بائیس اپریل-2019ء
391-راجیشوری گارڈنز
مہاتما سکوائر
چندی گڑھ160017
ریپبلک آف انڈیا
نیاز جی نمستے،
اگر علم مومن کی گمشدہ میراث ہوتا تو 1882ء میں قائم ہونیوالی آپ کی یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں پانچ لاکھ اور 1947ء میں قائم ہونیوالی میری یونیورسٹی کی سنٹرل لائبریری میں چونسٹھ لاکھ کتابوں کی موجودگی حقیقت کی جگہ فسانہ ہوتا اور چہار دانگ عالم آپ کے ادارے کا ڈنکا بجتا مگر چونکہ ایسا نہیں ہے لہذا راقم کف افسوس ہی مل سکتا ہے۔
میری یونیورسٹی میں دائیں اور بائیں بازو کی طلباء تنظیمیں شعور اور منشور کے بل پر جمہوری اقدار کی نمو کرتی ہیں مگر آپ کی جانب سٹوڈنٹ پالیٹکس پہ ضیائی پابندی اور اسلامی جمعیت طلباء کی غنڈہ گردی نے وہ علم پرور ماحول پروان چڑھایا ہے جہاں لڑکے داڑھیوں میں برکت اور لڑکیاں عبایوں میں حرکت تلاش کرتی ہیں اور اس برکت کی حرکیات کے پس پردہ لاشعوری عوامل کی شعوری تشکیل آپ کی جامعہ جامعہ اشرفیہ کے تعاون کیساتھ کرتی ہے اور یونہی دیے سے دیا جلتا ہے۔
میری یونیورسٹی میں فائن آرٹس میوزیم سمیت کل چار میوزیمز ہیں اور آپ کی پوری یونیورسٹی ہی ایک میوزیم ہے جس میں مٹی اور پسلی سے انسان کی تخلیق پہ ایمان رکھنے والے پی ایچ ڈی پروفیسرز لائف سانسز کی تعلیم دے رہے ہوتے ہیں اور کسی بھی ڈگری کورس میں فلاسفی مائنر کا تصور اس لئے بھی محال ہے کیونکہ آپ طلباء کو انسان کی جگہ وہ مسلمان بنانا چاہتے ہیں جو نیوزی لینڈ حملوں کی تو مذمت کریں اور سری لنکا میں ایسٹر کے دن ہونیوالے حملوں میں ملوث التوحید جماعت کے بارے میں کہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
لیاقت بلوچ اور حافظ ادریس جیسے جماعتیوں نے قیصر شریف کے تعاون سے آج تک آپ کی یونیورسٹی میں میوزک کلاسز شروع نہیں ہونے دیں اور آپ وہ کلاسز مال روڈ کے الحمرا کلچرل کمپلیکس میں منعقد کرنے پہ مجبور ہیں اور اسی مذہبی شدت پسندی کے آگے سر اور پشت جھکانے کا منطقی نتیجہ ہے کہ آج آپ کی یونیورسٹی کی رینکنگ مراکز لواطت مدارس کی صف میں ہوتی ہے۔میری یونیورسٹی نے کلپنا چاولہ جیسی ناسا ایسٹروناٹ ،رومیلا تھاپر جیسی موُرخ اور ترن تیجپال جیسے تہلکہ کے بانی صحافی پیدا کئے ہیں اور آپ کی یونیورسٹی مشعال خان کی موت پر جشن منانے والے انسان نما حیوان پیدا کرتی ہے۔
آپ کی حکومت شیخ چلی نیشنل ایکشن پلان کا دھیمی آنچ پہ خیالی پلاوُ پکا رہی ہے اور آپ کے یونیورسٹی ہاسٹلز میں جمعیت کے عقوبت خانوں میں اسلحہ،ڈنڈے،استریاں اور مودودی کے پمفلٹس اس پلاوُ کو سر راہ اڑتے امن کے کبوتروں کو چاول سمجھ کر ڈال رہے ہیں جنھیں کھانے کے بعد امن کے کبوتروں کی بڑی تعداد داعیُ اجل کو لبیک کہہ چکی ہے۔
آپ کی یونیورسٹی کے پینتالیس ہزار طلباء میں سے 44950 طلباء کو ہرگوبند کھورانہ کا نام تک نہیں پتہ جس نے آپ کی یونیورسٹی سے 1943ء میں گریجوایشن کر کے 1968ء میں پروٹین میں پائے جانیوالے نیوکلیک ایسڈز میں نیوکلیوٹائیڈز کی ترتیب وضع کر کے میڈیسن کا نوبیل انعام جیتا مگر ان تمام پینتالیس ہزار طلباء کو یہ ضرور پتہ ہے کہ 1979ء میں گرینڈ یونیفیکیشن تھیوری پہ کام کر کے فزکس کا نوبیل انعام جیتنے والے ڈاکٹر عبدالسلام ایک قادیانی لہذا غیر مسلم تھے۔
لاہور اور پاکستان کی سب سے قدیم یونیورسٹی ہو کر بھی آپ نے 1910ء میں لاہور میں پیدا ہونیوالے سبھرامنین چندرشیکھر کے اعزاز میں کوئی چئیر قائم نہیں کی جنھوں نے 1983ء میں ستاروں کے ارتقاء اور ساخت پر کام کر کے فزکس کا نوبیل انعام جیتا تھا مگر آپ کا شعبہُ دائرہ معارف الاسلامیہ دن رات اس ٹوہ میں لگا رہتا ہے کہ غار حرا سے پیغمبر اسلام جن جوتوں پہ چل کر خدیجہ کے گھر پہنچے تھے وہ پیغمبر کے پاوُں لگنے کے بعد امر ہو کر آج کل کہاں پائے جاتے ہیں ۔جس یونیورسٹی میں طلباء کو بس یہ فکر ہو کہ پچھتر فیصد حاضری کے بغیر امتحان میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملے گی ،جنس مخالف سے بات کرنے کی صورت میں جماعتیے ہڈیوں کو روایتیں سمجھ کر توڑ دینگے،جہاں غیر مسلم اور ملحد طلباء کو بھی جبراً اسلامیات لازمی سے انٹرکورس کروایا جائے،جہاں 130 فٹ کی حوروں کے جسمانی نشیب و فراز کے دلال طارق جمیل یونیورسٹی طلباء سے خطاب کریں اور جہاں کنسرٹس کی جگہ محافل میلاد منعقد ہوں وہاں ایک سیکولر اور پروگریسو تعلیمی ماحول پنپ ہی نہیں سکتا اور یہی وجہ ہے کہ نیو کیمپس سے گزرنے والی نہر میں پانی بھی تحقیقی رجحان کی طرح کم ہو رہا ہے اور اب بس نہر کنارے لگا امجد اسلام امجد کا یہ شعر بیتے دنوں کی یاد دلاتا ہے کہ محبت ایسا دریا ہے کہ بارش روٹھ بھی جائے تو پانی کم نہیں ہوتا۔امید ہے آپ اس خط کو دخل در نامعقولات تصور نہیں کرینگے اور چندی گڑھ آ کر یہاں کی پنجاب یونیورسٹی سے یہ سیکھنے میں تاُمل کا مظاہرہ بھی نہیں کرینگے کہ یونیورسٹی اور مدرسہ چلانے میں فرق کیا ہوتا ہے۔
خیر اندیش
پروفیسر راج کمار۔…