین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پی ٹی ایم یکم فروری کو تنظیم کا یوم تاسیس منائے گی اور اُن میں عوام کو گذشتہ سال کی کارکردگی کے بارے میں بتایا جائے گا۔

وزیرستان سے جب امن اور عدم تشدد کے سائے تلے لگ بھگ 20 نوجوان نقیب محسود کے لیے انصاف مانگنے خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے تو دس روزہ دھرنے میں ’محسود تحفظ موومنٹ‘ ’پشتون تحفظ موومنٹ‘ میں بدل گئی۔

لوکل میڈیا کے مکمل بائیکاٹ، را اور این ڈی ایس کے ساتھ گٹھ جوڑ اور دیگر سنگین الزامات کے باوجود اس تحریک نے کراچی سے لے کر لاہور اور خیبرپختونخوا سے لے کر کوئٹہ تک بڑے بڑے جلسے کیے۔ تحریک کے ہر جلسے میں دیگر مطالبات کے ساتھ نقیب محسود کے لیے بھی انصاف کی آواز اُٹھائی گئی، لیکن اُن کاخاندان آج بھی انصاف کا منتظر ہے۔

بشکریہ بی بی سی

اپنا تبصرہ بھیجیں