تحریر: اشفاق احمد ایڈوکیٹ
پانچ اگست 2019 کو انڈین سرکار نے اپنے ذیر قبضہ متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا اور گزشتہ دنوں جموں و کشمیر میں ایک نیا قانون نافذ کیا جسے مودی سرکار نے جموں اینڈ کشمیر Re organisation بل 2019 کا نام دیا۔
یہ نیا قانون کل 103 دفعات پر مشتمل ہے اس قانون کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ایک نوآبادیاتی طرز کا قانون ہے جس کو بنانے میں ریاست جموں و کشمیر کے عوام اور عوامی نمایندوں کا کوئی عمل دخل نہیں ہے سچ تو یہ ہے کہ عوامی منتخب نمایندے اس وقت سے جیلوں میں قید ہیں جب پانچ اگست 2019 کو مودی سرکار نے ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی حثیت ختم کرنے کا بقاعدہ اعلان کرکے ساری مہذب دنیا کو حیرت میں ڈالا ۔
مودی سرکار نے ریاست جموں اینڈ کشمیر تنظیم نو بل کے نام پر دراصل ریاست جموں اینڈ کشمیر کی وحدت پر کاری وار کرکے اپنے زیر تسلط کشمیر کو دو حصوں یعنی جموں اینڈ کشمیر اور لداغ میں تقسیم کیا ہے ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قانون کا منشاء نام کے لحاظ سے تو جموں اینڈ کشمیر کو دوبارہ متحد کرنا کرنا ہے لیکن عملا اس قانون کا منشاء متنازعہ ریاست جموں اینڈ کشمیر کی وحدت کو توڈنا ہے۔
سابقہ شاہی ریاست جموں و کشمیر تین ایٹمی ملکوں کے ذیر کنٹرول ہے اور اس وقت کل پانچ حصوں میں بٹ چکی ہے، جن میں دو حصے جموں اینڈ کشمیر اور لداغ انڈیا کے ذیر کنٹرول ہے جب کہ ازار کشمیر اور گلگت بلتستان پاکستان کے ذیر اںتظام ہے۔ جبکہ گگت بلتستان کا ایک اہم حصّہ اقصائے چن 1963 کے پاک چین سرحدی معاںدے کے تحت پیپلز ریپبلک اف چائینہ کے ذیر انتظام ہے ۔
ریاست جموں اینڈ کشمیر کے ان پانچ حصوں میں ایک دوسرے سے بلکل مختلف قسم کے قوانین لاگو ہیں، مثلاً آذاد کشمیر میں ایکٹ 74 کا قانون نافذ ہے گگت بلتستان میں ارڈر 2018 نافذ ہے جبکہ اقصائے چن میں چینی قانون نافذ ہے جبکہ گزشتہ دنوں انڈیا کے زیر کنٹرول جموں اینڈ کشمیر اور لداخ میں مودی سرکار نے ایک نیا قانون نافذ گیا ہے جس سے جموں اینڈ کشمیر تںظیم نو بل 2019 کا نام دیا گیا ہے۔
اس بل میں درج تعریف کے تحت یہ قانون ایکٹ کہلائے گا جو کہ کل 103 دفعات پر مشتمل ہے۔
جس کے تحت لداخ کو جموں اینڈ کشمیر سے علیحدہ کر کے براہ راست بھارت کے یونین کے زیر انتظام دیا گیا ہے جس کی وجہ بقول امیت شاہ لداخ ڈویژن چونکہ ایک بڑے جغرافیائی علاقے پر مشتمل ہے اور وہاں کی آبادی پھیلی ہوئی ہے جو کہ ایک سخت علاقہ ہے۔
بقول امیت شاہ لداخ کے عوام ایک طویل عرصے سے مطالبہ کررہے تھے کہ ان کو بھارت کی یونین علاقے میں حثیت دی جائے، اس لئے موجودہ ریاست جموں و کمشیر میں لداخ کا متحدہ علاقے کو براہ راست بھارت کے یونین میں شامل کیا گیا ہے جس کے لئے الگ سے مقننہ legislature نہیں دیا گیا ہے جبکہ لداخ کے برعکس جموں اینڈ کشمیر پر مشتمل یونین علاقے کے لئے الگ قانون ساز اسمبلی دی گئی ہے۔
اس ایکٹ کے پارٹ 2 کے آرٹیکل 3 کے تحت یونین علاقہ لداخ موجودہ ریاست جموں اینڈ کشمیر کے گرگل اور لے ڈسٹرکٹ پر مشتمل ہے جبکہ لے ڈسٹرکٹ میں شامل کیے گئے علاقوں میں گلگت ، گلگت وزارت، چلاس، قبائلی علاقے (یاگستان ) بھی شامل ہیں جو انڈیا کے زیر کنٹرول نہیں بلکہ پاکستان کے زیر انتظام ہیں، جبکہ لداخ میں چین کے کنٹرول گلگت بلتستان کا علاقہ اقصائے چن بھی شامل کیا گیا ہے۔ واضع رہے کہ جموں اینڈ کشمیر Reorganisation Act 2019 ,گزٹ آف انڈیا میں 9 اگست کو شائع کیا گیا تھا لیکن اس میں یونین ٹریٹری آف لداخ کرگل اور لیہ leh ڈسٹرکٹ کے علاقوں پر مشتمل تھی لیکن بعد میں Jammu and Kashmir Reorganisation Removal of difficulties second order 2019 کے تحت ہوم منسٹری کی طرف سے صدارتی حکم نامے میں واضح کیا گیا کہ گگت بلتستان کے یہ علاقے لے ڈسٹرکٹ میں شامل ہیں۔ انڈیا کے نئے سیاسی نقشے میں بھی ان علاقوں کو لداخ کا حصہ دیکھائی گیا ہے
جبکہ ایڈمنسٹریشن آف یونین ٹیریڑز آف لداخ کے بابت لکھا گیا ہے کہ صدر انڈیا بذریعہ لفٹننٹ گورنر لداخ کے یونین علاقے جات کو ایڈمنسٹر کر ینگےاور صدر ریگولیشنز کے تحت لداخ کے لئے قانون سازی کرنے کے مجاز ہیں،صدر انڈیا کے پاس کیے گئے ریگولیشن یا حکم نامے کی اثر اتنا ہی ہوگا جتنا کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ کا یوگا جو کہ متحدہ علاقے جات لداخ پر لاگو ہوگا۔ ساتھ ہی ساتھ لفٹننٹ گورنر کی مدد کرنے کے لیے سنٹرل حکومت ایڈوائزر کو اپوایںنٹ کریں گی۔
اس نئے قانون کے تحت موجودہ ریاست جموں اینڈ کشمیر کے گورنر ، لفٹننٹ گورنر برائے یونین علاقے جات جموں و کشمیر اینڈ یونین علاقے جات برائے لداخ کہلائے گا۔
اس نئے قانون کے نتیجے میں ہاؤس آف پیپلز میں جموں اینڈ کشمیر یونین علاقے کے لئے کل پانچ نشستیں مختص کی گئی ہیں جبکہ لداخ کے یونین علاقے کے لئے ایک نشست مختص کی گئی ہے۔
جموں اینڈ کشمیر قانون ساز اسمبلی کل 107 منتخب نمائندوں پر مشتمل ہے، اس نئے قانون کے پارٹ تین آرٹیکل 14 (4) کے تحت جموں وکشمیر کشمیر کے وہ علاقے جو پاکستان کے زیر انتظام ہیں ان علاقوں کے لئے 24 نشستیں مختص کر کے خالی رکھا گیا ہے۔ جموں اینڈ کشمیر قانون ساز اسمبلی کے 107 ممبران براہ راست الیکشن سے منتخب ہونگے جموں اینڈ کشمیر اسمبلی پہلے ایک سو گیارہ اراکین پر مشتمل تھی جن میں 87 منتخب تھے جبکہ 24 نشستیں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے خالی رکھا گیا تھا۔
اس ایکٹ کے تحت اسمبلی کی مدت پانچ سال کردی گئی ہے پہلے اسمبلی کی مدت 6 سال ہوا کرتی تھی۔
اس ایکٹ کے تحت کونسل آف منںسٹرز برائے متحدہ علاقے جات جموں اینڈ کشمیر کا بھی قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ کونسل آف منںسٹرز کا سربراہ چیف منسٹر ہوگا جس کا کام لفٹننٹ گورنر کی مدد کرنا اور مشورے دینا ہوگا۔
آرٹیکل 75 کے تحت جموں اینڈ کشمیر اور لداخ کے لئے ایک کامن مشترکہ ہائی کورٹ ہوگا جبکہ وہاں کی بار کونسل کا نام بار کونسل آف جموں اینڈ کشمیر اینڈ لداخ کہلائے گی اور لفٹننٹ جنرل کی مرضی اور منشاء کے تحت ایڈوکیٹ جنرل اپنے عہدے پر فائز رہیں گے اور اس ایکٹ کی ایک اہم خصوصیت یہ بھی ہے کہ لفٹننٹ گورنر اہل افراد میں سے ہائی کورٹ کے جج بھی نامزد کرسکتے ہیں۔
آرٹیکل 54 کے تحت چیف منسٹر کی نامزدگی لفٹننٹ گورنر کریں گے اور دیگر منںسٹرز کی بھی نامزدگی لفٹننٹ گورنر وزیراعلی کے مشورے سے کریں گے۔ اور اس قانون کے شیڈول چار کے تحت اسمبلی کے ممبران کی طرح منسٹرز بھی انڈین آئین سے وفاداری کا حلف اٹھائیں گے۔
آرٹیکل 53 کے تحت کونسل آف منںسٹرز جن کی تعداد قانون ساز اسمبلی کے کل ممبران کی تعداد کے 10 فیصد سے زائد نہیں ہوگی۔
لفٹننٹ گورنر کے پاس اختیار ہے کہ اگر وہ یہ سمجھے کہ جموں اینڈ کشمیر کے متحدہ علاقے سے اگر قانون ساز اسمبلی میں خواتین کی نمائندگی کم ہے تو وہ دو خواتین نامزد کر کے اسمبلی میں نمائندگی دیں سکتا ہے ساتھ ہی لفٹننٹ گورنر نہ صرف اس قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرسکتا ہے بلکہ وہ اسمبلی کا اجلاس بھی طلب کرسکتا ہے۔
قانون ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے کسی بھی قانون کا جموں اینڈ کشمیر میں اس وقت اطلاق ہوگا جب صدر انڈیا اس قانون کی توثیق کریں ۔
جموں اینڈ کشمیر قانون ساز اسمبلی کے ممبران کے لئے لازمی ہے کہ وہ اپنے عہدے پر براجمان ہونے سے قبل اس نئے ایکٹ کے 4th شیڈول کے انڈین آئین سے وفاداری کا حلف اٹھائیں۔
کوئی شخص بیک وقت انڈین پارلیمنٹ کا ممبر اور جموں اینڈ کشمیر یونین علاقے کا رکن نہیں بن سکتا ایسی صورت میں اس سے ایک عہدے سے استعفیٰ دینا ہوگا ۔
اس ایکٹ میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ قانون ایک فرد واحد کی ذات کے ارد گرد گھومتا نظر آتا ہے جس کا نام لفٹننٹ گورنر رکھا گیا ہے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ رول آف لاء کے تصور کے روح کے برعکس اس ایکٹ کے تحت لفٹننٹ گورنر کی مرضی اور اختیار حتمی ہے اس کے فیصلوں اور کام کی Validity کو چیلنج نہیں کیا جاسکتا ہے جس طرح گلگت بلتستان آرڈر 2018 میں وزیراعظم پاکستان کو تمام اختیارات تفویض کیے گئے ہیں جموں اینڈ کشمیر کے عوام سے ریاست کے ساتھ ساتھ تمام اختیارات بھی اس ایکٹ کے تحت سلب کئے گئے ہیں، اس نئے قانون کے تحت اب جموں اینڈ کشمیر یونین علاقے اور لداخ میں انڈیا کے تمام وفاقی سنٹرل قوانین کا اطلاق ہوگا قصہ مختصر بادی النظر میں بھارت کے زیر قبضہ جموں اینڈ کشمیر میں نافذ کیا گیا یہ نام نہاد ایکٹ درحقیقت برٹش انڈیا کا نوآبادیاتی ماڈل کا نقل نظر آتا ہے ۔