رپورٹ:کریم اللہ
13 اکتوبر 2019ء کے سہہ پہر ساڑھے چار بجے بونی کروئی جنالی کے ریور بیڈ میں پلے گراؤنڈ میں دو گرپوں کے درمیان لڑائی جھگڑا اور فائرنگ کردی گئی جس کے نتیجے میں چھ افراد زخمی ہو گئے ان میں ایک زخمی بشیر احمد کو تشویش ناک حالت میں پشاور منتقل کردیا گیا ہے جبکہ باقی مانندہ زخمی بونی میٹرنٹی ہوم میں زیر علاج ہے ۔ آج الاصبح اس واقعے کے خلاف بونی کے عوام نے شدید احتجاج کیا ، احتجاجی جلوس کروئی جنالی سے نکلی اور بونی چوک میں آکر ایک بڑی ریلی کی صورت میں جمع ہوگئی جلسوں سے خطاب کرتے ہوئے مقریریں نے حکومت وقت ، ضلعی انتطامہ اپر چترال اور محکمہ پولیس چترال سے مطالبہ کیا کہ اس موقع پر قانون اپنے ہاتھوں میں لے کر کھیل کود میں مصروف نوجوانوں پر فائرنگ کرکے انہیں زخمی کرنے والوں کے خلاف جلد از جلد قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ۔ جلوس سے خطاب کرتے ہوئے جی یو آئی( ف) کے رہنما مولانا فدا احمد کا کہنا تھا کہ یہ ریور بیڈ بونی کروئی جنالی کے احاطے میں واقع ہے برسوں سے کروئی جنالی اور بونی کے عوام اس ریور بیڈ کو بطور پلے گراؤنڈ استعمال کرتے اور بکریوں کو یہاں سے چرانے کے لئے لے جاتے رہے ہیں ، جبکہ اسی ریور بیڈ کے اوپر کی زمین کو آوی کے حدود تک نہر نکال کرکروئی جنالی کے عوام نے آباد کیا ہے اور نیچے ریور بیڈ بھی ہمارے تصرف میں رہی ہے ، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے اس سے قبل بھی بونی کی ایک برادری سے اس سلسلے میں کیس کیا تھا جس میں عدلیہ نے ریور بیڈ اور پہاڑی ڈھلوان کو ہمارے نام ڈگری کردیا ہے مولانا فدا احمد نے مزید کہا کہ دسمبر 2017ء کو پرنس کریم آغاخان اپنے دورے پر بونی تشریف لائے تو اس موقع پر بھی اسی پلے گراؤنڈ کو بطور دیدار گاہ استعمال کیا گیا اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے کم و بیش 45 کروڑ روپے خرچ ہوئے جن میں سے ڈسٹرکٹ کونسل چترال نے بھی لاکھوں روپے فراہم کئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہزہائی نس کی آمد کے موقع پر یہاں کے سنی اور اسماعیلی سب مل کر اپنے معزز مہمانوں کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہیں چھوڑا جبکہ اب چند افراد اس زمین پر قبضے کے خواہاں ہے اور سینہ زوری کر کے کروئے جنالی کے عوام کے اس استفادہ شدہ زمین پر قبضے کی کوشش کررہے ہیں گزشتہ روز انہوں نے کھلاڑیوں پر فائرنگ کرکے اسکا اظہار کیا ۔ چیرمین فیض الرحمن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ریور بیڈ کروئے جنالی کے عوام کی ملکیت ہے اور ہم سینکڑوں برسوں سے اس سے استفادہ کرتے آئے ہیں اب آوی کے چند افراد اس پر قبضہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں جو کہ ناقابل قبول ہے انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلدنہتے کھلاڑیوں پر فائرنگ کرنے والوں کے خلاف سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے ، انہوں نے اعلان کیا اس دن کو یوم سیاہ کے طور پر ہر سال منایا جائے گا ۔ فیض الرحمن نے کہا کروئی جنالی پلے گراؤنڈ میں جن لوگوں کا خون بہہ گیا ہے وہ رائیگان نہیں جائے گا۔ چیرمین فیض الرحمن نے مزید کہا کہ ہزہائی نس پرنس کریم آغاخان کے لئے تعمیر شدہ گرین ہاؤس پر پتھراؤ کیا گیا جو کہ انتہائی قبیح فعل ہے اپر چترال کے سارے سنی کمیونٹی اس عمل کی مذمت کرتے ہیں اور اسماعیلی کمیونٹی کو بھی چاہئے کہ وہ ان لوگوں کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ ان کے خلاف بھر پور آواز اٹھائیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے سابق ممبر ویلج کونسل بونی ٹو اور تحریک حقوق عوام اپر چترال کے لیڈر رحمت سلام کا کہنا تھا کہ اس جھگڑے کو قومی یا نصبی رنگ دینے سے گریز کیا جائے کیونکہ اس واقعے میں ملوث افراد آوی کے چند لوگ ہے، انہوں نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ چترال کے رضا خیل برادری ان لوگوں سے اظہار لاتعلقی کرے گی۔جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سماجی کارکن فرمان مراد المعروف تت خانی نے بھی اس واقعہ کی پرزور مذمت کی اور حکومت و ضلعی انتظامیہ سے مطالبہ کیا کہ اس ناخوش گوار واقعہ میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے اگر انتظامیہ یا پولیس نے ملزموں کے سائڈ لینے کی کوشش کی تو ہم پوری بونی کے مردو خواتین کو لے کر بونی چوک میں دھرنا دینے پر مجبور ہونگے یہ صرف کروئی جنالی کے عوام کا مسئلہ نہیں بلکہ سارے بونی کے لوگوں کا مسئلہ ہے ۔
جب اس سلسلے میں ہم نے ایس ایچ او تھانہ بونی سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ درخواست میں نامزد ملزماں کے خلاف قانون کی زیر دفعہ 324، 147، 148 اور 149 کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی ہے جن کے ساتھ قانون کے مطابق نمٹا جائے گا۔ جب ایک پولیس اے ایس آئی کی ملزمان سے ملی بھگت کے افواہوں کی بابت پوچھا گیا تو ایس ایچ او تھانہ بونی کا کہنا تھا کہ اس اے ایس آئی کا بوری بستر یہاں سے لپیٹ دیا گیا ہے اور ان کے خلاف انکوائری بھی جاری ہے ۔
اپر چترال کے ضلعی انتظامیہ نے بھی امن و امان کی صورتحال کو خراب کرنے والوں کے خلاف سختی سے نمٹنے کا اعادہ کیا اے ڈی سی اپر چترال اور اے سی مستوج کی سربراہی میں ایک میٹنگ میں فیصلہ ہوا کہ کسی بھی فرد واحد کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ اس سلسلے میں جب ہم نے کروئے گلوغ آوی کے رضا برادری کا موقف جاننے کے لئے ان سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنا موقف یوں بیاں کیا کہ یہ ریور بیڈ ہماری ملکیتی زمین ہے جو ریاسی دور سے لے کر آج تک یہ ہمارے زیر تصرف رہا ہے ، 2017ء کو پرنس کریم آغاخان چترال جب اپنے دورے پر بونی تشریف لارہے تھے تو کونسل کے صدر امیتاز عالم اور دوسرے لیڈران ہمارے پاس آکر اس علاقے میں دیدار گاہ تعمیر کرنے کے لئے باقاعدہ درخواست دی اور ہم نے انہیں باقاعدہ کاغذ میں لکھ کر گواہاں کی موجودگی میں اجازت دے دیا ہزہائی نس کی آمد کے بعد اسماعیلی کونسل اور جماعت خانوں نے ہمارے لئے شکرے کے خطوط بھی لکھے ۔بعد میں جب سیٹلمنٹ نے اس ریور بیڈ کو سرکار کے کھاتونی میں ڈالا تو اس کے خلاف ہم نے سرکار کے ساتھ کیس کیا یہ کیس اب بھی ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے جبکہ کل ہمارے برادری کے 10سے 12 افراد مرغابیوں کے شکار کے لئے تالاب بنا رہے تھے تو کروئی جنالی کے 300 افراد کے ہجوم نے ان پر پتھراؤ کیا جس کے جواب میں ہمارے افراد نے اپنے دفاع کے لئے مذاحمت کی، انہوں نے موقف اختیار کیا دراصل چیرمین فیض الرحمن اور ان کے چند ساتھی اپنی سیاسی دکان چکمانے کے لئے اس قسم کی غیر قانونی حرکت کررہے ہیں جس کے خلاف سخت کاروائی عمل میں لائی جائے۔انہوں نے یہ بھی موقف اختیار کیا کہ اس میں زخمی ہونے والے خود کو زخمی کرکے عوامی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کررہے ہیں ، وہ خود اپنے آپ کو زخمی کردیا ہمارے 10 سے 12 افراد نے بمشکل اپنا دفاع کیا اور اس دوران ہمارے دو افراد کو شدید زخم بھی آئے ۔ ان کا موقف تھا کہ ہمارے پاس ریاسی دور سے لے کر آج تک کے سارے دستاویزی ریکارڈ موجود ہے ، پرنس کریم آغاخان کی آمد کے بعد اسماعیلی اداروں کی قیادت نے ہمیں باقاعدہ خطوط لکھ کر ہمارا شکریہ ادا کیا اس کے علاوہ ریاسی دور کے ڈھیر سارے دستاویزات بھی ہمارے پاس ہے جو کہ ہم نے ڈی سی اپر چترال اور محکمہ پولیس کو تھما دئیے ہیں ۔ انہوں نے چیرمین فیض الرحمن کے ان الزامات کی بھی تردید کی کہ انہوں نے پرنس کریم آغاخان کے گرین ہاؤس پر پتھراؤ کی ۔
یاد رہے کل کے اس لڑائی جھگڑے اور فائرنگ کی وجہ سے کروئی جنالی کے چھ نوجوان زخمی ہوگئے تھے۔ جن کے نام یہ ہے صادق الرحمن ، محیب اللہ ، بشیر احمد ، الطاف ، حمید الرحمن ، شریف خان اور لعل خان شامل ہے ۔ زخمیوں سے میں سے بشیر حسین کو تشویشناک حالات میں پشاور منتقل کردیا گیا ہے ۔