وقار احمد ملک
اس ڈاکیومینٹری میں آراء ہنزہ کے شہریوں کی ہیں جن میں سماجی رہنما و کارکن، ماہرین تعلیم ویونیورسٹی سکالرز شامل ہیں۔ ان آراء سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن بحیثیت مجموعی یہ آراء ہمیں مسئلہ کی حساسیت اور نوعیت کی جانب رہنمائی ضرور کرتی ہیں۔ کسی مسئلہ کی موجودگی سے سرے سے ہی انکار یا نظر انداز کرنا اس کا حل نہیں ہے۔ انکار اور نظر انداز کرنے کے رویے کا نتیجہ یہی نکلا ہے کہ مسئلہ اور زیادہ گھمبیر ہوتا چلا گیا ہے۔ ہمیں اگر بچوں کا مستقبل عزیز ہے تو تعصبات و تفاخری احساسات کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے اس پر بات کرنا ہو گی۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہنزہ کیمونٹی سے بہتر کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا۔
ہنزہ ایک ایسی سرزمین ہےجہاں سماجی مسائل موجود ہیں لیکن قومی و بین الاقوامی میڈیا میں تشہیر کچھ اس انداز میں ہوئی کہ ہنزہ ایک ایسی جنت ارضی ہے، جہاں دنیا کے خوش ترین لوگ رہتے ہیں۔ جنت اگر زمین پر کسی ٹکڑے کو کہا جا سکتا ہے تو ہنزہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہنزہ میں سماجی تعاون کے بہترین نمونے ملتے ہیں اور بلند شرح تعلیم کی وجہ سے شعور و آگہی بھی نظر آتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم، روزگار اور توانائی سمیت کئی مسائل بھی ہیں ۔ ہنزہ میں خود کشی جیسے مسائل سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ ہنزہ کے باسی کسی صورت ہنزہ کے امیج کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔ اس سے مسئلہ اور پیچیدہ ترہوتا جا رہا ہے۔
مجھے قوی یقین ہے کہ ہنزہ نے ہمیشہ ناممکن کو ممکن کر دکھایا ہے اور باقی پاکستان کے لیے مثال پیش کی ہے۔ اس معاملے کو بھی جب وہ اہمیت دے کر حل کرنے پر آئیں تو ضرور حل کر لیں گے۔ لیکن اس کے لیے پہلی سطح یہی ہے کہ مسئلہ کو تسلیم کیا جائے۔
بشکریہ ہم سب