پشاور ہائیکورٹ نے لوگوں کی صحت کو لاحق خطرات کے پیش نظر صوبائی ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی (ای پی اے) کو ہدایت کی ہے کہ وہ صوبائی دارالحکومت کے گنجان آباد علاقوں سے 20 موبائل فون بیس ٹرانسیور اسٹیشن (بی ٹی ایس) کو ہٹانے کے عمل کو یقینی بنائے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس قیصر رشید اور جسٹس عبدالشکور خان پر مشتمل بینچ نے ای پی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد بشیر کو ہدایت کی کہ وہ متعلقہ سیلولر فون کمپنیوں کو موبائل ٹاورز کے نام سے مشہور ان اسٹیشنز کو ہٹانے کے لیے نوٹس جاری کریں۔
بینچ کی جانب سے یہ حکم ای پی اے ڈائریکٹر جنرل کی جانب سے پشاور میں تعلیمی اداروں، صحت مراکز، مساجد اور رہائشی علاقوں کے قریب بی ٹی ایس کی موجودگی سے متعلق دی گئی ابتدائی رپورٹ کے بعد جاری کیا گیا۔
عدالت کی جانب سے ایک رہائشی محمد نعیم کی درخواست پر سماعت کی گئی، جس میں درخواست گزار نے دعویٰ کیا تھا کہ بی ٹی ایس انسانی صحت پر مضر اثرات ڈال رہے ہیں۔
درخواست گزار کی جانب سے عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ وہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، خیبرپختونخوا ای پی اے، صوبائی حکومت کے ذریعے سیکریٹری ماحولیات اور تمام سیلولر فون کمپنیز کے سربراہان کو حکم دیں کہ وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اسکولوں، ہسپتالوں، پارکوں اور گنجان آبادی والے علاقوں کے اطراف میں بی ٹی ایس اور مائیکرویو انٹینا نصب نہ کیے جائیں۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ متعلقہ فریقین کو حکم دے کہ وہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بنائے جانے قوانین پر عمل درآمد کے ذریعے لوگوں کو بی ٹی ایس سے ہونے والی ماحولیاتی آلودگی سے محفوظ رکھے۔
دوران سماعت درخواست گزار کے وکیل نور عالم خان، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (قانون) جواد اختر، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سید سکندر شاہ اور سیلولر فون کمپنیوں کے وکیل فاروق آفریدی اور محمد بابر عدالت میں پیش ہوئے۔
ای پی اے کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر محمد بشیر نے رپورٹ پیش کی اور کہا کہ ماحولیاتی ایجنسی نے 366 بی ٹی ایس کا معائنہ کیا، جس میں سے 20 ٹاور ایسے تھے جو بین الاقوامی معیار کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہ بی ٹی ایس آبادی سے 24 فٹ یا 8 میٹرز کے فاصلے کے اندر ہیں اور یہ خطرناک تابکاری اخراج کر رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 195 موبائل ٹاورز رہائشی علاقوں میں نصب ہیں، جس میں 46 اسکولوں کے قریب اور 55 مساجد کے قریب ہیں لیکن بین الاقوامی تابکاری کونسل کی جانب سے کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کا انسانی صحت پر ’اتنا زیادہ‘ خطرہ نہیں ہے۔
ای پی اے سربراہ کا کہنا تھا کہ رہائشی علاقوں میں زیادہ تر موبائل ٹاورز 2009 سے قبل اس وقت لگائے گئے تھے جب کمپنیوں کو ان کی تنصیب کے لیے نو آپجیکشن سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ 2009 کے بعد کمپنیوں کو قواعد و ضوابط کا پابند کردیا گیا اور بی ٹی ایس کی تنصیب کے لیے ای پی اے سے این او سی لینا ضروری تھا۔
اس موقع پر سیلولر فون کمپنیوں کے وکلا کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ زیادہ تر موبائل ٹاورز انسانی صحت کے لیے مضر نہیں ہیں، لہٰذا عدالت بی ٹی ایس کو تحفظ فراہم کرے۔
جس پر جسٹس قیصر رشید نے ریمارکس دیے کہ انسانی صحت سے زیادہ عدالت کے لیے کوئی چیز اہم نہیں، یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تجاوزات کی زد میں آنے والی 40 سال سے زائد پرانی عمارات کو بھی مسمار کیا گیا۔
اس پر درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی ٹی ایس سے خارج ہونے والی مائیکرو ویوز سر درد، قلبی دباؤ، یادداشت کھونا، اسقاط حمل، کینسر، نطفے کی تعداد میں کمی اور اعصابی نظام کی خرابی سمیت مختلف صحت کے مسائل کا باعث بنتی ہیں۔
بشکریہ ڈان اردو