تحریر: ثانیہ خان|
آج سرمایہ دارانہ نظام اپنی تاریخی شکست کے عہد میں داخل ہو چکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ اس نظام میں ٹوٹ پھوٹ شدت اختیار کرتی جارہی ہے۔ عالمی حکمران طبقہ اس بحران سے نمٹنے کے لیے جو بھی قدم اٹھاتا ہے وہ اس بحران کی دلدل میں اور دھنستا چلاجاتا ہے۔ نظام کے اس نامیاتی بحران نے جہاں ایک طرف حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر دی ہیں تو دوسری طرف پوری دنیا میں نوجوانوں، محنت کشوں اور خواتین نے سیاست اور مزاحمت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ معاشی اور سیاسی بدحالی نے اس سماج کی سب سے پسماندہ سمجھی جانے والی پرتوں کو بغاوت کے میدان میں اتار دیا ہے، جس میں خواتین سر فہرست ہیں۔ سرمایہ داری کا بحران اور اس کے نتیجے میں ٹوٹ پھوٹ اپنا اظہار سیاسی، سماجی، نفسیاتی، ثقافتی اور اخلاقی گراوٹ میں کر رہا۔ اس بحران سے دنیا کا کوئی خطہ اور ملک آزاد نہیں اور ترقی یافتہ ممالک سے لیکر ترقی پزیر ممالک تک تمام دنیا اس ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔
اگر اس نظام میں خواتین کی حالت زار کی طرف ایک نظر ڈالی جائے تو یہ بات صاف واضع ہوجاتی ہے کہ سرمایہ دارانہ سماج میں عورت کی حیثیت بازار میں بکنے والی کسی جنس سے زیادہ نہیں۔ مغرب کے نام نہاد آزاد معاشرے ہوں یا مشرق کے ترقی پزیر غلامی میں جکڑے ہوئے معاشرے، کوئی بھی اس گندگی سے مبّرا نہیں۔ ایک ریسرچ کے مطابق ہر تین میں سے ایک عورت جنسی طور پر ہراساں ہوتی ہے جبکہ ہر 30 سیکنڈ میں ایک ریپ ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام کونوں میں ہر عورت کم از کم ایک بار جنسی ہراسانی کی زد میں آئی ہے مگر چند ہی ایسے واقعات ہیں جو خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آ پائے ہیں۔جبکہ اکثر ایسے واقعات کو اور ان کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو بند کنویں میں دبانے کیلئے سماجی اخلاقیات کا گھناؤنا کردار ہے اور ہر اس آواز کی سماعتوں تک رسائی کو نا ممکن بنایا جاتا ہے جو اس نظام کے اندر ہونے والی غلاظتوں سے پردہ اٹھائے۔ پاکستان جیسے پسماندہ سماج میں رہنا تو خواتین کی اکثریت کے لیے ویسے ہی کسی جہنم سے کم نہیں۔ عورت کا غیرت کے نام پرقتل، زبردستی شادی، ونی، کم عمری کی شادی، ریپ، جنسی ہراسانی یہ تمام غلاظتیں اس سماج سے الگ تھلگ مسائل نہیں بلکہ ان کی جڑیں اس نظام میں پیوست ہیں۔
خواتین کے ساتھ ایسا برتاؤ کو ئی نئی بات نہیں جس پر حیرت ہو یا جس کو نظرانداز کیا جائے بلکہ یہ معاشرے کے ہر فرد کا مسئلہ ہے خواہ عورت ہو یا مرد۔ چونکہ طوفان کمزور درختوں کو با آسانی اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور پدر سری سماج کی وجہ سے بالکل اسی طرح ہر جبر کی زد میں عورت جلد آجاتی ہے۔ پاکستان کے سکول،کالج،یونیورسٹیاں،کاروباری مراکز،ہسپتال ہی نہیں حتی کہ گھروں تک کے اندر عورت محفوظ نہیں۔ کسی بھی غلاظت کو چھپانے کی جتنی کوششیں کی جائیں وہ اس سے بڑھ کر شدید صورت اختیار کرے گی اور اس کے نقصان میں بھی حد درجہ اضافے کے امکانات پیدا کرے گی۔
موجودہ عہد میں جنسی حراسگی کی غلاظت ایک نیا روپ انٹر نیٹ کی بدولت آن لائن ہراسمنٹ کی شکل اختیار کرچکی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت سی خودکشیوں کی رپورٹس سامنے آئی ہیں جو کہ دن بہ دن بد ترین صورت اختیار کر رہی ہے۔ پاکستان کے اندر فی الوقت FIA اس معاملے کو لے کر سرگرم عمل ہے۔ مگر اس کی وجہ سے ہراسمنٹ میں کمی اور خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ ڈان نیوز کو رپورٹ دیتے ہوئے FIA کے ایک سینیئر افسر نے کہا ہے کہ دو سال کے اندر 2016 تا 2018 ملک بھر میں 850 رپورٹس درج ہوئیں، جبکہ اسی مسئلہ پر ڈیجیٹل رائٹس فاونڈیشن DRF کے پاس اس سے دگنے اعداد و شمار موجود ہیں اور انکی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔لیکن یہ بھی اطمینان بخش نہیں کیونکہ اس مسئلہ کی نوعیت کو سمجھے بغیراور اس کی جڑیں مضبوط کرنے والی وجوہات کو ذہن میں رکھے بغیر مستقل حل نہیں نکالا جا سکتا۔
ویسے تو ان واقعات کا رو نما ہونا معمول کی بات ہے لیکن اگر ہم پچھلے چند ہی مہینوں کی بات کریں اور صرف تعلیمی اداروں تک کا سرسری جائزہ لیں تو حیران کن رپورٹس ہمارے سامنے آتی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں پچھلے دنوں کے واقعات میں 2018 میں اسلامک یونیورسٹی میں جنسی ہراسانی کا واقعہ، اسلام آبادکی بحریہ یونیورسٹی میں پروفیسر کی جانب سے 80 طالبات کی جنسی حراسگی، بہاوالدین زکریہ یونیورسٹی ملتان کا واقعہ، سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کوئٹہ کے ہاسٹل کا معاملہ اور ابھی 2019 کے پہلے مہینے میں BUITEMS کی طالبات کی آن لائن ہراسمنٹ شامل ہیں۔ یہ کیسز نئے نہیں ان کی جڑیں سماجی رویے میں بھی انتہائی مضبوطی سے پیوست ہیں۔ یہ تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لئے زہر سے کم نہیں۔
پروگریسو یوتھ الائنس جو طلبہ کی سیاسی اور تنظیمی تربیت کرتے ہوئے طلبہ کو تمام سماجی مسائل سے لڑنے اور ان کے حل کے لئے منظم کررہی ہے اورہمارے پروگرام میں ہراسمنٹ کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ ہم ہراسمنٹ کے اس سنگین مسئلہ کی نوعیت سمجھتے ہوئے اس کے خلاف نہ صرف تعلیمی اداروں میں بلکہ محنت کش خواتین کے کام کرنے والی جگہوں پر بھی اس مسئلے کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہراسگی کے مسئلے کے خلاف جدوجہد آخری تجزیے میں سماج میں جاری دیگر جدوجہدوں اور بالخصوص طبقاتی جدوجہد کیساتھ جوڑتے ہوئے ہی اسکا مستقل حل نکالا جا سکتا ہے۔ ہمارا مقصد خواتین کو منظم کرنا، انکو سیاسی میدان سے کنارہ کشی کے نقصانات سے باخبر کرنا، سیاست میں حصہ لینے کے لئے انکا شعور اجاگر کرنا اور موجودہ حالات میں ان کے کردار کو واضح کرنا جس کی بدولت نہ صرف ہراسمنٹ جیسے گند کو صاف کیا جائے بلکہ ہر اس برائی کے خاتمے کیلئے کردار ادا کیا جائے جس کا ہمارا معاشرہ شکار ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ خواتین کے مسئلے کا حل ذاتی ملکیت پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے سے جڑا ہوا ہے، جس میں عورت بذات خود بھی ایک ذاتی ملکیت میں تبدیل ہوچکی ہے اور جس کے اندر ساری دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی کے برابر دولت پر، کارخانوں پر، زمینوں پر اور ذرائع پیداوار پر ایک چھوٹی سی سرمایہ دار اقلیت (یعنی ایک فیصد) کا قبضہ ہے۔ اس نظام کے خاتمے اور ایک نئے نظام(سوشلزم) کے قیام کیلئے خواتین کو سیاست اور جدوجہد کے میدان میں اتر کر اپنی قسمت کو اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا تاکہ اس ظلم اور جبر کی بنیاد ہی کو ختم کیا جا سکے۔