موسیٰ یاوری
بی بی سی اردو، ہنزہ
‘یہ 1985 کی بات ہے۔ میں نے سوچا کہ یہ سلاجیت آخر کیا چیز ہے کہ لوگ تھوڑا تھوڑا استعمال کرتے ہیں میں ایک کپ پی کر تو دیکھوں۔ خیر ایک کپ تو میں نے پی لیا مگر پھر اچانک سے مجھ پر بےہوشی طاری ہونے لگی۔ میں نے فوراً اپنے اوپر پانی کی ایک بالٹی ڈالی اور ڈاکٹر کی طرف دوڑ لگا دی۔ میں نے انھیں کہا کہ میں نے ایک کپ سلاجیت پی لیا ہے۔ یہ کہہ کر میں گِر گیا۔ چار گھنٹے بعد جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر نے ایک زور دار تھپڑ مارا اور کہا کہ ایسا دوبارہ مت کرنا۔’
یہ وادیِ ہنزہ کے علاقے علی آباد کے رہائشی کریم الدین کی کہانی ہے جو 1980 سے اپنے والد کے ساتھ سلاجیت بنانے کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ان سے میں ان کے گھر کی چھت پر ہی ملا جہاں پر سلاجیت کو سکھایا جاتا ہے۔
سلاجیت کیا ہے اور یہ بنتی کیسے ہے؟
سلاجیت وسطی ایشیا کے پہاڑوں میں پایا جاتا ہے اور پاکستان میں یہ زیادہ تر گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے نکالا جاتا ہے۔ کریم الدین بتاتے ہیں کہ سلاجیت بہت سالوں تک مختلف پہاڑوں کے غاروں میں موجود معدنیات اور پودوں کے مرکب سے بنتا ہے۔ جس کے بعد ایک صحیح وقت پر اسے نکال لیا جاتا ہے۔
لیکن اس کو ڈھونڈنے کا عمل اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ بلند و بالا پہاڑوں کے پُر خطر اور دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے کریم الدین کے کاریگر سلاجیت ڈھونڈنے سورج نکلنے سے پہلے پہاڑوں کی طرف نکل جاتے ہیں۔ اکثر سلاجیت کی تلاش میں کئی روز بھی لگ جاتے ہیں۔
سلاجیت کو اس کی آخری اور تیار شدہ شکل میں پہنچنے کے لیے دو اہم مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔
1۔ بلند و بالا پہاڑ کی چوٹیوں میں اس کی تلاش
2۔ سلاجیت کو صاف یا فلٹر کرنے کا عمل
بلند و بالا پہاڑوں پر سلاجیت کی تلاش کا سفر پرخطر بھی ہے اور دشوار بھی
سلاجیت کی تلاش
پہاڑ کی چوٹیوں پر جاکر جس طریقے سے سلاجیت نکالا جاتا ہے، اگر وہ منظر آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور آپ کے رونگٹے کھڑے نہ ہوں تو میں آپ کی ہمت کی داد دوں گا۔ کیوں کہ میری بھی کچھ ایسی ہی حالت ہوئی تھی جب ہم چھ گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تھے جہاں سے آپ برف سے ڈھکی راکا پوشی کی چوٹی تو دیکھ ہی سکتے ہیں لیکن ساتھ میں آپ کے اور راکا پوشی کے درمیان موجود وادی ہنزہ کا بھی ایک خوبصورت منظر نظر آتا ہے۔
وادی ہنزہ میں پہاڑوں سے سلاجیت ڈھونڈنے اور نکالنے کے لیے مخصوص لوگ ہوتے ہیں جو علاقے کے چپے چپے سے واقف ہیں۔ غازی کریم جو یہ کام پچھلے 15 سال سے کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ ‘سلاجیت کے لیے ہم کچھ گھنٹوں کے سفر سے لے کر کئی کئی دنوں تک کا سفر کرتے ہیں۔’
اور پھر یہی خام مال جو وہ پہاڑوں سے ڈھونڈتے ہیں، شہر میں واپس آکر مخصوص دکانداروں کو بیچتے ہیں جو اسے ایک خاص طریقے صاف کرنے کے بعد آگے بیچتے ہیں۔
یہ لوگ اکثر چار سے پانچ افراد کے گروپ کی شکل میں سفر کرتے ہیں جن میں سے ایک کا کام چائے اور کھانا بنانا ہوتا ہے۔ جبکہ باقی لوگ چوٹی پر رسی کو مضبوطی سے باندھتے اور پکڑتے ہیں۔ اور پھر ایک بندہ اس غار کے اندر اترتا ہے جہاں سے سلاجیت ملنے کا امکانات ہوتے ہیں۔
سلاجیت ڈھونڈنے والا گروہ
غازی بتاتے ہیں کہ ‘ہم دوربین سے غاروں میں دیکھتے ہیں جس سے ہمیں یہ نظر آ جاتا ہے۔ جب نزدیک جاتے ہیں تو اس کی مخصوص بُو سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔’
اس دوران غازی بڑی مہارت سے پہاڑ کی چوٹی سے رسی کے ذریعے بالکل 90 کے زاویے پر نیچے اترنے لگے۔ اور پھر غار کے اندر اترنے کے کچھ دیر بعد غازی نے اپنے دوستوں کو آواز لگائی کہ سلاجیت مل گیا ہے۔
غازی اس پورے عمل کے بارے میں کہتے ہیں کہ ‘جب بندہ نیچے غار میں اترتا ہے تو نیچے اس کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی ہے۔ سلاجیت نکالنے کے بعد بوری میں ڈالتے ہیں اور پھر پہلے اب بوریوں کو اوپر بھیجتے ہیں اور اس کے بعد ہم خود واپس اسی راستے سے رسی کے ذریعے اوپر چلے جاتے ہیں۔’
اس پورے عمل کو تقریباً آدھا گھنٹہ لگا لیکن اس آدھے گھنٹے کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ‘ اگر رسی باندھتے ہوئے کسی نے گرہ صحیح نہ لگائی ہوئی ہو یا سیفٹی بیلٹ ٹھیک نہ باندھی ہو تو رسی کے کھل جانے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔’
تاہم غازی نے کہا کہ شکر ہے کہ آج تک ان کے ساتھ اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔
دوربین
اس جستجو میں انھیں سلاجیت کی مختلف مقدار ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ’ سب سے زیادہ مقدار جو آج تک انھوں نے نکالی ہے وہ 20 من ہے۔ کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ غار سے کچھ نہیں نکلتا اور وہ خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہیں۔’
سلاجیت فلٹر کرنے کا عمل
سلاجیت اس وقت تک پتھر کے اندر ہی ایک خاص مرکب کی شکل میں موجود ہوتی ہے جو یہ کاریگر شہر میں جا کر ان دوکانداروں کو بیچتے ہیں جو اس کی صفائی اور فلٹریشن کا کام کرتے ہیں۔
کریم الدین 1980 سے یہ کام کر رہے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کے والد صاحب نے سورج کی روشنی میں سلاجیت کو فلٹر کرنے کی شروعات کی تھیں۔ جسے انھوں نے آفتابی سلاجیت کا نام دیا تھا۔
اس عمل میں ان بڑے پتھروں کے، جنھیں پہاڑ سے لایا گیا ہوتا ہے، چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کیے جاتے ہیں اور اسے ایک بڑی بالٹی کے اندر ڈال کر ایک خاص مقدار میں پانی ملا کر بڑے چمچ سے ہلایا جاتا ہے تا کہ سلاجیت اچھی طرح سے اس پانی میں گھل جائے۔
پھر کچھ گھنٹے بعد پانی کی سطح سے گندگی کو ہٹایا جاتا ہے۔
سلاجیت
کریم الدین کہتے ہیں کہ ‘ہم اس پانی کو ایک ہفتے تک ایسے ہی رکھتے ہیں۔ اس دوران اس پانی کا رنگ بالکل کالا ہو چکا ہوتا ہے جس کا مطلب ہو تا ہے کہ اب سلاجیت پتھروں سے پوری طرح پانی میں جذب ہو چکی ہے۔’
وہ کہتے ہیں کہ یہ ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے جس میں آپ نے اس سلاجیت والے پانی سے باقی ماندہ نقصان دہ ذرات الگ کرنا ہوتا ہے۔
‘عام طور پر لالچ، جلد بازی اور پیسہ کمانے کے چکر میں لوگ اس پانی کو صرف کسی کپڑے میں سے چھان کر اور تین سے چار گھنٹے کے لیے ابالتے ہیں جس سے وہ جلدی گاڑھا ہو جاتا ہے اور اس طرح یہ سلاجیت تیار ہو جاتی ہے مگر اس کے فوائد سے زیادہ نقصانات ہوتے ہیں۔’
کریم الدین کہتے ہیں کہ اس کے دو بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ کپڑے اور جالی کے ذریعے فلٹر کرنے سے اس میں مضر صحت اجزا اس میں رہ جاتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ سلاجیت کو پانی میں ابال کر گاڑھا کرنے سے اس کے سارے معدنیات ختم ہو جاتے ہیں جس کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
کریم الدین یہ سارا عمل تیس سے چالیس دنوں میں کرتے ہیں۔ جس میں وہ فلٹریشن کے لیے ایک خاص مشین استعمال کرتے ہیں۔ اس مشین کو انھوں نے اپنے حریفوں سے چھپا کر رکھا ہوا ہے جو انھوں نے بیرون ملک سے درآمد کیا ہے۔
کچن
بقول ان کے ‘یہی ہماری کامیابی کا راز ہے کہ ہم خالص سلاجیت بناتے ہیں۔’
سلاجیت بنانے کا آخری مرحلہ
فلٹریشن کے بعد سلاجیت کے پانی کو ایک شیشے سے بنے ہوئے خانوں میں رکھتے ہیں اور تقریباً ایک مہینے تک اس کا پانی سوکھتا رہتا ہے جس دوران وہ اس برتن میں اور بھی سلاجیت کا پانی ڈالتے رہتے ہیں تا کہ وہ بھر جائے۔ اور یوں آفتابی سلاجیت تیار ہوتی ہے جسے پیکنگ کے بعد دکانداروں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔
کریم الدین کہتے ہیں کہ وہ سلاجیت کی ہر کھیپ کو میڈیکل ٹیسٹ کے لیے بھی بھیجتے ہیں اور وہ سرٹیفیکیٹ سلاجیت کے خالص ہونے کا ثبوت ہوتا ہے۔ جس میں یہ درج ہوتا ہے کہ اس میں 86 قسم کی معدنیات موجود ہیں۔
کریم الدین کہتے ہیں کہ وہ 10 گرام سلاجیت 300 روپے سے لے کر 600 روپے تک فروخت کرتے ہیں۔ اس قیمت کا انحصار سلاجیت کی طلب اور رسد پر ہے۔ ‘مگر دکاندار اپنی مرضی سے اس کی قیمت لگا کر بیچتے ہیں۔’
سلاجیت تیار کرنے کا طریقہ
اصلی اور نقلی سلاجیت کی پہچان
کریم الدین کہتے ہیں کہ اکثر دکان والے سلاجیت کی پہچان اس سے آنے والی اس کی مخصوص بُو بتاتے ہیں تاہم ان کے مطابق ایسا نہیں ہے۔
’اس کی مقدار بڑھانے کے لیے لوگ اکثر اس میں آٹا وغیرہ بھی استعمال کرتےہیں اور اگر اس میں بھی سلاجیت کی تھوڑی مقدار مکس کی گئی ہو تو اس میں سے ویسے ہی بُو آئے گی جو اصلی سلاجیت سے آتی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ’اس کا آسان حل یہ ہے کہ دکاندار سے اس کے میڈیکل ٹیسٹ کا پوچھا جائے اور اس بات کی تصدیق کی جائے کہ اس میں 86 قسم کے معدنیات موجود ہیں۔’
سلاجیت
سلاجیت ویاگرا کی طرح کام نہیں کرتی لیکن اس کے فوائد کیا ہیں؟
کریم الدین کہتے ہیں کہ لوگوں کو سلاجیت کے بارے میں بہت سی غلط فہمیاں ہیں۔ دراصل اس میں موجود معدنیات جسم کی کمی کو پورا کرتے ہیں ‘جس کی وجہ سے جسم کی حرارت بڑھنے کی وجہ سے خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے۔ لیکن یہ ویاگرا کی طرح کام نہیں کرتا۔’
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر وحید معراج کہتے ہیں کہ ‘اس میں آئرن، زنک اور میگنیشیم سمیت 85 سے زائد معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ان سارے معدنیات کی وجہ سے انسانی جسم کے خون کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور قوتِ مدافعت میں بہتری آتی ہے۔’
وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘اس کے استعمال سے انسان کے اعصابی نظام میں بہتری آتی ہے جس کی وجہ سے یہ الزائمر، ڈپریشن اور دماغ کے لیے مفید ہوتا ہے۔’
ڈاکٹر معراج کہتے ہیں کہ ‘چوہوں پر کیے گئے ٹیسٹ سے ان کے شوگر لیول پر مثبت اثرات دیکھے گئے ہیں اس وجہ سے یہ شوگر کے علاج کے لیے بھی مفید ہے۔’
اس کے علاوہ وہ کہتے ہیں کہ ہڈی و جوڑ کے لیے بھی بہت مفید ہے۔
سلاجیت کے نقصانات کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ‘اچھی طرح سے فلٹر نہ ہونا اس کے نقصانات میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کا زیادہ استعمال بھی صحت کے لیے مضر ہے۔’
سلاجیت
سلاجیت کا صحیح استعمال
کریم الدین کہتے ہیں کہ’ اسے سوکھے چنے کے دانے کے برابر اور گرم دودھ کے ساتھ ملا کر لینا چاہیے۔ اور پچاس سال سے زائد عمر کے افراد روزانہ کی بنیاد پر اور دو تین مہینے تک لے سکتے ہیں۔ اور جوان لوگ ہفتے میں دو دن سے زیادہ استعمال نہ کریں۔’
وہ مزید کہتے ہیں کہ بلڈ پریشر کے مریض اس کا استعمال بالکل بھی نہ کریں۔
’جب 86 معدنیات پیٹ کے اندر جاتے ہیں تو وہ ویسے بھی بلڈ پریشر تھوڑا بڑھ جاتا ہے۔ اس لیے جن کا بلڈ پریشر پہلے سے زیادہ ہو تو وہ بالکل بھی استعمال نہ کریں۔’
ان کے مطابق اس کے علاوہ دل کے امراض میں مبتلا لوگ بھی اس کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔