17/03/2019 ڈوچے ویلے n/b Views
اب تک مغربی دنیا دہشت گردی کو زیادہ تر عسکریت پسند مسلمانوں کا کام ہی سمجھتی تھی۔ کرائسٹ چرچ میں مسلمانوں پر دہشت گردانہ حملوں نے ثابت کر دیا کہ اسلام دشمنی کی بنیاد پر نفرت بھی بالکل اتنی ہی ہلاکت خیز ہو سکتی ہے۔
نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں جمعہ پندرہ مارچ کو مسلمانوں کی دو مساجد پر دہشت گردانہ حملوں اور ان کے نتائج پر جرمن خبر رساں ادارے ڈوئچے ویلے کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل کا لکھا تبصرہ۔
کرائسٹ چرچ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے دو مساجد میں عبادت میں مصروف انسان تھے۔ عبادت گاہوں میں انسان خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔ وہ کچھ بھی برا کیے یا سوچے بغیر اپنے تصورات میں گم ہوتے ہیں، وہ کسی بھی جرم کا نشانہ بننے والا آسان ترین ہدف ہوتے ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ خدا کے سامنے سب انسان برابر ہیں۔ اشد ضرورت اور خوف کی صورت میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے، کیونکہ ان دونوں اسباب کے باعث بھی انسان ایک دوسرے کے قریب آ جاتے ہیں اور ایک دوسرے کو آپس میں ایک جیسا ہی سمجھتے ہیں۔
ان حملوں کے مرتکب دہشت گرد نے اپنی کارروائیوں کی بڑی تفصیل سے منصوبہ بندی کی تھی اور ہر پہلو پر قبل از وقت غور کیا تھا۔ اس بارے میں بھی کہ وہ اپنی ان کارروائیوں کی انٹرنیٹ پر تشہیر کیسے کرے گا۔
لیکن ایک فیصلہ کن پہلو وہ بھول گیا تھا۔ دہشت گردی انسانوں میں تقسیم پیدا کر سکتی ہے تو وہ انہیں ایک دوسرے کے قریب بھی لا سکتی ہے۔
کوئی انسان لادین ہے، مسیحی، یہودی یا پھر مسلمان، جہاں خطرہ ہو وہاں یہ بات اہم نہیں رہ جاتی۔ دہشت گردی مختلف مذاہب، ثقافتی شناختوں اور قومیتوں میں کوئی تفریق نہیں کرتی۔ اس میں یہ پہلو بھی کوئی کردار ادا نہیں کرتا کہ کون کہاں پیدا ہوا تھا یا کوئی کتنے عرصے سے کسی ملک یا شہر میں رہ رہا ہے۔
یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ کرائسٹ چرچ میں ان حملوں کی بھی بین الاقوامی سطح پر اتنی ہی شدت اور اتفاق رائے سے مذمت کی گئی، جتنی مسلمان عسکریت پسندوں کی طرف سے پیرس، برسلز، لندن، میڈرڈ یا پھر برلن میں کیے گئے مسلح حملوں کی کی گئی تھی۔ بات اگر دہشت گردی کی ہو، ان معصوم اور بے گناہ انسانوں کی جنہیں بے دردی سے قتل کر دیا جاتا ہے، تو پھر اس عمل کی مذمت میں کوئی دوہرے معیارات ہو نہیں سکتے کیونکہ ایسا ہونا نہیں چاہیے۔
اسلاموفوبیا یا اسلام سے خوف ایک خطرناک رجحان ہے، جس پر ہمیں مغربی دنیا میں بہت گہری نظر رکھنا ہو گی، عین اسی طرح جیسے مسلمانوں میں بھی تشدد پر آمادہ، چھوٹے لیکن خطرناک گروہ پائے جاتے ہیں۔ دونوں پر نظر رکھنا برابر اہم ہے۔
ڈی ڈبلیو کی چیف ایڈیٹر اینس پوہل۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے۔