تحریر: بخشل تھلہو
"کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے” لگ رہا ہے کہ ساری دنیا اپنی سیاست سمیت کوئی پہلو تبدیل کرنے کے لیے تیاری کر رہی ہے۔ تاریخ کے خاتمے کے اعلانات کرنے والے خود ہی اپنی تھیسز کے خاتمے کے اعلانات بھی کر چکے۔ ریاستوں پر سخت رجعتی قوتوں (ٹرمپ، مودی، خان وغیرہ) کی ظاہری طور پر ساکن گرفت تلے معاشروں کے درجہ حرارت (احتجاجوں) میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آیئے عالم سے پاکستان کے علماء تک جاری احتجاجوں پر سرسری نظر دوڑائیں۔
"ہر طرف آگ ہے برابر لگی ہوئی”
گزشتہ ہفتے تقریباً ساری دنیا کے اندر عام عوام کے بڑے احتجاج دیکھنے میں آئے۔ لبنان میں واٹس ایپ ٹیکس بڑھانے، ایکواڈور میں تیل کی سبسڈی ختم کرنے، اور چلی میں سفری کرایے میں اضافے کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔
لائبیریا، گنی، عراق اور میکسیکو میں کرپشن کے خلاف، ہانگ کانگ میں متنازعہ بل کی واپسی کے بعد بھی عوام کی بڑی تعداد احتجاج کیلیے سڑکوں پر نظر آئی۔ یورپ کے اندر دیکھیں تو کیٹیلونیا کی قیادت کو جیل بھیجنے کے خلاف بارسلونا میں عوامی مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ ہالینڈ میں بھی آبادگاروں نے ملک کا موٹر وے بند کر دیا۔ فرانس میں بھی ایک سال سے جاری تحریک "پیلی جیکٹ” ابھی تک زور و شور سے جاری ہے۔ ظاہری طور پر یہ چھوٹے ایشوز ہیں، مگر اصل نشانہ حکومتوں کی طرف سے نافذ کی گئیں نیولبرل معاشی پالیسیاں ہیں۔ جن کی وجہ سے ہمارے ملک کی طرح دنیا کی ہر جگہ عام عوام کا جینا مہنگا اور مرنا سستا ہوگیا ہے۔ ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ احتجاج چھوٹے چھوٹے مقامی معاملات سے شروع ہوتے ہیں، مگر جلد ہی وہ ملکی اور سارے خطے کی سطح تک پھیل جاتے ہیں اور عالمی مالیاتی اداروں کے اشاروں پر ناچنے والی حکومتوں اور ان کی کارپوریٹ پالیسیوں پر سوالات پیدا کرتے ہیں۔
حال ہی میں ہم نے دیکھا کہ ارجنٹائن میں بھی انتخابات کے نتائج میں نیولبرلزم اور عوام کے مقابلے میں عوام یعنی البرٹو فرنینڈس نے جیتا ہے اور نیولبرل زم کے نمائندوں کو شکست ملی۔
کیا عالمی سیاست اور مزاحمت ایک نئے دور میں داخل ہو رہے ہیں؟ یہ ہو سکتا ہے۔
2011 کے دوران مشرق وسطیٰ کی مزاحمتوں نے بھی ایک سبق سکھایا کہ بیسویں صدی کی طرح انقلابات، بحرانات اور جنگیں کسی ملک یا خطے تک محدود نہیں رہتے۔ یہ بات سامراج کو اس وقت بھی جیسے سمجھ میں آئی تھی تو اس نے جلد ہی مشرق وسطیٰ میں مداخلت کر کے انتہاپسند قوتوں کو منظم کیا، لبیا اور شام سے اپنا دیرینہ بدلہ لیا تھا۔
2008 کے مالیاتی بحران کے سبب امریکہ اور برطانیہ کے بڑی بینکوں (لیہمن بردرز اور آر بی ایس) دیوالیہ ہو رہی تھیں تو تب بھی ان کو موجودہ نظام کا جوہر سمجھ کر عام عوام کے پیسے سے بیل آوٹ کر کے بچایا گیا تھا۔ لوگ تب ہی سمجھ گئے تھے کہ وہ ایسی دنیا میں زندہ ہیں جہاں چین و سکوں چند نجی ہاتھوں میں (پرائیویٹائزڈ) ہیں اور درد سبھی کے (نیشنلائزڈ) ہیں۔ اسی طرح وہ بحران کسی نہ کسی شکل میں ابھی بھی جاری ہے۔ جسی کی قیمت تیسری دنیا کے معیشتیں اور وسائل کو پیس کر حاصل کی جا رہی ہے۔ ماہر اقتصادیات کے مطابق آنے والے کچھ برسوں میں کافی ممالک دیوالیہ ہو کربیٹھ جائیں گے۔ لازمی طور پر سیاسی، اقتصادی اور سماجی طور پر اکٹھی اس جدید دنیا میں ان کے اثرات محدود نہیں رہیں گیں۔ ہمیں نظر آ رہا ہے کہ سیاسی، اقتصادی، ماحولیاتی بحرانات دنیا کو نئے تضادات اور تحریکوں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس کی سطح اور طاقت اب ماضی سے زیادہ اور وسیع ہوگی۔ ہمارے یہاں پاکستان میں کیا صورتحال بنے گی؟
مہنگائی، مزاحمت اور مولانا کا مارچ:
پی ٹی آئی کی کٹھ پتلی حکومت نے سیاست (داخلہ اور خارجہ پالیسی ) بوٹ کی ایڑی سے سوچنے والوں کی ہاتھ میں اور معیشت (وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک) آئی ایم ایف کی جھولی میں ڈال دی ہے۔ جس کے نتیجے میں عام عوام ریکارڈ توڑ مہنگائی کے مارے ہر روز بھگت رہا ہے، اب وہ ہر صورت میں سراپا احتجاج بھی ہیں۔
کچھ دن قبل تاجران نے کامیاب احتجاج کرکے حکومت سے اپنے مطالبات منظور کرانے میں کامیاب ہوئے ۔ اور فضل الرحمان بھی مہنگائی کا ایجنڈا اور عمران خان کے استیفے کا مطالبہ لے کر ہزراوں کی تعداد میں کارکناں کے ساتھ اسلام آباد میں موجود ہے۔
اس کوئی شبہ نہیں کی جے یو آئی (ف) کی جانب سے خاص سیاسی اقتصادی مطالبات کیلیے مارچ کا فیصلہ وقت کی ضرورت والا عمل ہے۔ جب کچھ ہزار تنخواہ دار لوگ طاہر القادری اور خادم حسین رضوی دارالحکومت اسلام آباد کو بند کر سکتے ہیں تو پھر جے یو آئی تو برسوں کی تاریخ رکھنے والی ایک منظم سیاسی تنظیم ہے۔ جس کے اپنے کئی مدارس اور ہزاروں کی تعداد میں ممبر طالب ہیں۔ ظاہری یا اندرونی طور پر جب حزب اختلاف کی بھی جے یو آئی کو مدد حاصل ہو تو اور کیا چاہیے؟ دراصل معاملہ پنجاب سے شروع اور ختم ہوتا ہے، کیونکہ پنجاب اور کچھ پختونخوا ہی ریاست، اسٹیبلشمنٹ یا دائیں بازوں کی سیاست کا باورچی خانہ ہے۔ اس وقت تو صورتحال کافی بدل چکی ہے۔ اس تبدیل ہوتے ماحول میں پختوانخوا سے پی ٹی ایم اور پنجاب سے نون لیگ باقاعدہ طور ان قوتوں کے آمنے سامنے ہیں۔
یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ نواز شریف کا اسٹیبلشمنٹ سے تضاد ہوا ہے۔ مشرف کی آمریت بھی نواز حکومت ختم کرکرے نافذ کی گئی تھی۔ مگر تب نون لیگ کا مادہ برداشت اتنا نہیں تھا تو نواز شریف نے جیل جانے کے بجائے پتلی گلی سے باہر نکلنے کو ہی بہتر سمجھا تھا۔ اب صورتحال تبدیل ہے، نواز شریف ملک سے باہر جانے والے آپشن کو مسترد کرتا ہے، اسی ہمت میں ان کی بیٹی مریم کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ جب ن لیگ کا دوسرا گروہ (شہباز شریف) کو "ڈیل گروپ” بھی کہا جاتا ہے۔ جو اپنے نام کی لاج رکھنے کیلیے ہر وقت تیار ہوتا ہے۔ مگر اس گروہ کے سماجی بنیاد پی ٹی آئی کی طرح کمزور ہے۔ اس کے برعکس ن لیگ کے سخت اسٹینڈ کے پیچھے پنجاب کے اس کاروباری طبقے کی مفادات ہیں، جو بھارت سے تجارتی معاملات استوار کرنا چاہتا ہے اور عسکری اداروں کی بڑہتی ہوئی اقتصادی طاقت سے بغیر سیاسی طاقت مقابلہ نہیں کر سکتا۔
آج پنجاب کے عام عوام جس طرح فوج اور اسٹیبلشمینٹ کے خلاف بولتے ہیں، اس پر دوسری قوموں کے لوگ یہ کہنے پر مجبور بن گئے ہیں کہ "ایسے دن میرے مولا، تجھ سے میں نے مانگے تھے” مگر سوال یہ ہے کہ مقتدر قوتوں کے سامنے جہاں ن لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی بڑی سیاسی جماعتیں ظاہری طور پر لڑ نہیں سکتی، وہاں جے یو آئی یہ کام کیسے کر گئی؟ اس کا جواب خود حکومت کی اپنی کارکردگی اور فیصلوں میں چھپا ہے۔ مہنگائی نے تو لوگوں کا جینا محال کردیا ہے، اوپر سے مخالف سیاسی قوتوں کو جیل بھیجنے، بیسوے جنریلوں کو متاثر کر کرے جنرل باجوا کی ملازمت میں توسیع کرنے، اور ہر شعبے کے اندر نااہلیت کو ثابت کرنے کے بعد عوام تو اپنی جگہ پر، مگر ملک کے مالک بھی پریشاں ہو گئے ہیں۔
یہ کہہ سکتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ 20 برس سے جس ماسک پر کام کرکے خود کو چھپانے کی کوشش کی، وہی ماسک ان لوگوں کے منہ تک نہیں پہنچ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جو گہر سے نالاں ہوتا ہے تو حکومت کم مگر فوج اور اسٹیبلشمنٹ کا نام زیادہ لیتا ہے۔ اسی صورتحال میں فضل الرحمان ہر کوشش کی کہ نواز شریف اور زرداری کو اکٹھا کر کرے حکمت عملی تشکیل دے اور حکومت کے ساتھ انہیں لانے والی اسٹیبلشمنٹ کو کچھ برے دن دکھائے، مگر دوسرے فریقیں نےاپنے خلاف کی ہوئی کارروائیاں، عدم اعتمادی اور اسٹیبلشمنٹ کے پاس چھپنے کے سبب پردے پیچھے رہنے پر زور دیا، اور جے یو آئی سامنے آگئی۔ دوسرے الفاظ میں دائیں بازوں (اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی) کی طرف سے پیدا کیے ہوئے بحران کے جواب اور مزاحمت میں پھر بھی دائیں بازوں والے نکلے ہیں۔ پہلے مرحلے میں وہ ہی نکل سکتی تھی، کیونکہ اسٹیبلشمنٹ جو سارے دائیں بازوں کی ماں ہے، جسے سب اپنے بچے عزیز ہے۔ مگر ان کا اصل پیار تخت ہی ہے۔ یوں اپنے ایک بچے کو سامنے لانا، اور دوسرے بچے کو پیچھے کرنا یا کسی کودے تبدیل ہوئی طاقت کی خاطر جگہ دینا اسٹیبلشمنٹ کے لیے کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ عوامی، نظریاتی بائیں بازو، (جواسٹیبلشمنٹ کے لکھے اسکرپٹ پر عمل نہیں کرتا) کیلیے مین اسٹریم سیاست کے دروازے بند کیے ہوئے ہیں۔ مگر اس کی مراد یہ نہیں ہے کہ دروازے ہمیشہ بند رہیں گے یا عوامی قوتیں ہیں ہی نہیں۔
سیاست، صحافت اور فن کی آمریتوں اور مارشل لا کے دور کی طرح جبر اور پابندیوں سے سکیڑنے والا عمل جیسے جیسے بڑھ رہا ہے، ویسے ہی ان کے خلاف ردعمل بھی سامنے آ رہا ہے۔ کچھ دن قبل کراچی میں بینالے فن نمائش، کلنگ فیلڈز آف کراچی، کو جس طرح جبری طور پر بند کیا گیا، جواب میں باشعور لوگوں اور تنظیموں نے احتجاج کرکے ان علامتی قبروں پر لیٹ کر مضبوط ردعمل دیا ہے۔
کسان، آبادگار پانی کی قلت، جعلی بیج، اور فصلوں کی کم قیمت کے خلاف سندھ بھر میں احتجاج ہوتے رہتے ہیں۔ مختلف ٹریڈ یونینز سمیت اساتذہ ( آئی بی اے اور سندھ یونیورسٹی ٹیسٹ پاس) نے بھی احتجاج کیے۔ نوابشاہ میں پرامن احتجاج کرنے پر طلبہ اور طالبہ پر لاٹھی چارج اور شیلنگ کی گئی۔ ہم دیکھا کہ سندھ کے اندر طلبہ یونین کی بحالی کیلیے بڑی ریلیاں بھی سامنے آئی۔ بلوچستان اور اسلام آباد میں بھی طلبہ کے بڑے احتجاج کیے گیے۔ آنے والے کچھ ہی دنوں میں لاہور میں بھی طلبہ اور کسانوں کے بڑے احتجاجی مظاہرے دیکھیں گے۔ یہ حیران کن بات نہیں ہوگی کہ اسمبلی میں علی وزیر طلبہ یونین کے حوالے سے آنے والے کچھ دنوں کے اندر کو ئی بل پیش کریں۔
پختونخوا اور پنجاب میں شعبہ صحت کی نجکاری کے خلاف ڈاکٹرز بھی سڑکوں پر ہیں۔ اسی طرح عوام اور عوامی قوتیں خود سماجی سطح پر ان احتجاجوں کو مالیکیولر سطح پر منظم کر رہیں ہیں۔ ان کے اثرات کے سبب خود مین اسٹریم سیاست کے بند دروازے میں دراڑیں پڑنے لگی ہیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ جے یو آئی (ف) کے دھرنے میں ن لیگ کے کارکنوں کے علاوہ اے این پی (اسفند یار ولی) پختونخوا ملی عوامی پارٹی (محمود خان اچکزئی) نیشنل پارٹی (حاصل بزنجو) سمیت اور جماعتیں بھی شامل ہو رہی ہیں ۔ کسی نہ کسی حوالے سے یہ ساری سیاسی جماعتیں اقتدار پر قابض حکمران طبقے اور عوامی سیاست کے بیچ والے (بفر) قوتیں رہی ہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ حکمران طبقے کا تضاد اب آہستہ آہستہ نیچے آ رہا ہے۔ عوامی اور بائیں بازوں کی قوتیں کس طرح اس دنگل میں اترینگے، یہ ابھی تک کل کا ایک ایسا سوال ہے، جس کے جواب کی تیاریاں آج کے سیاسی منظرنامی میں ہی ہونگی۔
سندھی سے ترجمہ: رحمت تونیو