Baam-e-Jahan

کشمیر لائن آف کنٹرول:’اندھیرے میں پہاڑ اترنا مشکل تھا، ٹارچ بھی نہیں جلاسکتے تھے’

پاکستان اور انڈیا کے درمیان جاری کشیدگی کے باعث لائن آف کنٹرول پر بسنے والے کشمیریوں کی پہلے سے جاری مشکلات میں ایک بار پھر سے اضافہ ہو گیا ہے۔

یہ وہ لوگ ہیں جو یوں تو سارا سال ہی بے یقینی کی فضا میں زندگی گزارتے ہیں کیونکہ ان کے گھر اور گزرگاہیں براہِ راست بندوقوں اور توپوں کے نشانے پر ہوتی ہیں لیکن کشیدگی کی صورت میں انھیں بےگھر بھی ہونا پڑتا ہے۔

انڈیا کی جانب سے پاکستان کی سرحد کی خلاف ورزی کے بعد بدھ کی علی الصبح لائن آف کنٹرول کے دیگر علاقوں کی طرح چکوٹھی سیکٹر بھی ہلکے اور بھاری ہتھیاروں سمیت توپوں کی گھن گرج سے گونج اٹھا۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی وادیِ جہلم کے گاؤں چکوٹھی کے رہائشی سید حسین نے بتایا کہ ان کی آنکھ سوا دو بجے شدید دھماکوں کی آواز سے کھلی۔ ان کا خاندان اس سے پہلے بھی 1999 کی کشیدگی میں بے گھر ہو چکا تھا اور برسوں بعد واپس اسی مقام پر گھر بنایا جو براہ راست انڈین توپوں کے نشانے پر تھا۔

دو بجے سے چار بجے تک کا وقت ان کے خاندان اور ارد گرد کے لوگوں نے خوف اور بے چینی میں گذارا۔ ان کے بقول پہاڑ پر ہونے کی وجہ سے وہ اندھیرے میں نیچے سڑک تک نہیں جا سکتے تھا۔

ان کا کہنا تھا ’چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اندھیرے میں پتھریلے کچے راستوں سے اترنا مشکل تھا اور ٹارچ جلانا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے تھوڑی روشنی ہونے کا انتظار کیا۔‘

’جب فائرنگ ہوتی ہے تو انہیں (انڈین فوج کو) یہ نظر نہیں آتا ہے سول ہے یا فوجی انہیں بس بندہ مارنا ہوتا ہے۔‘

سید حسین جب خاندان اور محلے کے لوگوں کے ہمراہ سڑک تک پہنچے تو انہیں معلوم ہوا کے سڑک کے قریب رہنے والے سبھی لوگ فائرنگ شروع ہوتے ہی گاڑیوں پریا پیدل وہاں سے نکل چکے تھے۔

’ہمارا ایک رشتہ دار آگے کے علاقوں سے کنٹینر لے کر آگیا اور ہم سب اس میں سوار ہو کر وہاں سے نکل آئے۔ ‘

ایک اور مقامی شخص سید کفایت شاہ کا کہنا ہے کہ اگرچہ انڈیا کی جانب سے پاکستانی فضائی حدود میں جہاز لے جانے کے بعد انتظامیہ اور فوج نے مقامی لوگوں کو خبردار کیا تھا کہ شام کے بعد احتیاط کریں اور الرٹ رہیں۔

’لیکن لوگوں کو لگا کہ شاید کچھ نہیں ہوگا۔ کیونکہ یہاں اکثر کشیدگی کے لیے الرٹ ہوتے رہتے ہیں۔ رات کو گولہ باری شروع ہوئی تو جس حال میں تھے بس بچوں کو اٹھایا اور گھروں سے نکل کھڑے ہوئے۔‘

کفایت شاہ کا کہنا تھا کہ اگرچہ سارا گاؤں خالی ہو چکا ہے تاہم کچھ لوگ مال مویشی کو چارہ ڈالنے کی غرض سے گھروں کو لوٹے تھے جو شام ہوتے ہی واپس آ گئے۔

انھوں نے بتایا کے ماضی میں ہونے والی کشیدگی کے سبب انتظامیہ نے مقامی لوگوں کو گھروں کے قریب محفوظ بنکر بنانے کے لیے مالی امداد بھی کی تھی تاہم یا تو یہ ناکافی تھی یا یہ سہولت اکثر کو میسر ہی نہیں آ سکی۔

ان کا کہنا تھا ’اگر محفوظ مورچہ ہوتا تو یوں آدھی رات کو گھر بار نہ چھوڑنا پڑتا۔‘
’انتظامیہ مکمل الرٹ اور تیار ہے`
چکوٹھی اور اس سے قریبی لائن آف کنٹرول کے علاقے ضلع ہٹیاں بالا میں آتے ہیں۔ ہٹیاں بالا کے ڈپٹی کمشنر عمران شاہین نے بی بی سی کو بتایا کہ لائن آف کنٹرول کے علاقوں چکوٹھی اور کھلانہ کے تقریباً 100 خاندانوں نے نقل مکانی کی ہے۔

ان کے بقول بیشتر لوگ ابھی تو اپنے ہی رشتہ داروں کے گھروں میں ٹھہرے ہوئے ہیں تاہم انتظامیہ نے لوگوں کے قیام کا بندوبست کر رکھا ہے۔

ان کا کہنا تھا ’چونکہ یہ کشمیر کے وزیرِ اعظم کا حلقہ ہے اس لیے ان کی خصوصی ہدایات پر انتظامات کیے گئے ہیں۔ رہائش کے لیے تعلیمی اداروں کی عمارتیں حاصل کی گئی ہیں جبکہ طبی کیمپ بھی لگایا گیا ہے۔`

انھوں نے بتایا کہ بدھ کو بعد دوپہر سے علاقے میں فائرنگ اور گولہ باری بند ہے تاہم انتظامیہ مکمل الرٹ ہے۔ ’تمام غیر سرکاری امدادی تنظیمیں بھی حکومت کے ساتھ ہیں۔ ‘

ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ان کے تحفظ کی خاطر لائن آف کنٹرول کے انتہائی قریبی علاقوں میں جانے سے پرہیز کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔
نیلم میں فی الحال امن لیکن لوگوں میں خوف
دوسری جانب وادی نیلم میں حالات نسبتاً پر امن ہیں تاہم مقامی لوگوں میں غیر یقینی کی صورتحال ہے۔

وادی نیلم کی جانب جانے والی سڑک کا ایک بڑا حصہ دریا کی دوسری جانب لائن آف کنٹرول کے اس پار انڈین توپوں کے نشانے پر رہتا ہے، اس لیے کشیدگی کی صورت میں مقامی افراد کے لیے نقل مکانی آسان نہیں ہے۔

یاد رہے کہ یہاں سے متعدد بار شہری آبادی اور مسافر گاڑیوں کو نشانہ بنایا گیا۔

نیلم گاؤں کے رہنے والے عابد حسین کا کہنا تھا کہ اگرچہ لوگوں کو خبردار رہنے کو کہا گیا ہے تاہم یہاں اب تک فائرنگ یا گولہ باری نہیں ہوئی ہے۔

ان کا کہنا تھا ’مظفرآباد سے آنے والی سڑک کو نوسیری کے مقام پر ٹریفک کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔ تاہم دو سے تین گھنٹے میں کوئی ایک گاڑی کو جانے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ‘

ایسی صوتحال میں وادی مکمل طور پر دیگر علاقوں سے کٹ جاتی ہے۔ تاہم عابد نے بتایا کے ’ماضی کے تجربے اور کچھ موسم کی صورت حال کے پیش نظر لوگوں کے گھروں میں کم از کم ایک ماہ کا راشن موجود ہوتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ دو دن سے شام کے بعد علاقے میں سکیورٹی کے پیشِ نظر بجلی بند کر دی جاتی ہے۔
کشیدگی کی صورت میں ان کا کہنا تھا کہ نیلم کے لوگوں کے لیے نقل مکانی ممکن نہیں کیونکہ سڑک نشانے پر ہے اور پہاڑوں پر سے پیدل جانا آج کل اس لیے ممکن نہیں کہ چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوئی ہیں۔

بی بی سی اردو

اپنا تبصرہ بھیجیں