حکمران طبقے ہندوستان اور پاکستان میں حب الوطنی اور نیشنل سیکیوریٹی کے نام پر لبرل اور ترقی پسند سوچ کو ہمیشہ سے دبانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس میں مذہب اور قوم پرستی کو استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک واضع مثال گزشتہ دنوں جواہرلال نہرو یونیورسٹی کے ترقی پسند طالب علم رہنما اور طلباء یونین کے سابق صدر کنیاکمار کے خلاف دائر غداری کا مقدمہ ہے۔
دونوں ممالک میں پسے ہوئے طبقات کے حقوق کت لیے اٹھنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے غدار قرار دئے جانے کا سلسلہ کوئی نئی بات نہیں۔
کنہیا کمار پر دائرمقدمے کے حوالے سے بی بی سی کی رپورٹ ملاحظہ کیجئے۔
انڈیا کی پولیس نے دلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق سٹوڈنٹ لیڈر کنہیا کمار اور خالد عمر سمیت دس طلبا کے خلاف تین برس پرانے معاملے میں غداری کا مقدمہ دائر کیا ہے۔
کنہیا کمار نے کہا ہے کہ پارلیمانی انتخابات سے سے ذرا پہلے مقدمہ دائر کیے جانے سے یہ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے سیاست کارفرما ہے۔
دلی پولیس نے جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے سابق طلبا کنہیا کمار، خالد عمر اور انر بھان بھٹا چاریہ اور سات کشمیری طلبہ کے خلاف فروری 2016 میں یونورسٹی کیمپس میں ایک پروگرام کے دوران مبینہ طور پر ‘ملک دشمن ‘ نعرے لگانے کے الزام میں میٹروپولیٹن مجسٹریٹ کی عدالت میں 12 ہزار صفحات پر مشتمل فرد جرم داخل کی ہے۔ عدالت اس فرد جرم پر کل غور کرے گی ۔
پولیس جرائم کے معاملات میں عمومآ تین مہینے میں عدالت میں فرد جرم داخل کرتی ہے ۔ اس معاملے میں پولیس نے تفتیش میں تین برس لگائے ہیں ۔ کنہیا کمار نے کہا ‘اب جب کہ پارلیمانی انتخابات قریب ہیں ، تین برس بعد ان کے خلاف فرد جرم داخل کیے جانے سے یہ واضح ہے کہ اس کے پیچھے سیاست کی کارفرمائی ہے۔”
کنہیا نے دلی پولیس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ‘مجھے عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے ۔ اس کیس کی تیز رفتار سماعت ہونی چاہئیے ۔اب دودھ کا دودھ اور پانی کاپانی ہو جائے گا۔ مودی حکومت کی سیاسی سازش کا پردہ فاش ہو گا’
کنہیا کمار کا تعلق کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی سٹوڈنٹ ونگ اے آئی ایس ایف سے ہے ۔ ان کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ پارلیمانی انتحابات میں بہار سے سی پی آئی کے امیدوار ہونگے
ہندو نظریاتی تنظیم آر ایس ایس کی سٹوڈنٹ شاخ اے بی وی پی کے ذریعے درج کرائی گئی رپورٹ کے مطابق جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں نو فروری 2016 کو پارلیمنٹ پر حملے کے مجرم افضل گرو کی پھانسی کے خلاف احتاج کرنے کے لیے ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق اس پروگرام میں کنہیا اور دیگر طلبا نے ملک مخالف نعرے لگائے تھے ۔ یہ سبھی طلبا اس الزام سے انکار کرتے رہے ہیں ۔ اے بی وی پی کی شکایت کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے پروگرام کا اجازت نامہ منسوخ کر دیا تھا ۔ لیکن طلبہ نے منسوخی کے باوجود یہ پروگرام منعقد کیا تھا۔ پولیس نے کنہیا کمار، عمر خالد اور انربان کو 2016 میں گرفتار کیا تھا۔ بعد میں انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ کنہیا اس وقت سٹوڈنٹ یونین کے صدر تھے۔
پولیس نے عدالت میں داخل کی گئی چارج شیٹ میں ان طلبا کے خلاف کئی ویڈیو فوٹیج اور متعدد طلبا اور گواہوں کے بیانات جمع کیے ہیں۔
جے این یو کے اس واقعے کے بعد یونیورسٹی کے خلاف بی جے پی اور دائیں بازو کی تنظیموں نے ایک مہم چھیڑ دی تھی۔ وزرا اور ہندو تنظیموں کے رہنما اسے ملک دشمن سرگرمیوں کا مرکز قرار دے رہے تھے۔
جے این یو اپنی بائیں بازو اور ترقی پسند رحجانات کے لیے پہچانی جاتی ہے۔ اس کا شمار ملک کے چند بہترین تحقیقی اداروں میں کیا جاتا ہے۔ روایتی طورپر یہ یونویرسٹی ہندوتوا اورمزہبی قوم پرستی کے تصورات کے خلاف رہی ہے۔
یہ یونیورسٹی ابتدا سے ہی (رائٹ ونگ) دائیں بازو کے نشانے پر رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت کے قیام کے بعد اس یونیورسٹی کے داخلے، انتظام، درس وتدریس کے نظام اور طلبا کے داخلے میں زبردست تبدیلیاں کر دی گئی ہیں ۔ یونیورسٹی کے اساتذہ ان تبدیلیوں کی مخالفت کر رہے ہیں۔
چند ہفتے قبل دنیا کے کئی نوبل انعام یافتہ سائسدانوں، دانشوروں، ادیبوں اور ایکیڈ مکس نے انڈیا کے وزیر تعلیم سے اپیل کی تھی وہ اس یونیورسٹی کو تباہ ہونے سے بچائیں۔