ٹیلی ویژن، سٹیج اور فلم کی معروف اداکارہ روحی بانو جمعے کو ترکی میں انتقال کر گئیں۔ بے شک جو اس دنیا میں آیا ہے اس کو جانا بھی ہے اور زندگی نام کے اس مختصر وقفے میں اپنے حصے کا کام سرانجام بھی دینا ہے، اپنے حصے کے دکھ، سکھ، خوشیاں، غم، سب ہی بھوگنے ہیں۔ یہ ہی قدرت کا نظام ہے اور ہم سب اسی میں راضی ہیں۔
مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کچھ لوگوں کے چلے جانے سے یوں لگتا ہے جیسے ہماری زندگی کا کچھ حصہ بھی ان ہی کے ساتھ رخصت ہو گیا ہو۔ روحی بانو بھی ان لوگوں میں سے تھیں جنھوں نے اپنے پرستاروں کی زندگیوں پہ ان مٹ نقوش چھوڑے۔ ایک پوری نسل کے بچپن اور جوانی کی یادیں، ان کے ذکر کے بغیر ادھوری ہیں۔
وہ پاکستان کی ان اداکاراؤں میں سے تھیں جو نہ صرف اپنے فن کو بخوبی سمجھتی تھیں بلکہ دنیاوی حساب سے بھی بہت تعلیم یافتہ تھیں۔ میری معلومات کے مطابق انھوں نے تین ایم اے کر رکھے تھے۔ انگریزی ادب اور نفسیات کے بارے میں تو مجھے معلوم، تیسرے مضمون سے میں لاعلم ہوں۔
روحی بانو قسمت والی تھیں کہ انھیں وہ دور ملا جب ٹیلی ویژن پہ ڈاکٹر انور سجاد جیسے گوہر شناس افراد موجود تھے۔ ان کو ڈراموں میں لانے کا سہرا بھی ڈاکٹر صاحب کے سر ہے۔ ان کے ہم عصروں میں خالدہ ریاست، عظمی ٰ گیلانی، عابد علی اور فردوس جمال جیسے بڑے بڑے نام شامل ہیں۔
ڈراموں کی فہرست طویل ہے، شاید 45 سے زائد ڈراموں میں کام کیا۔ ان کا آ خری کام غالباً فصیح باری خان کا ڈرامہ تھا۔ زندگی کے آخری سالوں میں جب وہ فاؤنٹین ہاؤس میں زیرِ علاج تھیں تو وہاں بھی انھوں نے ایک ڈرامہ لکھا اور پرفارم کیا۔ ان کی اداکاری، پونا فلم اکیڈمی کے نصاب میں شامل ہیں۔ ایک فنکار کے لیے اس سے بڑی خوش نصیبی کیا ہو گی؟
لیکن اس کے ساتھ ساتھ، روحی بانو سے متعلق ہماری فنکار برادری اور معاشرے میں ایک احساسِ جرم پایا جاتا ہے کہ شاید ہم ان کی وہ قدر نہ کر پائے جس کی وہ مستحق تھیں۔ ایک اداکارہ کے طور پہ خوش نصیب ہو نے کے ساتھ ساتھ وہ نجی زندگی کے کچھ معاملات میں بد قسمتی کا شکار رہیں۔ شادی کی ناکامی، جوان بیٹے کی موت اور دیگر حالات نے مل ملا کے انھیں مالیخولیا کا مریض بنا دیا تھا۔
اس مرض کا علاج بھی ہوتا رہا اور ان کے حالات پہ بارہا مختلف چینلز ان کے انٹرویو بھی نشر کرتے رہے۔ میں چونکہ روحی بانو کی پرستار ہوں، یہ انٹرویو بغور دیکھا کرتی تھی۔ مجھے ان کے چہرے اور گفتگو میں کبھی مالیخولیا کا مرض نظر نہ آیا۔ ہمیشہ یوں ہی لگا کہ یہ تو وہی درد ہے جو ہر فنکار کے دل میں چھپ کے بیٹھا ہوتا ہے۔ تنہا ہونے کا درد، اپنی نوع کے واحد فرد ہونے کا درد اور یہ درد اندھیرے سویرے ہمیں کہیں بھی دبوچ لیتا ہے۔
کمزور اور بزدل اس درد سے چھپ کے دنیا سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ اپنی صلاحیتیں چھپا کے عام انسانوں جیسے نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں۔ روحی بہادر تھیں۔ درد کا یہ بھوت جب انھیں ملا تو انھوں نے اس سے خائف ہونے کی بجائے اسے گلے سے لگا لیا، اسے خود میں ضم کر لیا۔ مختلف ہونے کا درد وہی جانتے ہیں جو مختلف ہوتے ہیں۔ سوانگ بھر کے مختلف نظر آنے والے اس درد کو کیا جانیں؟
چونکہ معاشرے کا مقصد لوگوں کو ایک وردی پہنا کے ایک جیسا کرنا ہوتا ہے اس لیے مختلف لوگوں کو ذہنی مریض قرار دے دیا جاتا ہے اور چونکہ معاشرے کے اصول بھی چوکور دماغ والے طے کرتے ہیں اس لیے دماغی امراض کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ ڈپریشن، تنہائی، خوف اور دیگر ذہنی مسائل کے لیے ہمارے پاس دو ایک ٹھپے ہیں جو ہر اس شخص پہ لگا دیے جاتے ہیں، جس کے پاس معاشرے کے لیے سوال ہوتے ہیں۔
روحی نہیں رہیں، کئی سوال چھوڑ گئیں۔ فنکار معاشرے کو بہت کچھ دیتے ہیں، جواب میں معاشرہ انھیں، خوف، ناداری، تنہائی اور بے کسی دیتا ہے۔ کیا فنکار رشتوں کے محتاج ہوتے ہیں یا ان کے پرستار ان کے سب رشتوں کی کمی پوری کرسکتے ہیں؟
روحی بانو کی حد تک تو یہ جواب نفی میں ملتا ہے۔ نجی زندگی کے مسائل، صرف روحی کے مسائل تھے لیکن ان کی فنکارانہ صلاحیتوں پہ ہم سب کا حق تھا۔ کیا ایوارڈز کے دھاتی اور چوبی ڈھانچے ہی عمر بھر کی تکلیفوں کا ثمر ہیں؟
‘مجھے فلسفۂ موت نہ سمجھ آیا، بڑا میں نے سوچا کہ موت کیا ہوتی ہے؟ کیوں آتی ہے؟’ سر پہ سیاہ دوپٹہ اوڑھے، روحی بانو نے آج سے 11 سال پہلے اپنے ایک انٹرویو میں یہ سوال کیا تو مجھے لگا سکرین کے پار ان کی آنکھیں میرے دماغ میں اتر کے مجھ سے بھی یہ ہی سوال کر رہی ہیں؟
آج 11 سال بعد، جب وہ ہم میں نہیں تو میرے پاس اب بھی ان کے سوال کا جواب نہیں، مگر شاید ان کو اس سوال سمیت ان سب سوالوں کا جواب مل گیا جو انھیں ستاتے رہتے تھے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون!
بشکریہ بی بی سی