Baam-e-Jahan

گریش کرناڈ کی کہانی

وسعت اللہ خان

چھ جون کو لاہور میں ڈاکٹر انور سجاد کا چوراسی برس کی عمر میں انتقال ہوا۔ دس جون کو بنگلور میں بھارت کے مہان ڈرامہ نگار، شاعر، ڈائریکٹر، اداکار اور منتظم گریش کرناڈ کا اکیاسی برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔

بہت سے پاکستانی قارئین کو یہ سمجھانا مشکل ہے کہ گریش کرناڈ تھیٹر، ٹی وی، فلم اور ادب کی کتنی قدآور شخصیت تھے۔ ان کی موت پر آبائی ریاست کرناٹک میں تین دن کا سرکاری سوگ منایا گیا۔ نئی ریاستی کابینہ کی تقریب حلف برداری ملتوی کر دی گئی۔ سرکاری سطح پر آخری رسومات کی پیش کش گریش کے اہلِ خانہ نے شکریے کے ساتھ لوٹا دی کیونکہ گریش کی یہی وصیت تھی۔

گریش کا بنیادی کام کنڑا زبان میں ہے۔ مگر انھوں نے فلموں کی حد تک مراٹھی ، تلگو ، ہندی میں بھی اپنے جوہر دکھائے اور انگریزی تو خیر ان کی ثانوی زبان تھی ہی۔ اگر اب بھی ان کی تصویر ذہن میں نہیں آ رہی تو جن جن لوگوں کو ستر اور اسی میں بننے والی آرٹ فلموں کا زمانہ یاد ہے۔ منتھن ، نشانت ، بھومیکا ، پکار یا ان کی ہدایت کاری میں بننے والی اسی کی دہائی کی ہندی فلم استوو ، چلوی یا پھر پچھلے پندرہ برس میں بننے والی اقبال ، ایک تھا ٹائیگر۔ تو ایسے ناظروں کو گریش کرناڈ بھی یاد ہونے چاہئیں۔

مگر ہندی فلموں میں اداکاری و ہدایت کاری گریش کے کام کا محض دس فیصد ہے۔ جب وہ سن پچاس کی دہائی میں کرناٹک اسٹیٹ کالج میں ریاضی و شماریات پڑھ رہے تھے تو ان کی بس ایک تمنا تھی کہ کسی طرح یہ ملک چھوڑ کر انگلستان میں بس جائیں ، انگریزی میں ہی شاعری کریں ، ایلیٹ جیسے ادبی جنات کی صحبت میں رہیں اور کسی دن لٹریچر کا نوبل پرائز بھی مل جائے تو کیا برا ہے۔

گریش کی خواہش انیس سو ساٹھ میں بر آئی جب ایک معمولی ریٹائرڈ سرکاری ملازم اور نرس کا بیٹا رہوڈز اسکالر شپ پر آکسفورڈ چلا گیا۔ فلسفے ، سیاست و معیشت کے مضامین کے ساتھ ماسٹرز کیا اور آکسفورڈ یونین کا صدر بھی بن گیا اور اس حیثیت میں چرچل سمیت بہت سے مدبرین کی میزبانی بھی کی۔

انگلستان آنے سے پہلے گریش نے کنڑا میں اپنا پہلا کھیل ’’ یہیتی ’’ لکھا۔ مگر گریش نے خود اس ڈرامے کو خاص اہمیت نہیں دی۔ جب یہ ڈرامہ کنڑا سے دیگر زبانوں میں ترجمہ ہو کر مقبول ہونے لگا تب گریش کو لگا کہ بچپن میں تھیٹر کے دیوانے والدین کے ساتھ ناٹک دیکھنا اور دن دن بھر سرسی شہر میں موجود اکشے گنا ناٹک منڈلیوں اور گاہے ماہے آنے والی پارسی تھیٹر کمپنیوں کے ساتھ وقت گذارنا ان کے تخلیقی ڈی این اے کو اس لاشعوری سانچے میں ڈھال چکا تھا جس کا شائد گریش کو بھی مکمل ادراک نہیں تھا۔

چنانچہ انگریزی میں بڑی شاعری اور انگلستان میں بسنے کا بھوت اجنبی گوری بھیڑ میں اکیلے پن کے احساس نے دماغ سے نکال باہر کیا اور گریش اپنی تعلیم مکمل کر کے وطن واپس آ گئے کہ جہاں سے وہ یہ خناس لے کر انگلستان گئے تھے کہ یہ دیسی مجھے کیا سمجھیں گے۔
بقول گریش ناٹک لکھنا بچے کو جنم دینے جیسا ہے۔ آپ ایک ایک لائن تخلیق کرتے ہیں، اسے رندے سے چمکاتے ہیں۔ اپنے تئیں کرداروں کی سمت کا تعین کرتے ہیں کہ یہاں سے وہ وہاں جائے گا۔ اس کا سفر ایسا ہوگا ویسا ہوگا۔ مگر جب ناٹک مکمل ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہوجاتا ہے تو نافرمان اولاد کی طرح تخلیق کار کے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور اپنی سمت اور معنی خود تلاش کرتا ہے۔

جیسے بلی (قربانی) لکھنے میں گریش کو پندرہ برس لگے۔ بارہ تیرہ اسکرپٹ لکھے اور پھاڑے کیونکہ اس میں وہ تھیٹریکل ٹینشن پیدا نہیں ہو رہی تھی جو لکھنے والا چاہ رہا تھا۔ اور پھر کنڑا میں لکھا جانے والا یہ ناٹک جدید بھارتی ڈرامے کے شاہکاروں میں شامل ہو گیا۔

مگر جس ناٹک نے گریش کرناڈ کو بھارت اور بھارت سے باہر گریش کرناڈ بنایا وہ انیس سو چونسٹھ میں لکھا جانے والا ’’تغلق’’ تھا۔ اپنے سمے سے بہت آگے سوچنے والے محمد تغلق کی کہانی جسے بہت سے لوگ پاگل بادشاہ سمجھتے تھے۔ کیونکہ اس نے بیٹھے بٹھائے راج دھانی دلی سے اٹھا کر ہزاروں کلو میٹر پرے دولت آباد منتقل کر دی۔ پرجا پر پابندی لگا دی کہ جس کو جو عبادت کرنی ہے گھر میں کرے۔ باہر اجتماعی عبادت کے ذریعے روزمرہ زندگی میں خلل پڑتا ہے۔ تغلق کا خیال تھا کہ اس اقدام سے رنگارنگ ہندوستانی معاشرے میں یگانگت و ہم آہنگی بڑھے گی اور باہمی غلط فہمیوں کا خاتمہ ہوگا۔ لیکن کیا مولوی کیا پنڈت سب ’’ پاگل بادشاہ ’’ کے خلاف ہو گئے۔

“تغلق” نیشنل اسکول آف ڈرامہ سمیت کئی یونیورسٹیوں کے نصاب کا حصہ بن گیا اور کرناٹک سے کلکتہ اور دلی سے کراچی کے ناپا تک کئی مقامات پر ترجمہ ہو کر کھیلا گیا۔

مگر کنڑا ڈرامے کو جدید دور میں دیو ہیکل بنانے کا کام جیسا گریش نے کیا ویسا کوئی نہ کر پایا۔ گریش کے اکثر ناٹکوں میں دیومالائی کردار اور قدیم علامت نگاری ملتی ہے۔ بقول گریش انسان ہزاروں برس سے جو جو بھی روپ دھار رہا ہو مگر فطری اچھائیاں اور کمینگیاں آج بھی وہی ہیں جو غاروں کے زمانے میں تھیں۔ تو پھر اگر کوئی پرانا کردار کسی آج کی سچویشن میں فٹ ہو رہا ہے تو اس سے استفادے میں کیا قباحت ہے۔ ہر کردار اپنی ماہیت میں جتنا قدیم ہے، اتنا ہی جدید بھی ہے۔ دیومالائی کردار درشکوں (ناظرین) کی گھٹی میں نسل در نسل پڑے ہوئے ہیں لہٰذا ان کے ذریعے کہی بات ناظر کے دماغ میں جم جاتی ہے۔ اسے ابلاغ کے لیے الگ سے پس منظر یا پیش منظر سمجھانے کی ضرورت نہیں ہوتی۔

گریش کے ادبی و ڈرامائی کام کے اعتراف میں اعلیٰ ترین پدم بھوشن ، گیان پیٹھ اور چار نیشنل فلم ایوارڈز سمیت بے شمار اعترافی انعامات ملے۔ وہ انیس سو چوہتر پچھتر میں پونا فلم اینڈ ٹی وی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر رہے۔ اس کے بعد دو برس کرناٹکا ناٹک اکیڈمی کے صدر، پانچ برس سنگیت ناٹک اکیڈمی کے چیئرمین اور یونیورسٹی آف شکاگو سمیت متعدد علم گھروں میں وزیٹنگ پروفیسر رہے۔

جب تک جسمانی سکت رہی بھارت میں بنیاد پرستی کی پھیلتی لہر کے آگے روشن خیالی کے چراغ برداروں کی اگلی صف میں کھڑے رہے۔ اس کے عوض ایک مقامی انتہا پسند ہندو تنظیم کی ہٹ لسٹ پر بھی آ گئے۔ مگر یہ ہٹ لسٹ گریش کو طبعی عمر مکمل کرنے سے نہ روک پائی۔

گریش کرناڈ کی پیدائش بھی محض اتفاق ہے۔ بقول گریش ’’جب میری والدہ دو یا تین ماہ کی حاملہ تھیں تو ایک دن انھوں نے سوچا کہ میرے تو پہلے ہی تین بچے ہیں۔ انھوں نے میرے باپ کو کسی طرح راضی کر لیا اور وہ میری ماں کو ڈاکٹر مدھو مالتی کے کلینک لے گئے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ اس دن ڈاکٹر مالتی کسی وجہ سے نہ آ سکیں۔ میری ماں نے آدھا دن انتظار کیا اور پھر تنگ آ کر گھر چلی آئیں۔ جب انھوں نے کئی سال بعد مجھے یہ کہانی سنائی تو میں سناٹے میں آگیا۔

میں نے پوچھا کہ اگر انھیں مزید بچے نہیں چاہیے تھے تو میرے بعد چھوٹی بہن کیوں پیدا ہوئی۔ ماں نے کہا تب تک میرا ذہن بدل چکا تھا۔ میں اب بھی اس بات کو یاد کرتا ہوں تو دماغ جھنجھنا اٹھتا ہے۔ یعنی زندگی اتنی بے وقعت ہے کہ کسی ایک دن ایک ڈاکٹر کے کلینک آنے نہ آنے یا ماں کا ذہن بدلنے نہ بدلنے کی کیفیت سے لٹک رہی ہے۔ کیا زندگی سے زیادہ کمزور دھاگا بھی ممکن ہے؟ جو میسر آ گیا اس لمحے سے بھی بڑھ کر کچھ قیمتی ہے؟ یہ وہ سچائی ہے جو لمحہِ موجود میں بھی میرے ساتھ ساتھ جی رہی ہے ’’۔

بشکریہ ایکسپریس

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے