منیشا بھلّا
صحافی، انڈیا
اپنی کہانیوں کے ذریعے سماج کا ننگا سچ دکھانے والے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے نزدیک ہندوستان بھی پاکستان جیسا ہی ہے۔
گذشتہ دنوں پاکستان میں انڈین اداکارہ اور فلمساز نندتا داس کی فلم ‘منٹو’ اور لاہور کے کلچر سینٹر الحمرا کی جانب سے ‘منٹو میلہ’ پر پابندی نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستان کے ایک طبقے میں آج بھی منٹو منظور نہیں۔
لیکن منٹو کے لیے بے انتہا محبت کا دم بھرنے والے ہندوستان نے بھی ان کے ساتھ انصاف نہیں کیا اور روایتی طور پر منٹو کی صدسالہ یوم پیدائش کیا گیا ایک بھی وعدہ آج تک پورا نہیں کیا۔
منٹو کی پیدائش سمرالا کے گاؤں پپڑودی (لدھیانہ) میں 11 مئی سنہ 1912 کو ہوئی تھی۔ ان کی پیدائش کے صدسالہ جشن کے موقعے پر ان کے گاؤں میں ایک بڑا پروگرام منعقد کیا گیا تھا اور اس موقعے پر ان کی تینوں صاحبزادیوں نگہت پٹیل، نزہت ارشد اور نصرت جلال کو بھی بلایا گيا۔
بروقت ویزا نہ ملنے کے سبب وہ چھ ستمبر سنہ 2012 کو پپڑودی آئیں۔ اس موقعے پر ڈائس سے بے شمار وعدوں کی بوچھار دیکھی گئی۔ لیکن آٹھ سال بعد جب وہاں جا کر دیکھا تو ادبی تنظیموں اور حکومت کے نمائندوں نے اپنا ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔
ان وعدوں میں پپڑودی میں منٹو کے نام کا صدر دروازہ بنوانا شامل تھا۔ منٹو کی بیٹیوں نے اس دروازے کا سنگ بنیاد بھی رکھا تھا۔ لیکن دروازے کی تعمیر تو دور وہاں سے سنگ بنیاد بھی غائب تھا۔
اس تقریب میں گاؤں میں لائبریری قائم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا جس میں منٹو کی تصانیف کے ساتھ ان کے پنجابی ترجمے رکھنے کی بات کہی گئي تھی۔ ایک کمرے پر مشتمل لائبری تو کھلی لیکن اب وہ عموما بند رہتی ہے۔ وہاں پنکھے تک نہیں لگ سکے۔
گاؤں میں منٹو کے نام پر تین کروڑ روپے کی لاگت سے ایک آڈیٹوریم بنانے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ منٹو جس گھر کے جس کمرے میں پیدا ہوئے تھے اسے ادب سے محبت کرنے والوں کے لیے کھولا جانا تھا۔
فلمساز جتندر موہر نے کہا: ‘حکومت کا ایک طریقہ ہوتا ہے کہ وہ کسی کو کس طرح یاد کرتی ہے۔ جب حکومت عوام سے کیے جانے والے وعدے کو ہی پورا نہیں کرتی تو پھر وہ مٹو سے متعلق کیے گئے وعدے کو کیوں پورا کرے گی؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ حکومت منٹو سے کوئی سروکار بھی نہیں۔’
جتندر موہر کے مطابق ‘ہم منٹو کو اس لیے یاد کرتے ہیں کیونکہ ہم کہیں نہ کہیں تقسیم ہند سے مجروح ہوئے ہیں۔ نندتا داس نے اگر منٹو پر فلم بنائی ہے تو وہ فرقہ واریت سے مجروح ہیں۔ کوئی بھی منٹو کو کسی نہ کسی سیاق و سباق یا حوالے سے یاد کرتا ہے۔ لیکن حکومتوں کو ان کو یاد کرنے میں کیا فائدہ ہے؟
موہر کا کہنا ہے کہ آج ملک کا جو ماحول ہے اس کے حساب سے منٹو کی کہانیاں معاشرے کے منھ پر زوردار تماچہ ہیں۔ اس لیے منٹو حکومتوں کو راس نہیں آتا۔
معروف پنجابی ادیب ماسٹر ترلوچن سنگھ بتاتے ہیں کہ گاؤں میں بننے والی لائبریری کے لیے سابق ایم پی ایم ایس گل نے اپنے فلاحی فنڈ سے چار لاکھ روپے دیے تھے۔ اس کے علاوہ 40،000 روپے گرام پنچایت نے بھی خرچ کیے۔
دہلی کی ادبی تنظیموں سے کتابیں تو آ رہی ہیں لیکن ان کے رکھنے کے لیے یہاں جگہ نہیں ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وعدہ تو گاؤں کا نام بدل کر ‘پپڑودي منٹووالي’ کرنے کا کیا گيا تھا اور سرکاری پرائمری سکول اور سمرالا ریلوے سٹیشن کے نام بدل کر منٹو کے نام پر رکھا جانا تھا لیکن کسی وعدے پر عمل نہیں ہوا۔
ترلوچن سنگھ کا کہنا ہے کہ منٹو کا ادب اور بطور خاص پنجاب پر قرض ہے۔ اگر حکومت یا اکیڈمی فنڈز دے تو گاؤں میں ایک گیسٹ ہاؤس تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ پپڑودی میں منٹو سے متعلق ادب کو محفوظ کیا جاسکتا ہے اور اسے ایک تحقیقاتی مرکز کی شکل دی جا سکتی ہے۔منٹو اور دیگر مصنفین پر بنائی گئی فلمیں دکھائي جا سکتی ہیں۔ لیکن کوئی ایک انچ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں۔
منٹو کے صد سالہ جشن کے اہم منتظمین میں شامل دلجیت شاہی کا کہنا ہے کہ سابق وزیر اعلی ایم ایس گل کے علاوہ کسی نے بھی ہماری مدد نہیں کی۔ شاہی کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر اتنا ہی ہوسکتا ہے، اس سے زیادہ کرنے کے لیے حکومت کو آگے آ کر امداد کرنی چاہیے۔
کچھ حد تک ہم بھی پاکستان جیسے ہیں
گاؤں میں ایک دہلیز پر بیٹھے ایک شخص سے میں نے پوچھا کہ منٹو کے بارے میں جانتے ہیں تو کچھ بتائيں تو وہ کہنے لگے کہ ‘ہاں لكھاري تھا، تقسیم کے بعد پاکستان چلا گیا تھا، سنتے ہیں کہ وہاں جاکر وہ پاگل ہو گیا تھا۔’
بشکریہ بی بی سی