تحریر: ممتاز گوہر
ہندراپ واقعہ عام لوگوں کے لئے اور قانون و انسانی حقوق کے حوالے سے بہت بڑا واقعہ ہے۔ مگر اس واقعے کی غذر و جی بی پولیس اور حکومت کے لئے کوئی خاص اہمیت نہیں۔ پانچ دنوں سے چار بندے غائب ہیں اور پولیس و حکومتی اقدامات سے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خود اس واقعے کے سہولت کار ہیں۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہی سہولت کاری انجام دے رہے ہیں جس طرح کی سہولت کاری غذر کے دیگر نالہ جات میں چالیس سے زائد انسانی جانوں کے ضیاع، اغواء، اقدام قتل اور ہزاروں مال مویشی کے چوری کے بعد انجام دیئے ہیں۔ یہ وہی بزدل پولیس فورس ہے جس کے دو جوانوں کو سنگل نالے میں باقاعدہ "معلوم دہشتگردوں” نے بے دردی سے قتل کر کے گہری کھائی سے نیچے پھینک دیا تو ان کے خلاف کاروائی نہیں کر سکے۔ اب سنا ہے کہ اس فائل کو بھی دیگر نالہ جات کے قتل، اقدام قتل، اغواء اور چوریوں کے واقعات کے فائلوں کی طرح ہمیشہ کے لئے دبا دیا ہے۔
غذر کے نالوں میں دراندازی اور بربریت کی تاریخ جتنی اندوہناک ہے اس سے بھی اندوہناک رویہ اور کردار یہاں کی پولیس اور انتظامیہ کا رہا ہے۔ اگر پولیس اور انتظامیہ سے پچھلے واقعات کا حساب کتاب مانگا جائے تو یقیناً ان کے ہاتھ شرم، بے عزتی اور نفرت کے کچھ نہیں آئے گا۔
ہندراپ واقعہ میں امید ہے مغوی بازیاب ہوں گے مگر یقین کریں اس کیس کا حال بھی ایسا ہی ہوگا جو حال اس سے پہلے ان نالہ جات میں دیگر واقعات کا ہوا ہے۔ یہاں ہم نے اکثر قانون اور حکومت کو مظلوم کے بجائے ظالم کے سر پر ہاتھ رکھتے دیکھا ہے۔ یہاں مظلوم جیت کے بھی ہارا ہے اور ظالم ہار کے بھی جیتا ہے۔ یہاں شرافت اور ایمانداری کی ہمیشہ تذلیل اور جوتوں کے نوک پر روندا گیا ہے جبکہ گنڈہ گردی اور بدمعاشی کی ہمیشہ واہ واہ ہوئی ہے۔
میر تقی میرؔ کیا خوب فرماتے ہیں۔
صحبت آخر کو بگڑتی ہے سخن سازی سے
کیا در انداز بھی اک بات بنا لیتے ہیں
میرؔ کیا سادے ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطّار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
اس گنڈہ گردی اور بد معاشی کو وقت کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں اور چہروں کے ذریعے آگے بڑھاتا گیا ہے۔ اور اب ایک نیا چہرہ ملک آفرین کی شکل میں سامنے آیا ہے۔ یہ بندہ کتنا طاقتور ہے اور اسے کس کس کی سرپرستی حاصل ہے اس بات کا اندازہ ہندراپ واقعے کی اب تک کی کاروائی سے خوب لگایا جا سکتا ہے۔ کیا مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں اس کا پول بھی جلد ہی کھل جائے گا۔
ہاں ایک بات طے ہے کہ دفتر خارجہ اور حکومت پاکستان کے اصولی موقف کے مطابق گلگت بلتستان ایک متنازعہ علاقہ ہے۔ پہلے اس متنازعہ علاقے کو اندرونی طور پر انتشار کا شکار رکھنے کے لئے کئی کھیل کامیابی کے ساتھ کھیلے جا چکے ہیں اور علاقائی حالات کے بدلنے کے بعد ان کھیلوں کا رخ بھی موڈ دیا گیا ہے۔ کچھ نئے تازہ دم اور شاطر کھلاڑیوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس متنازعہ علاقہ جات کے حدود کے ساتھ جو کھیل وقتاً فوقتاً کھیلی جا رہی تھی اس میں تیزی لائی گئی ہے۔ شندور، دیامر ڈیم حدود، قرمبر جھیل سمیت کئی نئے میدان کھیل کے لئے آہستہ آہستہ ہموار کئے جا رہے ہیں۔ اس کھیل کا فائدہ کب اور کس کے حق میں نکلے گا اس پہ بات کرنا قبل از وقت ہے مگر ایک بات طے ہے کہ اب گلگت بلتستان کے اندرونی خلفشار ریاست کے زیادہ مفاد میں نہیں لہذا نام نہاد حقوق کی آوازوں کو دبانے، کشمیریوں کو خوش کرانے اور کچھ نئے مسائل میں الجھائے رکھنے کے لئے ملک آفرین، چوہدری آفرین، خان آفرین، سید آفرین، آغا آفرین اور مولانا آفرین جیسے کرداروں کو "آفرین آفرین” کے نعرے لگاتے آگے کرتے رہیں گے۔