Baam-e-Jahan

کیلاش قبیلے کاتہواراوچاواختتام پذیر

کیلاش قبیلے کے رسم و رواج اور مختلیف تہواروں کے بارے میں ہمارے بیوروچیف کریم اللہ کی دلچسپ وڈیو رپورٹ ذیل میں دئیے گئے لنک پر کلک کرکے دیکھی جا سکتی ہے.

https://youtu.be/VqhLARtkCq8

سالانہ تہوار اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ احتتام پذیر۔ نئے جوڑے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔سیاحوں نے سڑکوں اور سہولیات کی فقدان کی شکایت کی۔

رپورٹ: گل حماد فاروقی

چترال: کیلاش قبیلے کا سالانہ مذہبی وثقافتی تہوار ‘اوچائو’ اپنی تمام تر رنگینیوں اور رعنائیوں کے ساتھ بھمبورت وادی میں احتتام پذیر ہوا۔ یہ تہوار اگست کے دوسرے ہفتے میں منایاجاتا ہے، جو اکثر گندم کی کٹائی کے بعد منعقد ہوتا ہے۔ اس سال یہ تہوار20 اگست کو شروع ہقا تھا اور 22 اگست کو اختتام پذیر ہوا. جس میں کیلاش سے اقلیتی رکن صوبایئ اسمبلی وزیرزادہ کیلاش، ڈپٹی کمشنرعالمگیرخان، اسسٹنٹ کمشنراورانتظامیہ کے افسران نے بھی شرکت کیں- جن کی آمد پرکیلاش روایات کے مطابق ان کوچوغے پہنائے گئے۔

Young men and women dance at Bumburet during Uchawo Festival

اس تہوار کے دوران کیلاش لوگ دودھ سے بنی ہوئی چیزیں پنیر، پینک، شوپینیک وغیرہ لوگوں میں تقسیم کرتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں۔ اور اقلیتی رکن صوبائی اسمبلی وزیر زادہ کیلاش نے بام جہان سے گفتگوکرتے ہوئے کیا کہ اس موقع پر ہم اپنے خدا کا شکرادا کرتے ہیں جنہوں نے ہمیں اتنی نعمتیں دی ہیں اورخصوصی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔
وزیرزادہ نے اس موقع پردنیا بھربالخصوص پڑوسی ملک ہندوستان کو پیغام دیا کہ اگر کسی نے اقلیتوں کے ساتھ محبت اوررواداری دیکھنی ہو تو وہ پاکستان آکر کیلاش لوگوں کے ساتھ مسلمانوں کا شفقت دیکھے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کیلاش بہت قلیل تعداد میں ہیں مگر مسلمان بھائیوں کی رواداری سے ہم اپنے تمام مذہبی رسومات نہایت آزادی کے ساتھ مناتے ہیں۔
آرمینہ کیلاش کہتی ہے کہ اس تہوارمیں لڑکے ڈھولک بجاتے ہیں جبکہ نوجوان لڑکیاں اورخواتین اکھٹے رقص پیش کرتی ہیں اور گیت گاتی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس تہوار کے موقع پرلوگ اکٹھا ہوتے ہیں، دعایں مانگتے ہیں اورخوشیاں مناتے ہیں۔
برطانیہ سے آئی ہوئی ایک خاتون سیاح Charlotte Hophinsen کا کہنا ہے کہ مجھے یہا ں آکر بہت مزہ آیا. ہمیں چاہئے کہ ہم کیلاش ثقافت کو محفوظ رکھیں اسے حتم نہ ہونے دے کیونکہ انہی تہواروں کی وجہ سے دنیا بھر کے سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔

اوچا ئو کے تہوارکا ایک خاص رسم سوگوارخاندانوں سے ملنا ہے. جس میں وادی کے لوگ پھول اور پتے اکھٹے کرکے غمزدہ گھروں میں جاتے ہیں جہاں فوتگی ہوئی ہو اوران کو پھول پیش کرکے سوگ ختم کرکے ان کو بھی اس جشن میں شریک کرتے ہیں۔
کیلاش کے لوگ اکثر رات کو چراغاں ہاتھوں میں لیکر چرسو آتے ہیں جہاں وہ رقص کرتے ہیں اپنے ساتھ پنیر وغیرہ بھی لاتے ہیں اور اسے نہ صرف کیلاش لوگوں کو دی جاتی ہیں بلکہ دوسروں کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔
اوچا و کی تہوار کو دیکھنے کیلئے کثیر تعداد میں ملکی اور غیر ملکی سیاح وادی کیلاش پہنچ چکے تھے مگر اکثر سیاحو ں نے وادی کی خراب سڑکوں اور سہولیات کی فقدان کی شکایت کی۔ اس بات کو ایم پی اے وزیرزادہ نے بھی تسلیم کیا کہ پہلے غیرملکی سیاحوں پر این او سی لینے کی پابندی تھی جس کی وجہ سے یہاں بہت کم سیاح آتے تھے- سیاحت تباہ ہوا تھا اب وہ شرط حتم ہوگئی مگر سڑکیں اتنی خراب ہیں کہ جب کوئی سیاح یہاں ایک بار آتا ہے تو دوبارہ آنے سے گریز کرے گا۔
وادی کے لوگوں کے ساتھ ساتھ سیاحوں نے بھی حکومتی اداروں سے مطالبہ کیا کہ وادی کیلاش کی سڑکوں کی حالت بہتر بنایے کیونکہ سڑکوں کی حالت اتنی خراب ہے کہ دس کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے پر نو گھنٹے لگتے ہیں۔ اگر حکومت وادی کی مواصلاتی نتظام بہتر کرنے پرتوجہ دے تو یہاں سیاحت کو بہت فروغ ملے گی جو یقینی طور پر اس پسماندہ حطے سے غربت کے خاتمے میں کلیدی کردار ادا کرے گا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے