کریم اللہ
شراب ، شباب اور کھباب زمانہ قدیم سے آج تک حکمرانوں اور دوسرے مراعات یافتہ طبقے کی پسندیدہ چیزین رہیں ہے ۔ قرون وسطیٰ کے مسلمان حکمران اور وزراء ان تینوں چیزوں کے رسیا ہوا کرتے تھے مگر آج ہماری تاریخ سے لا علمی کا یہ عالم ہے کہ قرون وسطیٰ کے بعض سیاست دانوں اور حکمرانوں کے گرد تقدس اور پاکیزگی کا ہالہ پہنا دیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے ۔ نظام الملک طوسی کا شمار بھی ایسے ہی افراد میں ہوتا ہے جن کی تعلیمات سے تو ہم بے خبر ہے مگر وہ ہمارے افسانہ نگاروں کے نزدیک بڑی ہی مقدس ہستی تھی اور ہے جو دین کی خدمت میں پیش پیش رہا ۔ اس بلاگ میں ہم نظام ملک طوسی کی شہرہ آفاق کتاب ” سیاست نامہ ” کے انتیسواں باب بہ عنوان ” ترتیب محفل شراب اور اس کے شرائط ” سے چند اقتباسات نقل کرتے ہیں ۔
”جس ہفتے میں جشن عشرت پڑتا ہو اس میں ایک یا دو روز بار عام بھی دیا جانا چاہئے تاکہ ہر کوئی حسب دستور سابق آسکے۔ کسی کو روکا نہ جائے ان کی آمد کے دن سے متعلق انہیں آگاہ کردینا چاہئے۔ جو دن خواص کے لئے مقرر ہوں گے ان میں عوام خود ہی نہیں آئیں گے ۔ انہیں پتہ ہوگا کہ ان کے لئے جگہ نہیں ہے، لہٰذا یہ ضرورت ہی نہ پڑے گی کہ ایک کو آنے دیا جائے اور دوسرے کو لوٹا دیا جائے۔ جو لوگ مجلس خاص کے اہل ہیں ان کے پاس شناختی نشان ہوں تاکہ (بوقت داخلہ) پتہ چل جائے کہ وہ کون ہیں۔ ان میں سے ہر ایک پر لازم ہے کہ اپنا ایک غلام ہمراہ لائے ۔ رہی یہ بات ہے کہ ہر ایک اپنے لئے ساقی و صحراہی ہمراہ لائے تو یہ درست نہیں ۔ پہلے بھی اس کا کبھی رواج نہیں رہا۔ یہ طریقہ سخت ناگوار ہے ۔ ہر زمانے میں اشیائے خوردنی ، کباب، گزک اور شراب بادشاہوں کے محفلوں سے لوگ اپنے گھروں میں لے جاتے رہے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ اپنے گھر سے مجالس ملوک میں لائے ہوں ۔ کیوں کہ بادشاہ خداوند جہاں ہوتا ہے ، اہل جہاں جملۃ اس کے عیال اور غلام ہوتے ہیں۔ مناسب نہیں کہ بادشاہ کے عیال کے گھروں سے جو اسی کا کھاتے ہیں، اشیائے خوردنی اور شراب وغیرہ لائی جائے۔ اگر ہو لوگ اپنے گھر سے شراب اس لئے لاتے ہیں کہ شراب دار خاصل انہیں محروم رکھنا ہے تو اسے سزا دی جانی چاہئے ۔ بری بھلی ہر کوئی پیتا ہے ،( وہ انکار کرکے ) موجب پریشانی کیوں بنتا ہے ۔ اس طرح یہ عذر بھی ختم ہو جائے گا۔
بادشاہ کے لئے شائستہ ندماء کا وجود ناگزیر ہے کیونکہ اگر وہ غلاموں اور اپنے چاکروں کے ساتھ زیادہ اٹھے بیٹھے تو اس کا دبدبہ گھٹ جاتا ہے اور وقار کو ٹھیس لگتی ہے ۔ رکیک طبع شخص تو خدمت گزاری کےبھی لائق نہیں ہوتا۔ (چہ جائیکہ ہمنشین بنے) اور اگر وہ اکابر، سالاران لشکر اور معزز عمائد کے ساتھ گھل مل جائے تو اس کا جلال و شکوہ زائل ہوجاتا ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگ اس کے فرامین کی تعمیل میں سستی برتنے لگتے ہیں ، شیوخ چشم ہوجانے ہیں اور مال اڑانا شروع کردیتے ہیں ۔ وزیر کے ساتھ اس کی جو گفتگو ہوتی ہے اس کا تعلق مہمات ولایت، لشکر ، وسائل زر، تعمیر و آباد کاری ، دشمنان ملک کے تدارک اور اسی طرح کے دوسرے معاملات سے ہوتا ہے ۔ یہ سب امور وہ ہیں جو درد سر اور تفکر میں اضافہ کرتے ہیں ۔ طبعیت گھٹی گھٹی رھتی ہے ، لیکن خودنگری اس گروہ (اکابر و وزراء) کے ساتھ بے تکلف ھونے اور ھنسی مذاق کرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ مصلحت ملک کا تقاضا یہی ھے ، لہٰذا بادشاہ کی طبعیت فقط ندیم ہی کی بدولت کھل سکتی ھے۔ اگر بادشاہ آسودہ تر زندگی کا طالب ہو تو اسے ھزل و مطائبت میں حصہ لینا چاہئے اور ھر قسم کے قصے جو ھزل، متانت ٹھٹھول اور روکھی باتوں سے تعلق رکھتے ہوں بیان کرنے چاہیں۔ ندیم اس کے دبدبے اور تحکم کو نقصان نہیں پہنچاتے ، کیونکہ انھیں رکھا ھی اسی کام کے لئے ھوتا ہے ۔ اس ضمن میں ہم ایک باب پہلے بھی رقم کرچکے ہیں ۔”
سیاست نامہ از نظام الملک طوسی
ص: 136/137