|تحریر: فضیل اصغر|
انسانی تہذیب کی ہزاروں سالہ تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے۔ اس کشمکش میں انسانی سماج مختلف نظاموں سے گزرا۔ ہر نئے نظام نے اسی طبقاتی کشمکش کی بدولت پرانے نظام کو اکھاڑ پھینک کر جنم لیاجس میں کلیدی کردار محنت کش طبقے کا تھا جس کی جدوجہد کی بدولت ہی ایسا ممکن ہو پایا۔ اسی طرح انسانی سماج کا ارتقائی عمل جاری رہا۔ مختلف سماجی و معاشی نظاموں (غلام داری، جاگیر داری اور سرمایہ داری) میں اپنی حکمرانی کو قائم رکھنے کیلئے حکمران طبقے کی جانب سے مختلف ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے رہے اور حکمرانی کو مختلف اشکال اور صورتوں میں برقرار رکھا گیا۔ کہیں پر ننگے جبر کے ذریعے تو کہیں پر نام نہاد قانونی انداز میں، کہیں پر جنگوں اور چڑھائی کی صورت میں تو کہیں پر کاروباری فریب کے ذریعے۔ مگر بالآخر ظلم اور جبر کی مقدار کے انتہا پر پہنچنے کے بعد اسکا معیاری اظہار(بغاوت یا انقلاب) مختلف انداز میں (معروضی حالات کے مطابق) ہوتا رہا۔ ان انقلابات اور بغاوتوں نے کئی بڑے ناموں کو جنم دیا، جنہوں نے ان انقلابات اور بغاوتوں کی قیادت کی۔ مثلاًروس میں ہونے والے محنت کشوں کے عظیم سوشلسٹ انقلاب کے قائد لینن اور کیوبا کے انقلاب کے لیڈر چے گویراوغیرہ جو تاہم اپنی غیر معمولی جرات اور درست انقلابی نظریات کی بدولت ہی اس منصب پر فائض ہوئے۔ انہی ناموں میں ایک نام بھگت سنگھ کا بھی ہے۔
ابتدائی زندگی
بھگت سنگھ 28ستمبر 1907ء کو لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوا۔ بھگت سنگھ کا خاندان خاص طور پر چچا اور والد انقلابی نظریات کی طرف مائل تھے اور برطانوی راج سے ہندوستان کو آزاد کرانے کی جدوجہد میں سرگرم عمل تھے۔ بھگت کے چچا اور والد غدر پارٹی کے ممبر تھے۔ غدر پارٹی ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کر رہی تھی۔ یہ ایک قوم پرست اور مسلح جدوجہد پر یقین رکھنے والی پارٹی تھی۔ ایسے خاندان میں پیدا ہونے کی وجہ سے بچپن ہی سے بھگت سنگھ باغی سوچ رکھتا تھا۔ جلتی پرتیل کا کام جلیانوالا باغ کے انسانیت سوز سانحہ نے کیا۔ 13اپریل 1919ء کو جلیانوالا باغ میں کئی لوگ بیساکھی منانے اور قومی آزادی کے دو لیڈر ستیا پال اور ڈاکٹر سیف الدین کی گرفتاری اور شہر بدری کے خلاف احتجاج کرنے اکٹھے ہوئے۔ جرنل ڈائر کی جانب سے ان نہتے اور معصوم لوگوں پر سیدھی گولیاں چلا دینے کا حکم جاری کر دیا گیا۔ اس وحشیانہ عمل کے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق1000سے زیادہ لوگ مارے گئے۔اس سانحے نے جہاں تمام ہندوستانیوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کیے وہیں بھگت سنگھ کو بھی شدید متاثر کیا۔ اس سانحے نے بھگت سنگھ کی باغی سوچ کو بہت بڑھاوا دیا اور برطانوی راج سے نفرت میں بے انتہا اضافہ کیا۔ اس سانحے کے نتیجے میں گاندھی کو بھی تحریک عدم تعاون کا آغاز کرنا پڑا ۔ اس تحریک میں احتجاج کے طور پر لوگوں نے برطانوی اشیا خریدنے سے انکار کر دیاتھا۔ مگر گاندھی نے جلد ہی اس تحریک کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اس فیصلے کے نتیجے میں پورے ہندوستان میں شدید مایوسی اور غم و غصہ پھیلا۔ مایوسی اور غم و غصے کی اس لہر کا شکار بھگت سنگھ بھی ہوا۔ اس وقت بھگت سنگھ کی عمر تقریباً 13سال تھی۔
عملی جدوجہد کا دور
اس غداری کے نتیجے میں بھگت سنگھ گاندھی اور اس کے نام نہاد عدم تشددکے طریقہ کار سے متنفر ہو گیا۔ 1923ء میں بھگت سنگھ نے نیشنل کالج (لاہور) میں داخلہ لیا۔ یہاں اس کی ملاقات انقلابی سوچ رکھنے والے نوجوانوں سے ہوئی جن میں سکھ دیو نمایاں تھا۔ بھگت سنگھ کا انقلابی جذبہ ابھی بھی نہ صرف برقرار تھا بلکہ زیادہ شدت اختیار کر چکا تھامگر اب اس جذبے کیساتھ ساتھ بھگت نے پڑھنا بھی شروع کر دیا تھا۔ بھگت ایک سچا انقلابی تھا اور ہر سچے انقلابی کی طرح ہمیشہ درست رستے کی تلاش میں رہتا تھا۔ اسی وجہ سے وہ سارا سارا دن کالج کی لائبریری میں بیٹھا رہتا تھا۔ سکھ دیو اور دیگر انقلابی نظریات کے حامی نوجوانوں کیساتھ مل کر بھگت سنگھ نے آغاز میں انفرادی دہشت گردی کا طریقہ کار اپنایا۔ اس کی بنیادی وجہ سماج میں موجود ظلم و جبر کے خلاف شدید غم و غصہ اور کسی انقلابی پلیٹ فارم کا نہ ملنا تھا۔ بالآخر انہیں HRA(ہندوستان ریپبلکن آرمی)نامی ایک پلیٹ فارم مل ہی گیا۔ انہی دنوں بھگت سنگھ کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔ اس وقت بھگت سنگھ کیلئے سب سے اہم چیز انقلابی جدوجہد تھی لہٰذا بھگت سنگھ گھر چھوڑ کر کان پور چلا گیا اور باقاعدہ عملی جدوجہد شروع کر دی۔ بھگت سنگھ کے HRAکا حصہ بننے کے کچھ ہی عرصے بعد HRAنے کاکوری کے مقام پر ٹرین لوٹنے کا فیصلہ کیاجس میں سرکاری خزانہ تھا۔ اس کام کے نتیجے میں انہیں شدید نقصان ہوا۔ تنظیم کی تمام تر اہم لیڈرشپ کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔ بس چندر شیکھر آزاد ہی جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہو سکا۔ اس واقعے نے HRAکو بہت بڑا دھچکا پہنچایا۔
اب تنظیم چلانے کا سارا بوجھ نئے نوجوانوں پر آگیا تھا۔ بھگت سنگھ نے فوراً نوجوانوں کیلئے ایک نیا پلیٹ فارم بنایا جس کا نام نوجوان بھارت سبھا تھا۔ اس پلیٹ فارم کے ذریعے بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر انقلاب کے پیغام کو پورے ملک میں پھیلانے کا کام شروع کیا۔ یہ لوگ سٹریٹ تھیٹر کرتے تھے اور لوگوں میں پمفلٹ بانٹتے تھے۔ اس طرح آہستہ آہستہ نوجوان بھارت سبھا نوجوانوں میں کافی مقبول ہو رہی تھی۔ اس خوف سے بھگت سنگھ کو ایک جھوٹے کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ الزام یہ لگایا گیا کہ بھگت نے بھیڑ میں دھماکہ کیا ہے۔ خیر بھگت کے والد کی جانب سے 60ہزارروپے کی ضمانت کرائی گئی۔ رہائی کے بعد کچھ عرصہ بھگت کو گھر والوں کے ساتھ رہنا پڑا مگر وہ پھر باقاعدہ تنظیم کا حصہ بن گیا (اس عرصے میں بھی وہ کام کر رہا تھا مگر باقاعدہ انداز میں نہیں)۔ اس تمام تر عرصے میں بھگت سنگھ نظریاتی طور پر اپنے کامریڈوں کی نسبت زیادہ سمجھ بوجھ رکھتا تھا اور نظریاتی طور پر پہلے سے کافی تبدیل ہو گیا تھا( یہ تبدیلی ابھی بھی جاری تھی)۔ اس کا اظہار HRAکا نام تبدیل کر کے HSRA(ہندوستان سوشلسٹ ریپبلکن ایسوسی ایشن) رکھنا ،میں واضح نظر آتا ہے۔ اسی دوران سائمن کمیشن کے خلاف لاہور ریلوے سٹیشن پر احتجاج کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کے نتیجے میں لالا لجپت رائے شدید زخمی ہوگئے اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان دے بیٹھے۔ HSRAکی جانب سے اس کا بدلہ جے پی سانڈرس کو پولیس ہیڈ کوارٹرز کے سامنے گولی مار کر ہلاک کر کے لیا گیا۔ اس واقعے کے بعد بھگت سنگھ اور اسکے ساتھی کلکتہ فرار ہوگئے۔ اس واقعے کے بعد تمام تر میڈیا کی جانب سے انہیں دہشت گرد قرار دیا گیا اور تمام سیاسی لیڈروں کی جانب سے اس عمل کی مذمت کی گئی۔ مگر اس سب کے باوجود عام عوام میں ان کی مقبولیت بھی بڑھی۔
بھگت سنگھ کی دورانِ قید لی گئی ایک یادگار تصویر
انقلاب کے کردار اور سماج کی حرکیات کی نا پختہ سمجھ بوجھ کی وجہ سے ابھی تک انہیں ایک انقلابی پارٹی جس کی محنت کش طبقے، نوجوانوں اور عوام میں بنیادیں ہوں کا ادراک نہیں تھا۔ لہٰذا وہ جلدہی عوام کی نظروں میں آنا چاہتے تھے۔ مگر ایسا کرنے کیلئے انہیں کچھ غیر معمولی حرکت کرنے ضرورت تھی۔ لہٰذا 8اپریل1929ء کو اسمبلی میں پیش ہونے والے ٹریڈ ڈسپیوٹ ایکٹ اور پبلک سیفٹی بل(مزدور دشمن قوانین) کے خلاف احتجاج کے طور پر HSRAکی جانب سے اسمبلی میں بم پھوڑنے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ بنیادی طور پر مقصد یہ تھا کہ بم پھوڑ کر خود گرفتاری دی جائے گی اور پھر عدالت کے ذریعے انقلابی نظریات کی تشہیر کی جائے گی جن کو میڈیا بھی چھاپے گا۔ اس بم میں جان لیوا مواد نہیں ڈالا گیا اور یہ بم انہوں نے کلکتہ میں ایک ہمدرد کی مدد سے خود تیار کیا۔ بالآخر 8اپریل کو اسمبلی میں دھماکا کیا گیا۔ بم اسمبلی میں خالی جگہ پھوڑا گیا اور منصوبے کے مطابق دھماکے کے بعد بھگت سنگھ اور بٹکیشور دت کی جانب سے گرفتاری دے دی گئی۔ اسی طرح بھگت نے عدالت کا خوب استعمال کیا اور جیل کے اندر عام قیدیوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کے خلاف بھی ایک بھوک ہڑتال کا آغاز کر دیا۔ یہ بھوک ہڑتال 63دن تک جاری رہی۔ بالآخر تمام تر حربے آزمانے کے بعد جب اس ہڑتال کو نہ توڑا جا سکا اور باہر عوام میں اس ہڑتال کا خوب چرچا ہونے کے بعد انگریز راج کو ان نہتے انقلابیوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور ان کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے گئے۔ عدالت کے ذریعے بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کی آواز اب پورے ملک میں گونجنا شروع ہو گئی تھی۔حتیٰ کہ کانگریس کے اندر مکمل آزادی کی باتیں شروع ہو گئیں اور نیچے سے عام نوجوان ورکروں کی جانب سے پریشر بڑھنے لگا جس کی بدولت نہرو کو 26جنوری1930ء کو لاہور میں ایک جلسے میں مکمل آزادی کی بات کرنا پڑگئی۔بھگت سنگھ کی ریڈیکل پوزیشنز کی بدولت کانگریس کو بھی ریڈیکل پوزیشنز لینا پڑ رہی تھیں۔
بھگت سنگھ اور گاندھی
بھگت سنگھ ایک سوشلسٹ تھا یعنی کہ وہ طبقاتی نظام کی موجودہ شکل سرمایہ داری کے خلاف، ذاتی ملکیت کے خلاف اور اس کے ساتھ ساتھ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد کر رہا تھا لہٰذا وہ محنت کش طبقے کا نمائندہ تھا۔ جبکہ گاندھی ذاتی ملکیت کا دفاع کر رہا تھا۔ مثلاً ایک جگہ گاندھی کہتا ہے کہ ’’آپ اس بات پر تسلی رکھیں کہ میں طبقاتی جنگ کو روکنے کیلئے اپنا تمام اثر رسوخ استعمال کروں گا۔ فرض کریں اگر آپ کی ملکیت کے خلاف کوئی کوشش کی جاتی ہے تو آپ مجھے اس لڑائی میں اپنی طرف ہی پائیں گے۔‘‘ (نرمل بوس، سیلیکشنز فرام گاندھی ، صفحہ 115)
ذاتی ملکیت کے دفاع اور اپنے ’سَوراج‘ کے یوٹوپیائی فلسفے کی بدولت وہ آخری تجزئیے میں حکمران طبقے کا نمائندہ تھا۔ اسی وجہ سے ان دونوں کے درمیان ہمیشہ شدید اختلاف رہا۔بچپن میں بھگت سنگھ گاندھی سے بہت متاثر تھا مگر تحریک عدم تعاون سے پیچھے ہٹنے کے بعد اس کی نظروں میں گاندھی کا مقام بالکل ختم ہو گیا۔بھگت سنگھ انقلاب کی بات کرتا تھا جبکہ گاندھی مصالحت پسندی کی۔بقول بھگت سنگھ:
’’جس بات کی میں نشاندہی کرنا چاہ رہا تھا وہ یہ ہے کہ جدوجہد کے دوران ’سمجھوتا‘ ایک ضروری ہتھیار ہے اور جیسے جیسے جدوجہد آگے بڑھتی ہے اسے موقع کی مناسبت سے استعمال کیا جانا چاہیے۔ مگر جس چیز کو ہمیں ہمیشہ ذہن میں رکھنا ہوگا وہ تحریک کا نظریہ ہے۔ ہمیں ہمارے مقصد کا واضح ادراک ہمیشہ برقرار رکھنا ہوگا جس کیلئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس سے ہمیں ہماری تحریک کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی پہچان ہوگی اور ہم باآسانی مستقبل کا پروگرام تشکیل کر پائیں گے۔ تلکؔ کی پالیسی اور اس کا طریقہ کار بہترین تھا کہ اگر آپ اپنے دشمن سے 16آنے لینے کیلئے لڑ رہے ہیں اور آپ کو ایک آنا مل جاتا ہے تو اسے اپنی جیب میں سنبھالیں اور باقیوں کیلئے لڑائی جاری رکھیں۔ جو چیز ہمیں ’معتدل پسندوں‘ میں نظر آتی ہے وہ ان کی یہ سوچ ہے کہ وہ ایک آنے کیلئے لڑتے ہیں اور انہیں وہ بھی نہیں مل پاتا۔‘‘ (نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام)
اسی طرح بھگت سنگھ اور گاندھی کے طبقاتی مفادات کے بارے میں بھگت سنگھ یہ لکھتا ہے کہ:
’’جیسا کہ میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ میرے نقطہ نظر کے مطابق حقیقی انقلابی قوتوں کو ابھی میدان میں نہیں بلایا گیا ہے۔ اس جدوجہد کا انحصار مڈل کلاس دکانداروں اور کچھ سرمایہ داروں پر ہے۔یہ دونوں خاص طور سرمایہ دار کبھی بھی اپنی ملکیت کو کسی بھی جدوجہد میں داو پر نہیں لگائیں گے۔ حقیقی انقلابی فوجیں دیہاتوں اور فیکٹریوں میں ہیں:کسان اور مزدور۔ مگر ہمارے بورژوا حکمران ان کو سنبھالنے کی نہ تو صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی کبھی سنبھالنے کی جرات کریں گے۔ ایک بار جب سوتے ہوئے شیر کو اس کی نیند سے جگا دیا تو پھر ان مقاصد کے حصول کے بعد بھی جو ہمارے حکمرانوں کے ہیں اسے سنبھالنا ناممکن ہو جائیگا۔ 1920ء میں احمد آباد کے مزدوروں کے پہلے تجربے کے بعد گاندھی نے کہا’ہمیں مزدوروں کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔فیکٹری پرولتاریہ کا سیاسی استعمال انتہائی خطر ناک ہے(دی ٹائمز، مئی1922) ۔‘اس کے بعد سے اب تک انہوں نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ‘‘ (نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام)
دونوں نے اپنے اپنے طبقات کی نمائندگی آخری دم تک جاری رکھی۔ بھگت سنگھ نے آخری دم تک جیل میں یا عدالت میں کہیں بھی اپنے کیے پر شرمندی کا اظہار کبھی نہیں کیا اور نہ ہی کبھی اپنی سزا میں معافی کی بھیک مانگی اور پھانسی کے پھندے پر بھی انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگایا۔ اسی طرح دوسری جانب گاندھی بھی آخر تک اپنے طبقے کا نمائندہ رہا۔ گاندھی چاہتا تو بھگت سنگھ کی پھانسی رکوا سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ گاندھی ارون پیکٹ پر گاندھی نے بغیر کسی بات چیت کے دستخط کر دیا۔ اس عمل سے گاندھی کی تمام تر نام نہادا من پسندی اور انسان دوستی کا پول کھل جاتا ہے۔ اپنے طبقے سے وفاداری کا ایک واضح ثبوت دیتے ہوئے بھگت سنگھ کی شہادت پر گاندھی کا کہنا تھا کہ ’’حکومت کے پاس یہ حق تھا کہ وہ ان نوجوانوں کو پھانسی دیں۔‘‘گاندھی ارون پیکٹ کے دو ہفتے بعد بھگت سنگھ کو پھانسی دے دی گئی۔
بھگت سنگھ کا نظریاتی سفر
عظیم لیڈر عدم سے وجود میں نہیں آتے بلکہ سماجی حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اسی طرح بھگت سنگھ بھی کوئی پیدائشی عظیم انقلابی نہیں تھا اور نہ ہی وہ ہمیشہ ایک جیسا رہا بلکہ حالات کے ساتھ ساتھ بھگت سنگھ بھی تبدیل ہوا۔ بچپن میں بھگت سنگھ ایک سکھ تھا اور وہی سوچ رکھتا تھا جو اس کے گھر والوں کی تھی۔ غدر پارٹی اور کرتار سنگھ سرابھاکو اپنا رہنما مانتا تھا۔ گاندھی سے متاثر تھا اور ہندوستان کو انگریزوں سے آزاد کرانے کی جدوجہد میں دلچسپی رکھتا تھا۔ پھر نیشنل کالج میں جا کر سوشلسٹ نظریات سے آگاہ ہوا۔ اسی طرح جدوجہد کے طریقوں میں بھی تبدیلی آئی۔ مثلاً آغاز میں بھگت سنگھ انفرادی دہشت گردی کا حامی تھا مگر بعد میں ایسا نہیں رہا اور وہ مسلح جدوجہد ترک کر کے سیاسی جدوجہد کی جانب بڑھا۔ اس سیاسی جدوجہد کے طریقہ کار میں بھی تبدیلی جاری رہی۔ جس کا اظہار ہمیں HRAکی HSRAمیں تبدیلی کی صورت میں نظر آتا ہے۔ اسی طرح بھگت سنگھ کے آخری ایام میں جب وہ جیل میں تھا اس دور کی تحریروں میں بھگت سنگھ کا موقف نظریہ انقلاب مسلسل کے قریب تر نظر آتا ہے۔ ان تحریروں کو پڑھ کر یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی بالشویک پارٹی کے ممبر نے لکھی ہیں۔ اس سب کی وجہ بھگت سنگھ کا سچا انقلابی ہونا اور مسلسل مطالعہ تھا۔ بھگت سنگھ نے مختلف فلسفیوں اور انقلابیوں کو پڑھا جن میں روسی انقلابی لیڈر لینن اور ٹراٹسکی، مارکس، باکونن اور رسل وغیرہ شامل تھے۔ 24جولائی 1930ء کو جیل کے اندر سے اپنے دوست اور سکھ دیو کے بھائی جے دیو کو لکھے گئے خط میں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کا لٹریچر پڑھ رہا تھا۔ اس خط کے اندر وہ کچھ کتابوں کی مانگ کرتا ہے۔ اسی طرح بھگت سنگھ کی آخری تحریروں میں ایک تحریر نہایت اہم ہے جو بھگت سنگھ کے شعوری ارتقا کو واضح انداز میں ظاہر کرتی ہے۔وہ تحریر ’نوجوان سیاسی کارکنوں کے نام‘ہے۔ یہ تحریر جیل میں 2فروری1931ء کو لکھی گئی۔ ہم اس تحریر کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ ان اقتباسات سے نا صرف بھگت سنگھ کے نظریاتی ارتقا کا اندازہ ہوگا بلکہ یہ بھی واضح ہوگا کہ زندگی کے آخری دنوں میں بھگت نا صرف یہ کہ پکا مارکس وادی بن چکا تھا بلکہ اس وقت وہ ہندوستان میں انقلاب کا باقی تمام انقلابی رجحانات اور پارٹیوں سے کہیں زیادہ درست تناظر رکھتا تھا۔
’’ہم نے موجودہ صورتحال کا کافی حد تک تجزیہ کر دیا ہے۔ حتمی مقصد کو بھی کچھ حد تک دیکھا جا چکا ہے۔ہم ایک سوشلسٹ انقلاب چاہتے ہیں مگر اس کے لیے ایک سیاسی انقلاب کی ضرورت پڑے گی۔ ہم یہی کچھ چاہتے ہیں۔ سیاسی انقلاب کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ریاست برطانوی ہاتھوں سے نکل کر ہندوستانی ہاتھوں میں آجائے بلکہ ان ہندوستانیوں کے پاس (آئے )جو ہمارے حتمی مقصد میں ہمارے ساتھ ہیں، اگر اور بھی ٹھوس کر کے بات کی جائے تو طاقت کی عوامی حمایت کی صورت میں انقلابی پارٹی کے ہاتھ میں منتقلی۔ اسکے بعداگلا درست قدم سماج کی سوشلسٹ بنیادوں پر تعمیر کا آغاز ہے۔ اگر آپ کے مطابق انقلاب کا مطلب یہ نہیں ہے تو پھر خدا کا نام لیں۔ ’انقلاب زندہ باد‘ چلانا بند کریں۔ انقلاب کا لفظ ہمارے لیے بہت مقدس ہے اور ہم اس کا غلط استعمال ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتے۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ کا انقلاب قومی ہے اور آپ کی جدوجہد کا مقصد امریکی طرز پر جمہوریہ ہندوستان بنانا ہے تو پھر میرا آپ سے ایک سوال ہے کہ براہ مہربانی مجھے اس سے آگاہ کیجئے کہ اس انقلاب کو لانے کیلئے آپ کا انحصار کن قوتوں پر ہے؟خواہ انقلاب سوشلسٹ ہو یا پھر قومی یہ فریضہ کسان اور مزدور ہی ادا کر سکتے ہیں۔ جبکہ ان قوتوں کو منظم کرنے کی جرات کانگریس میں نہیں۔‘‘
آگے لکھتا ہے:
’’اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ مزدوروں اور کسانوں سے ان کی مدد لینے جائیں گے ، تو میں آپ کو واضح الفاظ میں بتا دوں کہ وہ آپ کی جذباتی باتوں سے بے وقوف ہر گز نہیں بنیں گے۔وہ آپ سے دو ٹوک الفاظ میں پوچھیں گے کہ جس انقلاب کیلئے آپ ان سے قربانیاں مانگ رہے ہیں اس میں ان کے لیے کیا ہے،چاہے ہندوستانی حکومت کا سربراہ’ لارڈ ریڈنگ ‘ہو یا پھر ’سر پرشوتم داس ٹھاکر داس ‘اس سے ان کی زندگیوں میں کیا تبدیلی آئے گی؟’لارڈ ارون ‘کی جگہ’ سر تیج بہادر سپرو‘ کے لینے سے کسانوں کی زندگیوں میں بدلاؤ آئے گا! اس کے قومی جذبات کو جگانے کی کوشش کرنا بے سود ہے۔آپ اسے اپنے لیے استعمال نہیں کر سکتے، آپ کو اسے یہ احساس دلانا ہوگا کہ یہ انقلاب اس کے لیے ہے اور اس میں اس کی بہتری ہے۔کہ یہ پرولتاریہ کا انقلاب ہے اور یہ پرولتاریہ کیلئے ہے۔‘‘
انقلاب کے کردار، انقلابیوں کے اس کی جانب رجحان اور تنظیم کی ساخت کے متعلق بات کرتے ہوئے بھگت سنگھ لکھتا ہے کہ:
’’جذباتیت کو چھوڑ دو۔ حقائق کا سامنا کرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔انقلاب ایک مشکل کام ہے۔انقلاب کرنا کسی ایک آدمی کا کام نہیں ہے۔نہ ہی اسے کسی مقرر کردہ تاریخ پر لایا جا سکتا ہے۔یہ سماجی و معاشی صورت حال کی وجہ سے بننے والے مخصوص حالات میں ہی لایا جا سکتا ہے۔ایک منظم انقلابی تنظیم کا کام ان مخصوص حالات میں جنم لینے والے مواقعوں کو درست انداز میں استعمال کرنا ہوتا ہے۔اور عوام کو انقلاب کیلئے تیار کرنا اور قوتوں کو منظم کرنا ایک انتہائی مشکل عمل ہے۔اس کے لیے انقلابیوں سے بہت بڑی قربانیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔میں یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اگر آپ ایک کاروباری آدمی ہیں یا پھر گھر بار والے آدمی ہیں تو براہ مہربانی اس آگ سے مت کھیلیں۔پارٹی کو آپ جیسے’ لیڈر‘ کی ضرورت نہیں ہے۔ہمارے پاس ایسے بہت سارے ’لیڈر‘ پہلے سے موجود ہیں جو شام کو دو تین گھنٹے نکال کر تقریریں کرنے آجاتے ہیں۔ یہ کچرا ہیں۔ ہمیں لیننؔ کے بقول ’پروفیشنل انقلابیوں‘ کی ضرورت ہے۔ ایسے کارکنوں کی جو سارا وقت تنظیم کو دیں اور جن کی انقلاب کے علاوہ اور کوئی امنگ یا خواہش نہ ہو۔ جتنی زیادہ تعداد میں ایسے کارکن ہونگے کامیابی کے مواقع اتنے زیادہ ہوں گے۔‘‘
مزید لکھتا ہے:
’’منظم انداز میں آگے بڑھنے کیلئے ایسی پارٹی کی ضرورت ہے جس میں اوپر بیان کیے گئے طرز کے کارکن ہوں جو واضح نظریات رکھتے ہوں،گہری سمجھ بوجھ رکھتے ہوں اور فوری فیصلے کرنے اور نیاقدم اٹھانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ پارٹی کا انتہائی سخت ڈسپلن ہونا چاہیے اور اسے زیر زمین (چھپ کر) کام کرنے کے بجائے کھلے عام کام کرنا چاہیے۔ رضاکارانہ طور پر جیل جانے کی سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ اس طرح سے بہت سارے کارکنوں کو زیر زمین ہونا پڑ جاتا ہے۔ انہیں اسی جذبے کے ساتھ کام کو جاری رکھنا چاہیے۔ اور یہی وہ کارکنوں کا گروہ ہوگا جو اصل موقع کیلئے قابل لیڈر تیار کرے گا۔‘‘
انقلابی پارٹی کے متعلق اور کامیاب انقلاب کیلئے جس طرز کی انقلابی پارٹی کی ضرورت ہوتی ہے بھگت سنگھ اس تحریر میں بالکل اسی پارٹی کا ذکر کر رہا ہے۔ یہ بھگت سنگھ کے بلند شعورکا واضح اظہار ہے۔بھگت سنگھ آغاز میں ایک جنونی انقلابی تھا مگر آخر میں جنون کے ساتھ ساتھ سائنسی طرز فکر اور صبر جیسے انتہائی اہم ہتھیاروں سے لیس ہو چکا تھا۔ اسی تحریر میں آگے چل کر بھگت یہ لکھتا ہے کہ :
’’ پارٹی کو اپنے کام کو ان اصولوں پر لے کر آگے چلنا چاہیے جن کو اوپر بیان کیا گیا ہے۔ہفتہ وار میٹنگوں اور کانفرنسوں کے ذریعے اپنے کارکنوں کی نظریاتی تربیت کرنا ہوگی۔ اگر آپ ان بنیادوں پر کام کا آغاز کرتے ہیں تو آپ کو انتہائی با صبر اور مستقل مزاج ہونا ہوگا۔ اس پروگرام کو مکمل ہونے کیلئے کم از کم بیس سال لگیں گے۔ایک سال کے اندر آزادی جیسے گاندھی کے خیالی وعدوں پر جوانی کے خواب دیکھنا چھوڑ دیں۔ اس کے لیے نہ ہی جذبات کی ضرورت ہے اور نہ ہی موت کی بلکہ مشکلات اور قربانیوں سے بھرپور مستقل جدوجہد والی زندگی کی۔سب سے پہلے اپنی ذات کا خاتمہ کریں۔ذاتی آسائشوں کو پرے پھینک دیں۔پھر کام شروع کریں۔آپکو بتدریج آگے بڑھنا ہوگا۔اسکے لیے حوصلے، صبر اور مضبوط ارادے کی ضرورت ہوگی۔ کسی بھی قسم کی مشکلات اور تنگیوں کو آپکا حوصلہ پست مت کرنے دیں۔ ناکامیوں اور غداریوں سے مایوسی کو مت پھیلنے دیں۔ انتہائی سخت ترین حالات کو بھی آپکے اندر سے انقلابی عزم کو ختم مت کرنے دیں۔ مشکلات اور قربانیوں سے بھرپور آزمائشوں سے آپکو فتح مند ہوکر نکلنا ہوگا۔اورپھر یہ انفرادی کامیابیاں انقلاب کیلئے قیمتی اثاثہ ثابت ہوں گی۔‘‘
بھگت کی جدوجہدآج بھی مشعل راہ ہے!
پاکستانی حکمران طبقے کی طرف سے یہاں پڑھائی جانے والی تاریخ میں اول تو بھگت سنگھ کا کہیں کوئی ذکر ہی دیکھنے کو نہیں ملتا اگر کہیں تھوڑا بہت ہے بھی سہی تو بس نام نہاد ہی ہے اور ’کافر‘ اور غیر مسلم کہہ کر بحث کا اختتام کر دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں بھی کہانی کوئی مختلف نہیں ہے۔ وہاں پر بھگت سنگھ کی مختلف تواریخ دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سکھوں کی جانب سے اسے اپنا ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے جبکہ انڈیا کی نام نہاد قانونی تاریخ میں اسے عظیم ہندوستانی اور ہندوستان کی آزادی کا رہنما بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جبکہ یہ سراسر جھوٹی اور سازش سے بھرپور تاریخ ہے۔ریڈ کلف لائن کے دونوں اطراف کی بھگت سنگھ کی تواریخ میں ایک شے مشترک ہے اور وہ ہے جھوٹ۔ جس کی وجہ جاننا کوئی اتنا مشکل کام نہیں۔ بھگت سنگھ ایک ایسا انقلابی تھا جو طبقات سے پاک سماج کیلئے جدوجہد کر رہا تھا اور اگر دونوں اطراف میں اس کے بارے میں پڑھایا جائے یا پھر اسکا حقیقی چہرہ دکھایا جائے تو یہ یقیناًجہاں ایک طرف دونوں اطراف کے نام نہاد جھوٹی آزادی کے کھوکھلے نعروں کی حقیقت واضح کر دے گا تو دوسری جانب دونوں اطراف کی نوجوان نسل کو جو اپنے حالات سے شدید تنگ ہے اور حکمران طبقے سے شدید نفرت کرتی ہے کو اپنے حکمران طبقے کو اکھاڑ پھینکنے کا نہ صرف شعور دے گا بلکہ رستہ بھی دکھائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں اطراف بھگت سنگھ کا حقیقی چہرہ چھپایا گیا ہے۔
آج نوجوان نسل کو دوبارہ بھگت سنگھ، جو محض 23سال کی عمر میں پھانسی کے پھندے پر جھول گیاتھا، کی جدوجہد اور خاص طورپر نظریات سے سیکھنا ہوگا اور جلد بازی، ہیرو ازم اور موقع پرستی سے بچتے ہوئے مارکسزم کے درست نظریات اور لائحہ عمل کو اپنانا ہوگا۔ 19اکتوبر1929ء پنجاب سٹوڈنٹس کانفرنس کو لکھے گئے خط میں بھگت سنگھ کے بقول ’’آج ہم نوجوانوں کو پستول اور بم اٹھانے کا نہیں کہتے۔۔۔انہیں صنعتی علاقوں کے کروڑوں جھگیوں میں رہنے والوں اور دیہاتوں میں ٹوٹے پھوٹے کچے گھروں میں رہنے والوں کو جگانا ہوگا تاکہ ہم آزاد ہوسکیں اور آدمی پر آدمی کے استحصال کا مکمل خاتمہ ممکن ہو سکے۔‘‘
بھگت سنگھ ایک انٹرنیشنلسٹ تھا۔ وہ پوری دنیا کے محکوموں اور مظلوموں کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ اور اس کی لڑائی کی بنیاد جذباتیت نہیں بلکہ سائنسی سمجھ بوجھ تھی۔ وہ ایک مارکس وادی تھا۔ وہ پوری دنیا سے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کی لڑائی لڑ رہا تھا۔ آج نوجوانوں کو اپنی جدوجہد کو سائنسی نظریات پر استوار کرنا ہوگا اور مستقل مزاجی، صبر اور جرات کیساتھ اسے آگے لے کر بڑھنا ہوگا۔ موجودہ عہد میں جہاں ایک طرف سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہے اور مزید انسانی سماج کو آگے لے کر جانے کی تمام تر صلاحیت کھو بیٹھا ہے وہیں دوسری طرف محنت کش طبقہ بھی آج ایک بہت بڑی تعداد میں موجود ہے۔ ریڈ کلف لائن کے اس پار اور اُس پار آج محنت کش طبقہ ایک نئی اٹھان کیلئے تیار ہے۔ اسے آج ایک انقلابی قیادت کی ضرورت ہے۔ آج یہاں کے نوجوانوں کا نا صرف یہ فریضہ ہے کہ وہ ایک ایسی انقلابی پارٹی تعمیر کریں بلکہ یہ ان پر بھگت سنگھ کا ایک قرض بھی ہے۔
اسے یہ فکر ہر دم،نیا طرز جفا کیاہے؟
ہمیں یہ شو ق دیکھیں،ستم کی انتہا کیا ہے؟
دہر سے کیوں خفا رہیں، چرخ کا کیوں گلہ کریں
سارا جہاں عدو سہی ،آ و مقابلہ کریں
کوئی دم کا مہماں ہوں اے اہل محفل
چراغ سحر ہوں بجھا چاہتا ہوں
ہوا میں رہے گی میرے خیا ل کی بجلی
یہ مشت خاک ہے فانی، رہے رہے نہ رہے
https://baam-e-jahan.com/?p=4121