تحریرو ترتیب:
محمد وزیر شفیع ایڈووکیٹ
موجودہ نظام حکومت اور اس میں موجود قانونی و تکنیکی نقائص
گلگت بلتستان میں رائج موجودہ نظام حکومت کو بین الا قوامی مسلمہ و مروجہ نظام ہائے حکومت، UNCIP کے قراردادوں اور اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کی روشنی میں دیکھا جائے تو نہ یہ کوئی ریاستی ڈھانچہ ہے نہ ہی کوئی صوبائی نظام بلکہ یہ پاکستانی حکمرانوں کا مسلط کردہ نو آبادیاتی ڈھانچہ ہے پاکستان کا اس خطے پر انتظامی کنٹرول غیر آئینی و غیرقانونی ہونے کے ساتھ ساتھ خطے کے عوام کے بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی پر مبنی ہے ۔ اسکے علاوہ موجودہ نظام میں خطے کی ترقی کے لئے طویل المدتی منصوبہ بندی، یہاں کی حکومت، مقننہ اور عدالتی نظام کو آئینی تحفظ فراہم کرنے اور خطے کے عوام کو آپس کے تعصبات بھلا کر ایک قومی دھارے میں شامل کرنے کے لئے نہ صرف ناکافی ہے بلکہ مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے۔
اس غیرآئینی نظامِ حکومت کی وجہ سے ایک طرف گلگت بلتستان کے عوام میں صدیوں سے قائم مضبوط سماجی رشتے ختم ہوکر رہ گئے ہیں اور جدید سیاسی قدریں بھی پروان نہ چڑ ھ سیکیں بلکہ خطہ میں موجود سماجی قدروں کی جگہ لوٹ کھسوٹ کے نظام نے لے لیا ،اسطرح خطہ بے آئین رہنے کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت سے بھی محروم رہا تو دوسری طرف اس خطے میں اب تک پائیدار ترقی، صنعت کاری اور قومی سرمایہ کاری کے لئے کوئی بھی منصوبہ تیار نہیں کیا جا سکا جو طویل المدتی ہو اور خطے کے سماجی اقدار سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ عوام کے روشن مستقبل کا بھی ضامن ہو۔ مزید براں مہاراجہ کے انتظامی کنٹرول سے نکلنے اور پاکستان کے ماتحت تریسٹھ سال گزرنے کے باوجود بھی خطے میں سیاسی فکر و شعور کافی حد تک پست ہے اور خطے میں قدرتی وسائل ہماری آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہونے کے باوجودہم ترقی کے میدان میں بھی بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ اب تک نہ زراعت کو خاطر خواہ ترقی دی گئی، نہ معدنیات سے استفادہ کیا جا سکا، نہ توانائی کے وسیع مواقع سے فائید ہ اٹھا کر بڑے پیمانے پر بجلی پیدا کرسکے، نہ صنعت کاری کی طرف توجہ دی گئی اور نہ ہی انسانی وسائل کو ترقی دینے کے لئے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات کئے گئے ہیں۔ ظاہری بات ہے یہ سب تب ممکن ہے جب خطے میں ایک واضح مینڈیٹ کے ساتھ کوئی آئینی جمہوری نظام حکومت موجود ہو اور یہاں صاف شفاف اور غیر جانبدار نظام کے تحت عوام کے حقیقی نمائیندوں کا انتخاب ممکن ہو مگر موجودہ نظام میں یہ سب ناپید ہیں۔
۱۹۴۷ سے لیکر اب تک خطے کے انتظامی دھانچے کو کئی طرح کے تجربات کی بھٹی سے گزارا گیا، عوام ہر تبدیلی کو اپنے لئے شاید کوئی نئی خوش آئند منزل کے طور پر قبول کرتے آئے ہیں۔ لیکن شومی قسمت کسی تبدیلی کے عمل میں عوام کو انکی حقیقی نمائیندگی کا تصور اورخطے کے انتظامی معاملات میں انکی مرضی و منشا شامل ہونے کا خواب اب تک شرمندہ ء تعبیر نہیں ہوسکا۔ موجودہ نظام بھی گھما پھرا کر وہی خود ساختہ کشمیر وگلگت بلتستان ڈویژن(کانا ڈویژن) کے انتظامی حکم نامے کے تحت چلنے والا ایک مصنوعی و عارضی انتظامی ڈھانچہ ہے جسکے تحت یہاں پر گورنر ، وزیر اعلیٰ ، سپیکراورڈپٹی سپیکر تو مقرر ہوئے لیکن حقیقت میں چاروں بغیر آئینی تحفظ کے فرضی عہدے ہیں ان کی کوئی آئینی حیثیت نہیں۔
مذکورہ انتظامی حکمنامے(GILGIT BALTITAN EMPOWERMENT (AND SELF GOVERNANCE (ORDER) 2009میں اس بات کی بھی کوئی وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ گلگت بلتستان صوبہ ہے یا ریاست؟ اگرہم اسے صوبہ مانتے ہیں تو کس ملک کا آئینی صوبہ ؟ جبکہ پاکستان کے آئین کے تحت ملک کے صرف چار صوبے ہیں نیز پاکستان کے آئینی حدود کے اندر بھی گلگت بلتستان شامل نہیں مزید براں کسی صوبے کا سپریم کورٹ کیسے ہو سکتا کیونکہ سپریم کورٹ ایک ملکی آئینی ڈھانچے کے اندر قائم کیا جاتا ہے، نہ کہ صوبائی، اگر اسے ریاست مان لیں تو وزیر اعلیٰ ا ور گورنر کے عہدے کیسے؟ حکم نامے میں یہ تو کہا گیا ہے کہ تمام تر انتظامی اختیارات گورنر کے نام سے استعمال کئے جائینگے لیکن اسکی کوئی وضاحت موجود نہیں کہ گورنر صاحب کس کے نام سے اپنے اختیارات استعمال کریگا؟ خطے کی اس غیر واضح اور غیر آئینی حیثیت کے پیش نظر پاکستان اس خطے کو اپنا آئینی صوبہ نہیں بنا سکتا۔ اور تنازعہ کشمیر کے حتمی تصفیہ سے قبل اور گلگت بلتستان کے عوام کی آزاد انہ مرضی حا صل کئے بغیرکسی صورت یہاں پرحکومت پاکستان اپنے انتظامی کنٹرول کو آئینی قرار نہیں دے سکتی۔ کیونکہ اقوام متحدہ میں گلگت بلتستان مسئلہ کشمیر کے تحت متنازعہ خطہ ہے اور پاکستان نے خود اسے تسلیم بھی کیا ہے اس لئے ہمارا مسئلہ ایک بین الاقوامی مسئلہ کے ساتھ جڑا ہواہے جوحکومت پاکستان کے ایڈھاک انتظامی حکم ناموں سے ہر گز حل نہیں ہوسکتا بلکہ یہاں کے عوام ہی بااختیار ہیں کہ اپنا نظام حکومت معروف جمہوری اصولوں اور UNCIP کی قراردادوں کی روشنی میں خود وضح کرے۔
ان تمام تر قانونی و تکنیکی مسائل کا بغور جائزہ لیا جاکراور خطے کے عوام کے علاوہ خود پاکستان کے بھی وسیع تر مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حتمی حل تک خطے کی عارضی انتظام ایک جمہوری نظام کے تحت چلانے کیلئے ایک آسان اور قابل عمل حل پیش کیا جاتا ہے۔ امید ہے پاکستان کے ارباب اختیار عوامی امنگوں کا احترام کرتے ہوے اس پر سنجیدگی سے غور کرینگے۔
گلگت بلتستان کا مجوزہ انتظامی ساخت
گلگت بلتستان کواقوام متحدہ کی قراردادیں برائے ہندو پاک ۱۹۴۹(UNCIP)، اقوام متحدہ کے عالمی چارٹر کے چیپٹر16 کے تحت اور بدلتے ہوئے معروضی حالات کے پیش نظرایک عبوری ریاستی حیثیت دی جائے، جو اپنا آئین، جھنڈا، ترانہ، خودمختار آئین ساز اسمبلی اور سینٹ (یا کشمیر اور گلگت بلتستان کا مشترکہ کونسل)کے علاوہ صدر، وزیر اعظم کے عہدے رکھنے کے ساتھ اپنے تمام داخلی امور ، قانون سازی اور مالیاتی معاملات میں خودمختار ہو جبکہ امور خار جہ و دفاع ریاست کی آئین ساز اسمبلی کو اعتماد میں رکھ کر پاکستان سرانجام دئیگا(بصورت کشمیر و گلگت بلتستان کا مشترکہ کونسل امور خارجہ کا قلمدان کونسل کے پاس رہے )، اور کرنسی پاکستان کی ہو۔
ٓ
آئین گلگت بلتستان میں خصوصی طور پر مندرجہ ذیل امور کی وضاحت ہو
۱۔ عبور ی ریاست گلگت بلتستان کا حکومت پاکستان کے ساتھ تعلق و اختیار ات کا تعین۔
۲۔ ریاست کی مسئلہ کشمیر کے تناظر میں اصولی موقف اور بطور ایک اکائی اپنی حیثیت۔
۳۔ ریاست کا بین الا قوامی تناظر میں سماجی ، معاشی و جغرافیائی حیثیت۔
۴ ریاست کے سرحدات کا تعین۔
۵۔ ریاست کے وسائل پریہاں کے عوام کی ملکیتی حقوق کی گارنٹی،۔
۶۔ ریاست کے تینوں اہم ستون عدلیہ ، مقننہ اورانتظامیہ کے مابین اختیارات کا تعین ۔
۷۔ ریاست میں مذہبی رواداری اور ہم آہنگی کے فروغ کے لئے ریاست کے اہم عہدوں کی جمہوری معیار کے مطابق تقسیم کا فارمولہ ۔
۸۔ عوام کے بنیادی انسانی جمہوری و سیاسی حقوق کی ضمانت۔
مجوزہ آئینی نظام کے فوائید
۱۔ گلگت بلتستان کو ریاستی حیثیت دینے سے گزشتہ ۶ دھائیوں سے جاری شناخت ، گومگو کی حالت اور ریاست کی آئینی حیثیت کا مسئلہ حل ہوجائیگا۔
۲۔ آئین کے تحت ذات، رنگ، مذہب، رتبہ، دولت اور ہرقسم کی تفریق کے خاتمے کی مکمل گارنٹی مل جائیگی، عوام کوبرابری کی بنیاد پر تحفظ حاصل ہوگا اوربنیادی حقوق کی آئینی گارنٹی مل جانے سے عوام میں قانون اور آئین سے محبت واپنائیت پیداہوگی اور ان میں پیدا شدہ احساس محرومی میں کمی ہوگی ۔ نیز عوام اپنے باہمی معاملات ایک آئینی نظام کے تحت بہتر طور پر حل کرسکیں گے اور ملکر ایک پائیدار امن کافارمولہ طے کر سکیں گے ۔
۳۔ قدرت کی طرف سے عطا کردہ قیمتی معدنیات اور بے شمار قدرتی وسائل کی موجودگی اور ان کے انسانی ترقی کے لئے استعمال سے ہماری کشمیرافیئرز اینڈ فنانس ڈویژن کی محتاجی کا خاتمہ ہوگا ہم اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے خودمحنت کرینگے ، اپنا اگانے اور اپنا کھانے کے عادی بن جائینگے یوں ایک دن ہم ایک خود اعتماد، خود انحصار اور باوقار قوم کی حیثیت سے ابھرنے کے قابل بنیں گے۔
۴۔ اختیارات و ریاستی وسائل کی جائز منصفانہ تقسیم کا فارمولہ مرتب ہونے کے بعدعوام میں کرپشن کی رو ش ختم ہوجائیگی کیونکہ انہیں انکے حقوق اور عدم استحصال کی گارنٹی مل جائیگی۔
۵۔ گلگت بلتستان کو ریاستی سٹرکچر دینے سے ریاست کو چلانے کے لئے منصوبہ ساز اداروں کا قیام عمل میں آئیگا ۔
۷۔ تمام تروسائل جن میں پانی، معدنیات، جنگل، زمین، کے علاوہ ریاست کی عظیم سیاحتی حیثیت، کسٹم، ہر قسم کے بالواسطہ اور بلا واسطہ ریوینیو، اور توانائی کے ذرائع وغیرہ آئینی تحفظ اور منصوبہ بندی کے ساتھ بروئے کا ر لائے جائینگے۔
۸۔ چھ دہائیوں پرمحیط غیر قانونی ، غیرانسانی نوآبادیاتی کنٹرول کا خاتمہ ہوگا ، اور مسئلہ کشمیر کے حل تک حکومت پاکستان کو حاصل( ریاست کو اعتماد میں لینے کی مشروط) امورخارجہ و دفاعی اختیارات اور کرنسی کو ریاستی آئین کی چھتری حاصل ہوگی، جبکہ ریاست کی اپنی انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کوٍ بھی آئینی تحفظ حاصل ہوگا۔ یو ں ریاست کی حکومت کو ایک مجاز اختیار
(تھارٹی)حاصل ہوگاجسکے ذریعے ریاست کسی بھی مجاز اختیار(اتھارٹی) کیساتھ معاملات طے کرنے کی اہل ہوگی جو موجودہ نظام میں گلگت بلتستان میں موجود کسی ادارہ یا فرد کو حاصل نہیں ۔
۹۔ اپنے تمام تر معاملات کی از خود ذمہ دار ہونے کے ساتھ ریاست مسئلہ کشمیر پر ایک ذمہ دار اکائی کے طور پر گلگت بلتستا ن کے عوام کی ترجمانی کرنے کے بھی اہل ہوگی اور ایک اہم اکائی کے طور پر مسئلہ کشمیر کے دیگرفریقین کے شانہ بشانہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کریگی۔
پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کی طرف سے اوپر سے مسلط کردہ موجودہ ایڈھاک نظام کی ناپائیداری او رکھوکھلاپن یہاں کے عوام پر ایک سال کے مختصر عرصہ میں ہی آشکار ہو چکا ہے عوام کے اندر احساس محرومی او بے چینی اپنی آخری حدود کو چھونے لگی ہے اس لئے قبل اسکے کہ یہ شدید احساس محرومی کی طوفان میں تبدیل ہوجائے حکمراں فلفور اپنی غلط پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور تیزی سے بدلتے ہوے عالمی حالات کو پیش نظر رکھتے ہو ے خطہ کے عوام میں بڑھتی ہوئی بے اعتمادی کو کم کرنے کے لئے اس عارضی فارمولے پر فوری عمل در آمد کا آغاز کرے۔
جاری کردہ:
وکلاء برائے انسانی حقوق گلگت بلتستان