قریب بیس کروڑ کی آبادی کے ساتھ ایٹمی طاقت پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے لیکن اسی پاکستان میں کئی ملین خواتین اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے تقریباً غیر انسانی حالات میں محنت مزدوری کرنے پر بھی مجبور ہیں۔
تحریر: عصمت جبیں
پاکستان میں شرح خواندگی کبھی بھی متاثر کن یا تسلی بخش حد تک زیادہ نہیں رہی ہے اور نہ ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک کی آبادی کے ناخواندہ حصے میں خواتین کا تناسب مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ زیادہ تر قدامت پسندانہ سوچ کے حامل پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کی تعلیم پر لڑکوں کی نسبت کم توجہ دی جاتی ہے۔
یوں شہری اور دیہی دونوں طرح کے علاقوں میں رہنے والی اور نچلے سماجی طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو جب اپنے خاندانوں کی کفالت کرنا پڑتی ہے یا بہت زیادہ مہنگائی کے موجودہ دور میں ناکافی آمدنی کی وجہ سے خاندان کے مرد سربراہ کا ہاتھ بٹانا پڑتا ہے، تو انہی خواتین میں سے اکثر ایسے حالات میں محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں، جو سماجی عدم مساوات اور معاشرتی ناانصافی کے مظہر ہوتے ہیں۔
پاکستان میں خواتین کی آبادی کا یہ وہی محروم حصہ ہے، جس کا ذکر سرکاری اعداد و شمار میں تو ملتا ہے، جس کی اقتصادی حالت بہتر بنانے کے لیے حکومتی منصوبے بھی شروع کیے جاتے ہیں، لیکن ان تک ہر سال آٹھ مارچ کو منائے جانے والے خواتین کے عالمی دن تک کے نتائج کبھی بھی نہیں پہنچے۔
ایسی زیادہ تر پاکستانی خواتین کو تو یہ علم بھی نہیں ہوتا کہ دنیا میں ہر سال خواتین کا کوئی عالمی دن بھی منایا جاتا ہے۔ ان کے لیے سال کا ہر دن اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے کی جدوجہد کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
یہ پاکستانی خواتین زندہ رہنے کے لیے ہر روز کس طرح کی جنگ لڑتی ہیں، یہ جاننے کے لیے ڈوئچے ویلے نے اسلام آباد کی کچی بستیوں کی رہنے والی چند عورتوں اور بچیوں سے بات چیت کی۔
بچوں کے ساتھ در بدر
صوبے خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے آ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ اسلام آباد کی ایک کچی بستی میں رہنے والی گلشن خانم دن بھر اپنی اور اپنے بچوں کی روٹی کے لیے کئی کئی میل پیدل سفر کرتی ہے۔ وہ اپنے ایک بچے کو کمر پر ڈالے اور دوسرے کو انگلی سے لگائے گھر گھر جا کر سوکھی روٹیاں جمع کرتی ہے۔ یہ سوکھی روٹیاں بیچ کر اسے معمولی سی آمدنی ہو جاتی ہے۔ روٹیاں اگر تازہ ہوں اور ساتھ میں کچھ سالن بھی مل جائے تو وہ گلشن خانم اور اس کے اہل خانہ خود کھا لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا گلشن خانم کے بچوں کا آنے والا کل خود اس کے اپنے آج سے مختلف اور بہتر ہو گا؟
چک جُھمرہ کی ذلیخا اور ساجدہ کا المیہ
فیصل آباد کے قریب چک جُھمرہ سے اسلام آباد آنے والی دو خواتین ذلیخا اور ساجدہ کا المیہ یہ ہے کہ وہ معمولی محنت مزدوری اور کبھی کبھی مال برداری کر کے اپنے اور اپنے اہل خانہ کے لیے کچھ نہ کچھ رقم کما لیتی ہیں۔ ان دونوں پاکستانی عورتوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ شام کے وقت مقامی پولیس اہلکار انہیں بے گھر یا بھکاری سمجھ کر تنگ کرنے لگتے ہیں اور ان سے وہ ساری رقم یا اس کا ایک حصہ ہتھیا بھی لیتے ہیں، جو انہوں نے دن بھر میں کمائی ہوتی ہے۔
ان دونوں خواتین نے، جو ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بھی اپنے سروں پر بوجھ اٹھائے ہوئے تھیں، بتایا کہ اب ان کے لیے اپنے گھروں سے دور اسلام آباد میں رہ کر اپنے اہل خانہ کی کفالت کرنا ممکن نہیں رہا، اس لیے انہوں نے فیصل آباد کے قریب واپس چک جُھمرہ میں اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
کوڑے میں سے پلاسٹک کی تلاش
اسلام آباد کے متوسط طبقے کے ایک کاروباری علاقے میں یہ خاتون ایک پارکنگ کے کونے میں ایک ریستوراں کے ملازموں کی طرف سے پھینکے گئے کوڑے میں سے اپنے اور اپنے بچوں کے لیے روزی کے ذرائع تلاش کر رہی ہے۔ یہ خاتون اس کوڑے میں سے پلاسٹک کی استعمال شدہ پلیٹیں اور چمچ ڈھونڈ رہی ہے تاکہ انہیں بیچ کر کچھ رقم حاصل کر سکے۔ کوڑے کرکٹ سے نکالا گیا یہ پلاسٹک استعمال شدہ پلاسٹک کی اشیاء کی تجارت کرنے والے چھوٹے مقامی دکاندار خرید لیتے ہیں، جو وہ بعد میں ری سائیکلنگ فرموں کو بیچ دیتے ہیں۔
اسلام آباد شہر کے سیکٹر جی الیون کی ایک کچی بستی کی رہائشی نابالغ لڑکی گل بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ سارا دن کوڑے کرکٹ میں سے وہ پلاسٹک یا لوہا وغیرہ چنتی ہے
اس پاکستانی خاتون شہری نے، جو اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی، کہا کہ اس سے جو کچھ بن پڑتا ہے، وہ کرتی ہے، لیکن اس نے یہ بھی پوچھا، ’’ہم جیسے شہریوں کو عزت سے زندہ رہنے کا موقع دینے کے لیے حکومت کیا کر رہی ہے؟‘‘
خوبصورت لیکن بدقسمت گل بی بی
اسلام آباد شہر کے سیکٹر جی الیون کی ایک کچی بستی کی رہائشی نابالغ لڑکی گل بی بی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ سارا دن کوڑے کرکٹ میں سے وہ پلاسٹک یا لوہا وغیرہ چنتی ہے، جسے بیچ کر وہ روزانہ کچھ نہ کچھ رقم کما لیتی ہے۔ اس بچی نے بتایا، ’’جب مجھے بھوک لگتی ہے تو میں کسی نہ کسی گھر سے کھانا مانگ کر کھا لیتی ہوں۔ کچھ گھروں کی باجیاں بہت اچھی ہیں، وہ مجھے روز کھانے کو کچھ نہ کچھ دے دیتی ہیں۔ کبھی کبھی چند روپے بھی۔‘‘
گل بی بی کے مطابق اس کے والد فوت ہو چکے ہیں، والدہ بہت بیمار ہیں اور اس کے گھر میں چھ بہنیں اور بھی ہیں۔ ’’میں اور میری ساری بہنیں محنت کرتی ہیں۔ لیکن کبھی کبھی کچھ گندے لوگ جب ہمیں پریشان کرتے ہیں، تو بے حد غصہ آتا ہے اور دل سے بددعا نکلتی ہے۔‘‘
بشکریہ: ڈی ڈبلیو