تحریر۔اشفاق احمد ایڈوکیٹ۔
تاریخ شاہد ہے کہ گلگت بلتستان کبھی بھی برصغیر کا حصہ نہیں رہا بلکہ قبل از مسیح سے ہی کوہ ہمالیہ، کوہ ہندوکش، پامیر اور کوہ قراقرم کے دامن میں واقع اس علاقے میں قدیم یونانی شہری ریاستوں کی طرح تاریخ کے مختلف ادوار میں خودمختار شاہی ریاستیں قائم تھیں ۔
مشہور جرمن ماہر علوم بشریات کارل جٹمر نے اپنی کتاب Bolor & Dardistan میں لکھا ہے کہ اس خطے میں موجود ریاستوں میں Great Bolor اور Little Bolor انتہائی اہمیت کی حامل تھیں۔
گریٹ بلور کا دارالخلافہ سکردو میں تھا چھٹویں اور ساتویں صدی عیسوی کے دوران بلور حکمران سکردو میں رہتے تھے اور اپنے سفیروں کو چین بیجھتے تھے، اور صدیوں تک ہمسایہ ممالک کے ساتھ ان کے سفارتی اور تجارتی تعلقات قائم رہے۔
ان ریاستوں کے انتظامی معاملات اور عدالتی نظام کو صدیوں سے رائج علاقائی دستور اور رسم ورواج کے تحت چلایا جاتا تھا۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں انہیں بیرونی جارحیت کا بھی سامنا کرنا پڑا بلاآخر یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں دنیا کی دیگر کئی ریاستوں کی طرح تاریخ کی خاک میں گم ہوگئیں۔
تاریخ گلگت بلتستان کے مطالعہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 1840 ء کے بعد ڈوگرہ افواج نے ان علاقوں پر حملے شروع کیے اور خونی جنگوں کے بعد گلگت بلتستان کو فتح کرکے جموں وکشمیر کے ساتھ جوڑا گیا-حلانکہ تاریخی اعتبار سے یہ علاقے کبھی نہ تو کشمیر کا حصہ رہے ہیں نہ ہی بر صغیر ہند کا۔
اس خطے کی اہم جیؤ سٹریٹیجک لوکیشن کی وجہ سے ہی تاج برطانیہ نے ڈوگرہ حکومت کیساتھ ملکر یہاں اپنا نوآبادیاتی نظام مسلط کیا جس کی بنیاد خالصتاً جبر پر رکھا گیا تھا۔
برٹش انڈین حکومت نے مہاراجہ پرتاب سنگھ کے دور میں بذریعہ میجر جان بڈلف 1877ء میں گلگت ایجنسی قائیم کی اور1881 ءمیں اسے ختم کیا گیا اور دوبارہ 1889 میں اس کا قیام عمل میں لانے کے بعد برٹش کرنل Algernon Durand کو پولیٹیکل ایجنٹ مقرر کیا جس نے سال 1889 ء میں گلگت لیویز کا قیام عمل میں لایا جنھوں نے 1891 میں نگر نلت کے مقام پر تاج برطانیہ اور ریاست ہنزہ و نگر کے درمیان لڑی گئی جنگ میں حصہ لیا اور بیرونی تسلط کو ممکن بنایا۔ اس جنگ کو عام طور پر Anglo-Brusho War کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔
1891تک ریاست ہنزہ ڈوگرہ حکومت کے کنٹرول سے باہر تھی مگر اس خونی جنگ کے بعد اسے بھی گلگت ایجنسی میں شامل کیا گیا۔
جبکہ گلگت اور بلتستان کو 1889 ءمیں ایک انتظامی یونٹ کے زیر انتظام لایا گیا تھا پھر سال 1892 ءاسکو گلگت وزارت اور لداخ وزارت میں تقسیم کیا گیا۔
1892 میں پہلا برٹش پولیٹیکل ایجنٹ چلاس میں تعینات کر دیا گیا، جس کے جورسڈکش میں داریل اور تانگیر بھی شامل تھے۔
حراموش اور استور کو پہلے سے ہی بلتستان کا حصہ بنایا گیا تھا بعد میں گلگت ایجنسی کے ساتھ ملایا گیا۔
1895 میں یاسین ، اشکومن اور کوہ غذر کو بھی گلگت ایجنسی میں شامل کیا گیا۔
تاج برطانیہ نے اس خطے میں شوشلزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کے پیش نظر 1935 میں ریاست کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ سے گلگت ایجنسی کو 60سال کے باقاعدہ لیس پر لیا۔
Lease of Gilgit -26 March 1935
ایک صحفہ پر مشتمل اس دستاویز میں کل پانچ آرٹیکل درج ہیں۔
آرٹیکل 1 میں لکھا گیا ہے کہ ، اس معاہدے کی توثیق کے بعد وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا کسی بھی وقت اس علاقے میں اپنی سول اور عسکری ایڈمنسٹریشن قایم کرئے گی لیکن اس معاہدے کی رو سے یہ علاقے بدستور مہاراجہ آف جموں وکشمیر کی سلطنت کا حصہ رہیں گے۔
آرٹیکل 2 میں لکھا گیا ہے کہ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے کہ یہ علاقے بدستور مہاراجہ جموں وکشمیر کے ریاست کا حصہ رہیں گے اس لئے رواج کے مطابق اہم تہواروں کے موقع پر بشمول مہاراجہ کے جنم دن پر یہاں کی انتظامیہ مہاراجہ کو سلامی پیش کریں گی ان کے علاؤہ دیگر تہواروں پر جن پر وائسرائے اور گورنر جنرل آف انڈیا راضی ہوں مہاراجہ کو سلامی دی جائے گی اور مہاراجہ کا جھنڈا سال بھر گلگت ایجنسی کے سرکاری ہیڈکوارٹرذ میں لہراتا رہے گا۔
آرٹیکل 3 میں لکھا ہے کہ عام حالات میں دریائےانڈس کے مغربی کنارے پر واقع گلگت وزارت کے علاقوں کے ذریعے سے برٹش افواج کو نہیں بیجھا جائے گا۔
4۔مایننگ کے تمام حقوق مہاراجہ جموں وکشمیر کے حق میں محفوظ ہیں۔
5 ۔یہ ایگریمنٹ توثیق کے دن سے لے کر 60 سال کے لیے نافذ العمل ہوگا اور اس مدت کے اختتام پر یہ معاہدہ ختم ہوگا۔
گلگت ایجنسی میں اپنی سول اور ملٹری اسٹبلشمنٹ قائم کرنے کا مقصد درحقیقت تاج برطانیہ روس پر نظر رکھنا چاہتی تھی کیونکہ 1917 کے بالشویک انقلاب کے خطے میں ان کا اثر بڑھ رہا تھا۔ اس طرح گلگت ایجنسی ماضی کے سپر پاورز برٹش ایمپائر اور روسی ایمپائر کے درمیان کھیلے گیا گریٹ گیم کا حصہ بن گئی۔
جنگ عظیم دوئم کے نتیجے میں تاج برطانیہ معاشی طور پر اتنی کمزور ہوگئی کہ سمندر پار اپنی زیر تسلط کالونیوں پر قبضہ برقرار رکھنا ناممکن ہوگیا اس لئے
3 جون 1947کے تقسیم ہند کے منصوبے کے تحت تاج برطانیہ نے قبل از وقت ہی گلگت لیس ایگریمنٹ کو 30 جولائی 1947 کو ختم کیا اور گلگت ایجنسی مہاراجہ ہری سنگھ کے حوالے کیا۔
مہاراجہ جموں وکشمیر نے اپنے کزن برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گلگت بلتستان کا گورنر مقرر کیا جو نومبر1947 میں بمقام گلگت اپنی گرفتاری تک گلگت وزارت کا گورنر رہا۔
26 اکتوبر 1947 کو مہاراجہ ریاست جموں وکشمیر کے الحاق انڈیا کے محض چار دنوں کے اندر یکم نومبر 1947 کو گلگت میں ڈوگرہ حکومت کے خلاف بقول میجر الیگزینڈر بروان بغاوت گلگت ہوئی، مقامی افراد نے گلگت سکوٹس کے ساتھ ملکر گورنر برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کو گرفتار کر کے یکم نومبر 1947 کو آزادی کاعلان کیا اور اپنی مدد آپ کے تحت گلگت بلتستان کو ڈوگرہ حکومت کے قبضہ اور تسلط سے آزاد کروایا۔
پاکستان انڈیا کے درمیان کشمیر پر پہلی جنگ کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے جنگ بندی کروائی اور گلگت بلتستان کو بھی متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کا حصہ قرار دیتے ہوئے متنازعہ علاقے قرار دیا۔
اسی اثنا حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر کے نمائندوں کے ساتھ ملکر 28 اپریل 1949کو معاہدہ کراچی طے کیا اور اس دستاویز کے تحت گلگت بلتستان پاکستان کے زیر انتظام ایا۔
17 جنوری 2019 کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے
سول ایویشن اتھارٹی بنام سپریم اپیلیٹ کورٹ گلگت بلتستان نامی کیس کے فیصلے میں یہ بات واضح کیا ہے کہ ” گلگت بلتستان پر حکومت کرنے کے لیے 1947 سے ایڈمنسٹریٹو سٹرکچرذ اور قوانین اپلائی کیے گئے جن میں مندرجہ ذیل شامل ہیں؛
1947کو فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (FCR) گلگت میں نافذ کیا گیا۔
گلگت بلتستان میں لاگو کیا گیا پہلا قانون ایف سی آر تھا جو برٹش انڈیا کی بنائے ہوئے نوآبادیاتی قانون کا تسلسل تھا جس کے تحت ایک سول بیوروکریسی تمام جوڈیشل اور انتظامی اختیارات کو استعمال کرتی تھی۔
برٹش انڈیا نے 1901میں ایف سی آر یعنی فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن ، جرائم سرحد نمبر 3 کا قیام عمل میں لایا۔
جو کہ بتاریخ اٹھارہ ستمبر 1901 جناب نواب گورنر جنرل بہادر باجلاس کونسل کی پیشگاہ سے منظور ہوا۔
دفعہ نمبر 1 کے تحت یہ ریگولیشن "ریگولیشن جرائم سرحد 1901 کہلائے ۔
جس کے سیکشن 6، 10، 21اور 22 کے تحت کسی ایک شخص کے جرم کرنے کی صورت میں پورے قبیلے کو تادیبی کاروائی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔اور اس موضع کے باشندوں پر بحثیت مجموعی جرمانہ تجویز کرتے تھے یا بحثیت مجموعی ان کی جائیداد پر سرکار قبضہ کرسکتی یا تلف کرنے کی مجاز تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے فیصلے میں مزید لکھتے ہیں کہ سال 1949 میں معاہدہ کراچی طے پایا اور حکومت پاکستان کے سرکاری حکام نے اٹھائیس اپریل 1949 کو آزاد کشمیر حکومت کے ساتھ ملاقات کرکے معاہدہ کراچی طے کیا۔
اس معاہدے کے تحت یہ طے پایا کہ گلگت بلتستان کے معملات حکومت پاکستان چلائے گی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے لکھا کہ نظر آتا ہے کہ اس ایگریمنٹ میں گلگت بلتستان کا کوئی نمائندہ شامل نہیں تھا۔ ”
سال 1949میں ان علاقوں کا نام بدل کر ناردرن ایریاز آف پاکستان رکھا گیا تھا اور
1950 میں منسٹری آف کشمیر افیرز اور ناردرن ایریاز بنایا گیا۔ شمالی علاقہ جات کے معملات منسٹری آف کشمیر اور ناردرن ایریاز(KANA) منسٹری آف کشمیر افیرز کے جوائنٹ سیکرٹری کے حوالے کیا گیا۔ جو ناردرن ایریاز میں بطور Resident کے زمہ داریاں سر انجام دیتا تھا۔جس کے پاس سال 1951 تک تمام انتظامی اور جوڈیشل اختیارات تھے۔
1952 میں پولیٹیکل ریزیڈنٹ کو اپواینٹ کیا گیا۔ لوکل ایڈمنسٹریشن اور جوڈیشری کا سربراہ جوائنٹ سیکرٹری آف منسٹری آف کشمیر افیرز تھا جو FCR کے نفاذ کا زمہ دار تھا ساتھ ہی ساتھ وہ فاننشل اور ریونیو کمشنر بھی تھے۔ جبکہ ریزیڈنٹ وفاقی حکومت پاکستان کے ساتھ مشاورت کرکے شمالی علاقوں میں قانون سازی کے اختیارات بھی استعمال کرتے تھے۔
1967میں پولیٹیکل ایجنٹ کو تعینات کیا گیا۔ KANA سے ہائی کورٹ اور ریونیو کمشنر کے اختیارات ریزیڈنٹ کے حوالے کیا گیا اور ساتھ میں دو پولیٹیکل ایجنٹس ایک گلگت اور ایک بلتستان کے لیئے مقرر کئے گئے۔
1970میں ایک ایڈوائزری کونسل برائے شمالی علاقہ جات کونسل کے قیام کے لیے آئینی آرڈر جاری کیا گیا۔ پاکستان اور آزاد کشمیر حکومت کے درمیان اکیس منتخب اور غیر منتخب ممبران پر مشتمل اس کونسل کا سربراہ گلگت کے لیئے تعینات ریزیڈنٹ تھا جو اس کونسل کا چیرمین تھا ۔
1970میں ناردرن ایریاز کونسل کے لیئے 16 ممبران کو منتخب کیا گیا۔
1975 میں ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا گیا اور ایف سی آر کو بظاھر ختم کیا گیا۔
بڑے انتظامی، عدالتی اصلاحات متعارف کرایا گیا اور جاگیر داری نظام کو ختم کیا گیا۔
پاکستان کے طرز پر ناردرن ایریاز میں بھی ڈسٹرکٹ بنائے گئے اور پاکستان کے کرمنل اور سول لا ناردرن ایریاز تک پھیلایا گیا۔
ایڈوائزری کونسل برائے ناردرن ایریاز کا نام بدل کر نادرن ایریاز کونسل رکھا گیا۔
1994میں ناردرن ایریاز کونسل لیگل فریم ورک آرڈر متعارف کرایا گیا اس انتظامی دستاویز کو KANA ڈویژن نے بنایا تھا اس دستاویز کو ناردرن ایریاز رولز آف بزنس سپلیمنٹ کرتا تھا جو بنیادی قانون کے طور پر کام کرتا تھا مگر بہت ہی محدود ایڈوائزری کا کام کونسل کو منتقل ہوا، درحقیقت یہ کونسل تاج برطانیہ کی برصغیر کے لیے قائم کی گئی کونسل کی بدترین مثال تھی۔
1947 سے 1994 تک اس گلگت بلتستان میں لاگو کیے گئے ان تمام قوانین کے بنانے میں عوامی نمائندوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا۔
سچ پوچھو تو ان کا کام ہے کہ وہ ہر قیمت پر ہمیں اندھیرے میں رکھے اور ہمارا کام محض ان کے منہ سے نکلے ہوئے ہر لفظ کی تائید میں سر ہلانا ہے جبر کی بنیاد پر قائم کی گئی ایسی دنیا کو فرانز فینن نے نوآبادیاتی دنیا کا نام دیا ہے۔
بقیہ اگلے قسط میں۔