سنہ 2017 تک تاشپولات طیپ ایک جانے پہچانے معلم اور سنکیانگ یونیورسٹی کے سربراہ تھے، ان کے دنیا بھر میں رابطے تھے جبکہ انھوں نے فرانس کی مشہور پیرس یونیورسٹی سے اعزازی ڈگری بھی حاصل کر رکھی تھی۔
لیکن اسی برس وہ بغیر کسی پیشگی انتباہ کے لاپتہ ہو گئے اور اس حوالے سے چینی حکام مکمل خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
ان کے دوستوں کا خیال ہے کہ پروفیسر طیپ کو علیحدگی کی تحریک چلانے کا ملزم قرار دیا گیا، ان پر خفیہ انداز میں مقدمہ چلا اور بعدازاں اس جرم کی پاداش میں انھیں سزائے موت دے دی گئی۔
پروفیسر طیپ چین کے صوبے سنکیانگ میں بسنے والے ایک اویغور مسلمان ہیں۔ انسانی حقوق سے متعلق سرگرم گروپس کا کہنا ہے کہ انھیں چین میں اویغور ادیبوں کے خلاف جاری کارروائیوں کے پس منظر میں گرفتار کیا گیا۔ چین اویغور مسلمانوں کو علیحدگی پسند اور دہشت گرد قرار دیتا ہے۔
محقق اور ’پیپلز ریپبلک آف ڈس اپیئرڈ‘ نامی کتاب کے مصنف مائیکل کاستر نے بی بی سی کو بتایا کہ چین میں سینکڑوں اساتذہ اور پیشہ وارانہ مہارت کے حامل افراد کو بڑے پیمانے پر جاری آپریشن کے دوران حراست میں لیا گیا ہے۔
’یہ کمیونٹی، تقافتی اور ادبی رہنماؤں کو نشانہ بنانے جیسا ہے۔ یہ ثقافتی نسل کشی کے مترادف ہے۔‘
یونیورسٹی میں پروفیسر طیپ کے ساتھیوں کو خدشہ ہے کہ اگر وہ ابھی بھی زندہ ہیں اور زیر حراست ہیں تو انھیں جلد ہی پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا جائے گا۔
تاشپولات طیپ کون ہیں؟
لاپتہ ہونے تک تاشپولات طیپ چین کی سرکاری سنکیانگ یونیورسٹی میں جغرافیے کے ایک انتہائی قابل احترام پروفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے۔
مقامی اویغور کمیونٹی کے ممبر ہونے کے ناطے انھوں نے اپنے آبائی صوبے سنکیانگ کی یوینورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ انھوں نے جغرافیہ کی تعلیم چین سے ہی حاصل کی اور کچھ عرصہ جاپان گذارنے کے بعد انھوں نے دوبارہ اپنی یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا۔
وہ عالمی سطح پر ادبی حلقوں میں متحرک تھے۔ انھیں فرانس کی ایک یونیورسٹی نے اعزاز سے بھی نوازا۔ وہ جغرافیے کے شعبے سے وابستہ ماہرین کے بین الاقوامی نیٹ ورک سے بھی منسلک تھے۔
وہ سنہ 2010 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رکن بھی بنے۔ اپنے لاپتہ ہونے تک وہ سنکیانگ یونیورسٹی کے سربراہ کی حیثیت سے کام کر رہے تھے۔
وہ کیسے لاپتہ ہوئے؟
پروفیسر طیپ کے خلاف چلنے والے مقدمے کی تفصیلات کو انتہائی مخفی رکھا گیا اور ان پر کیا بیتی اس سے متعلق کوئی سرکاری ریکارڈ موجود نہیں ہے۔
پروفیسر طیپ کے دوستوں کا کہنا ہے کہ لاپتہ ہونے سے قبل وہ یورپ میں ایک کانفرنس میں شرکت کرنے جارہے تھے اور اس دورے کے دوران انھوں نے ایک جرمنی کی یونیورسٹی سے تعاون سے متعلق ایک معاہدہ بھی کرنا تھا۔
لیکن جب وہ یورپ جانے کے لیے بیجنگ ایئرپورٹ پہنچے تو انھیں روکا گیا اور یہ بتایا گیا کہ وہ سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی پہنچیں۔
امریکہ سے ان کے ایک دوست نے بی بی سی کو بتایا کہ ان سے متعلق دستیاب معلومات کا اس سے زیادہ کچھ علم نہیں ہے۔
اس کے بعد پروفیسر طیپ کبھی گھر واپس نہیں آئے۔ اس کے بعد ان کے دوستوں اور رشتہ داروں سے بد عنوانی سے متعلق پوچھ گچھ کی گئی۔
ان کی یونیورسٹی کے ایک سابق پروفیسر نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے بعد ان کے خاندان کو یہ اطلاع ملی کہ انھیں علیحدگی کی تحریک چلانے کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت دے دی گئی ہے۔
تاہم چین نے اس مقدمے سے متعلق کسی قسم کی کبھی کوئی تصدیق نہیں کی ہے۔
امریکہ میں ریسرچر کے طور پر کام کرنے والی پروفسیر طیپ کی دوست خود بھی اویغور کمیونٹی سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ سنکیانگ میں اپنے خاندان اور دوستوں کو کسی بھی قسم کے نقصان سے محفوظ رکھنے کے لیے نام ظاہر نہیں کرنا چاہتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کریک ڈاؤن نے ایک ایسا خوف پیدا کر دیا تھا جس سے ہر کوئی یہ محسوس کرتا تھا کہ اس کی ہر وقت نگرانی کی جا رہی ہے۔
لوگوں نے مجھے بتایا کہ خوف کا یہ عالم تھا کہ وہ رات کو اپنے کپڑے پہن کر سوتے تھے یہ سوچتے ہوئے کہ کیا پتا کس وقت انھیں گرفتار کر لیا جائے۔
’ایک دوست نے اس کو اس طرح بیان کیا کہ چین خوف کی جنگ مسلط کر رہا ہے۔ اور اس کے بعد سے وہ دوست بھی لاپتہ ہے۔‘
تاشپولات طیپ اب کہاں ہیں؟
اقوام متحدہ کے ماہرین اور انسانی حقوق پر کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ چین کے حراستی مراکز میں دس لاکھ اویغور اور دیگر نسلی گروہوں سے تعلق رکھنے والے مسلمان اور اقلیتوں کے افراد کو قید میں رکھا گیا ہے۔
چین اس بڑے پیمانے پر کیے جانے والے آپریشن سے انکار نہیں کرتا تاہم ان کا کہنا ہے مراکز میں زیر حراست افراد کو شدت پسندی اور علیحدگی پسندی سے دور رکھنے اور تعلیم کے ذریعے چینی معاشرے میں شامل کرنے کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے۔
پروفیسر طیپ کے دوستوں کا کہنا تھا کہ سنکیانگ میں اپنے پیاروں سے رابطہ کرنا بہت مشکل ہو چکا ہے اور یہ صرف ایک ہی صورت ممکن ہے کہ ’خفیہ پیغام رسانی کے الفاظ‘ کے ذریعے بات چیت کی جائے تاکہ وہ حکام چوکنے نہ ہوں جو ایسے رابطوں کی نگرانی کرتے ہیں۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ فون پر صرف واٹس ایپ کی موجودگی پر بھی لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
پروفیسر طیپ کے ساتھ کام کرنے والے ان کے ایک سابق ساتھی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب وہ پروفیسر طیپ کے گھر والوں سے بات کرتے ہیں تو ان کا پورا نام بھی نہیں لیتے۔
ان کا کہنا تھا ’مثال کے طور پر ہم پوچھتے ہیں کہ مریض کا حال کیسا ہے، کیا ڈاکٹرز نے ان کو دوائی دی اور کیا وہ ہسپتال سے گھر واپس بھیج دیے گئے ہیں یا نہیں۔‘
’یہ وہ واحد حل ہے جس کے ذریعے ان کے خاندان والے ان سے متعلق ہمیں کوئی بات بتا سکتے ہیں۔‘
پروفیسر طیپ کے خاندان والوں کے خیال میں وہ اب بھی زندہ ہیں۔ انھوں نے یہ بھی سنا ہے کہ ان سمیت دیگر اساتذہ کو علیحدگی کے الزامات میں قصوروار قرار دیا گیا ہے اور اب ان کی ویڈیوز کو حراستی مرکز میں موجود افراد کو نشان عبرت کے طور پر دکھایا جا رہا ہے۔
کاستر کا کہنا ہے کہ خفیہ انصاف کے ذریعے مخالفین کو سبق سکھانے کا وطیرہ پرانا ہے۔
چین نہیں چاہتا کہ لوگ ان کے بارے میں کچھ جانیں۔ یہ جبری گمشدگی کی بہترین مثال ہے۔
ردعمل کیسا تھا؟
پروفیسر طیپ کی گمشدگی کے بعد سے سے ان کے چاہنے والے اس مقدمے کو معاملے کو خبروں میں زندہ رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ان کی سزائے موت دو سال کے لیے معطل کی گئی ہے۔ اور اگر ایسا ہی ہے تو پھر یہ عرصہ بھی جلد ختم ہونے والا ہے۔ اس طرح کی بے یقینی کے ماحول میں ان کو بچانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
اس ماہ کے آغاز میں امریکہ کی جغرافیہ سے متعلق ایک ایسوسی ایشن کی طرف سے لکھے گئے خط پر 13 سو سے زائد شعبہ تعلیم سے وابستہ ماہرین نے ان کی رہائی کے لیے دستخط کیے ہیں۔
اس تنظیم سے وابستہ ڈاکٹر گیری لینگحم کے مطابق پروفیسر تاشپولت طیپ کی گرفتاری، حراست اور سزائے موت چین میں موجود تمام اہل علم اور تحقیقی آزادی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔
فرانس کی یونیورسٹی، جس نے انھیں اعزازی ڈگری سے نوازا تھا، نے بھی ان کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ یونیورسٹی جس نے پروفیسرطیپ کو فرانس کا ایک بہترین خطاب دیا تھا کا کہنا کہ یہ چین کے لوگوں کے خلاف ان ہتھکنڈوں کا حصہ ہے جس کے بارے میں یورپ میں بہت کم لوگوں کو علم ہے۔
ستمبر میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس ٹرائل کو ’خفیہ اور غیر منصفانہ‘ قرار دیتے ہوئے چین سے زیر حراست تمام افراد کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
’سکالرز ایٹ رسک‘ نامی گروپ نے بھی چین سے اس معاملے میں مداخلت کرنے اور پروفیسر طیپ کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
اس گروپ نے خبردار کیا ہے کہ ’چین کے اس عمل سے جہاں ڈاکٹر طیپ اور ان کے خاندان کو نقصان پہنچا وہیں اس سے ادبی آزادیوں اور آزادی اظہار رائے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
گذشتہ برس پن امریکہ تنظیم نے بھی شعبہ تعلیم سے منسلک ماہرین کے ساتھ ساتھ کئی اویغور لکھاریوں کی حراست کی مذمت کی تھی۔ اسے چینی حکام کی طرف سے اویغور کمیونٹی کی ادبی طرز زندگی پر ’علیحدگی سے بچنے کے بہانے‘ سے حملہ قرار دیا ہے۔
سمر لوپز جو پن نامی تنظیم میں آزادی اظہار رائے سے متعلق سینیئر ڈائریکٹر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں متعدد اویغور ادیبوں کی جبری گمشدگی جو بعد میں منظر عام پر آئے، انھیں تاحیات قید اور سزائے موت جیسی سزاؤں کا سامنا ہے، جس سے آپ سنکیانگ میں آزادی اظہار رائے کے بارے میں بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں۔
کیا پروفیسر طیپ واحد ہیں؟
چین کے سنکیانگ صوبے میں تعلیمی ماہرین کے خاتمے کی ایک مہم چلائی جا رہی ہے۔ ان میں سب سے پہلے بڑا مقدمہ ماہر معیشت الحام توہتی کا سامنے آیا تھا، جنھیں 2014 میں علیحدگی کی تحریک چلانے کی پاداش میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
توہتی چین کی اویغور سے متعلق پالیسی کے سخت ناقد تھے۔ ان پالیسیوں میں اویغور اور طاقتور ہان چینی باشندوں کے درمیان متشدد واقعات میں چینی حکومت کا ایک مستقل کردار بھی شامل ہے۔
توہتی کو انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ان کے کردار پر مارٹن اینلز ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
دوسری مثال سنکیانگ یونیورسٹی کی ہی انتھروپولوجسٹ راحِل دعوت کی ہے۔
پروفیسر طیپ کی طرح انھیں بھی چینی حکام کی طرف سے بہت سراہا گیا، انھیں مثالی ماہر تعلم کہا گیا۔
دعوت 2017 کے آخر میں لاپتہ ہو گئی تھیں اور اس کے بعد ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔ ان کے بارے میں یہ جاننے کی تمام کوششیں بے سود رہیں کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے اور انھیں کس الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔