Baam-e-Jahan

بے مثال مقدمہ بے مثال فیصلہ بے مثال رد عمل

سابق فوجی آمر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف

وزیر اعظم عمران خان نے جو حکومت میں آنے سے پہلے پرویز مشرف کو آئین شکنی پر پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، ابھی تک اس پورے معاملے پر خاموشی کی نقاب پہن رکھی ہے۔

تحریر: مرتضیٰ سولنگی

17 دسمبر کو جب سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو ایک مختصر حکم نامے میں سزائے موت سنائی تو ذرائع ابلاغ نے بری فوج کے ہیڈ کوارٹر میں ایک خصوصی اجلاس کی خبر نشر کی۔

چند ہی گھنٹوں بعد فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے ایک بیان میں اس فیصلہ سے فوج کے اندر شدید دکھ اور اضطراب کا اظہار کیا اور عدالتی فیصلے پر رد عمل دیتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف نے ملک کے لیے جنگیں لڑیں اور فوج کے سربراہ رہے اس لیے وہ غدار ہرگز نہیں ہو سکتے۔

خصوصی عدالت کے فیصلے اور عدالت کے ججوں کے خلاف بیان بازی اسی دن شروع ہو گئی تھی اور حکومت کے وزرا اس میں پیش پیش تھے۔ وزیر اعظم عمران خان نے جو حکومت میں آنے سے پہلے پرویز مشرف کو آئین شکنی پر پھانسی کی سزا کا مطالبہ کرتے آئے ہیں، ابھی تک اس پورے معاملے پر خاموشی کی نقاب پہن رکھی ہے۔ ان کا ٹوئٹر اکاوؐنٹ جو ہر معاملے پر سرگرم رہتا ہے اس معاملے میں لب کشا نہیں ہوا۔

مختصر فیصلہ آنے کے بعد پرویز مشرف نے دبئی سے ایک ویڈیو میں اس فیصلے پر تنقید بھی کی اور یہ ویڈیو اکثر ٹی وی چینلوں پر نشر بھی ہوئی۔ یہ الگ بات ہے کہ اس سے پہلے نواز شریف، آصف زرداری، مریم نواز شریف اور اسحاق ڈار کے انٹرویو چلانے پر حکومت نے پابندی لگا دی تھی کیونکہ یا تو عدالتوں نے ان کے خلاف فیصلے دیے تھے یا وہ ریاستی تحویل میں تھے۔

حکومت تو چند دن پہلے نئی قانون سازی کا ذکر کر رہی تھی کہ عدالتوں کی طرف سے سزا یافتہ لوگوں کو ذرائع ابلاغ سے دور رکھا جا سکے لیکن آئین میں سنگین غداری کی سزا پانے والے شخص کی ویڈیو ٹی وی چیلنوں کی زینت بنا اور اس پر حکومت اور پیمرا خاموش رہی۔ حد تو یہ ہے کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد گم نام تنظیموں کی طرف سے سزا یافتہ پرویز مشرف کی حمایت میں ملک بھر میں بینر آویزاں بھی کیے گئے۔

فیصلے پر سخت ردعمل کی واحد وجہ اس فیصلے کا ایک مثال بننا ہے کیونکہ 72 سالوں میں یہ پہلی دفعہ ہے کہ آئین شکن کو آئین کے مطابق سخت سزا سنائی گئی ہے۔ اس سے پہلے مولوی تمیزالدین کیس 1955، ریاست بنام ڈوسو کیس 1958، بیگم نصرت بھٹو کیس 1977 اور 1999 میں ظفر علی شاہ کیس میں آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کے تحت قانونی تحفظ دیا گیا تھا۔

ہر ایک کو پتہ ہے کہ پرویز مشرف کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہو گا۔ وہ یا تو ملک واپس نہیں آئیں گے اور آئے بھی تو اس کا قوی امکان ہے کہ یا تو سپریم کورٹ سے انہیں ریلیف مل جائے گا یا تحریک انصاف حکومت جو پرویز مشرف کو بچانے کے لیے سر توڑ کوشش کر رہی ہے صدر کے ذریعے ان کی سزا معاف کرا دے گی۔ اصل مسئلہ اس نظیر کا قائم ہونا ہے۔ اس لیے سخت ردعمل سامنے آ رہا ہے۔

19 دسمبر کو تفصیلی فیصلے میں ایک جج، وقار احمد سیٹھ کی طرف سے پیرا 66 میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کو، جو عدالت کی نظر میں آئین شکنی کے مرتکب ہوئے، ایک غیر معمولی سزا تجویز کرنے پر بحث و مباحثے کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ پرویز مشرف کے سابق وکیل فروغ نسیم جو اس وقت وزیر قانون بھی ہیں کئی وزرا سمیت پریس کانفرنس میں اس فیصلے کی مذمت کی اور خصوصی عدالت کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں شکایت درج کرنے کا اعلان بھی کیا ہے۔

جسٹس وقار احمد سیٹھ نے فیصلے کے دستاویز میں تجویز کیا ہے کہ ریاستی ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرکے اسے سزائے موت دیں۔ اگر پرویز مشرف مردہ حالت میں ملے تو اس کی لاش کو پارلیمان کے سامنے ڈی چوک پر تین دن تک لٹکایا جائے۔

P

قانونی ماہرین کی نظر میں اس تجویز پر اس لیے عمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ صرف ایک جج کی رائے ہے۔ کثرت رائے کا فیصلہ صرف سزا کا ہے۔ کیونکہ پرویز مشرف نے جب دوسری بار تین نومبر2007 کو آئین شکنی کی اور اس کی نہ عدالت نے توثیق کی اور نہ پارلیمان نے اس لیے عدالت کے پاس سزا دینے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہ تھا کیونکہ آئین کا آرٹیکل چھ اس معاملے پر بہت واضح ہے۔

تفصیلی فیصلہ آنے سے پہلے ہی مختصر فیصلے کو ’عجلت‘ کا فیصلہ قرار دیا گیا۔ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان وزیر اعظم نواز شریف نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں منتخب ہونے کے چند ہفتوں بعد جون 2013 میں کیا تھا اور دسمبر 2013 میں خصوصی عدالت کی تشکیل ہو گئی تھی اور مارچ 2014 میں پہلی دفعہ ان پر فرد جرم عائد کی گئی تھی۔ مارچ 2014 میں ہی جب انہیں اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے خصوصی عدالت لایا جا رہا تھا، ان کا سکیورٹی عملہ انہیں لے کر فوج کے زیر انتظام امراض قلب کے ہسپتال جو راولپنڈی میں واقع ہے، پہنچ گیا تھا۔

اس سے پہلے وہ جب اپریل 2013 میں اپنی خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے الیکشن لڑنے کی خاطر واپس آئے تھے تو وہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں جج نظربندی کیس میں پیش ہوئے تھے لیکن ضمانت منسوخ ہونے کے بعد جب پولیس نے انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کی تو وہ اپنی پرائیویٹ سکیورٹی کے ہمراہ بھاگ کھڑے ہوئے تھے اور سیدھے چک شہزاد میں اپنے گھر پہنچ گئے تھے۔ بعد میں پرویز مشرف نے ضمانت کرا لی تھی لیکن ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر موجود تھا۔

کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نواز شریف کی طرف سے جون 2013 میں پرویز مشرف پر سنگین غداری کا مقدمہ چلانے کا اعلان ہی دراصل وہ وجہ تھی جس کے لیے اگلے سال اگست میں اسلام آباد میں دھرنا دیا گیا۔ اس کا مقصد نواز شریف حکومت پر دباؤ ڈال کر اسے کمزور کرنا تھا تاکہ اسے مشرف کو چھوڑنے پر مجبور کیا جا سکے۔

تجزیہ کار اور دانشور شجاع نواز نے اپنی نئی کتاب The Battle for Pakistan میں سابق امریکی سفیر رچرڈ اولسن کے حوالے سے صفحہ 262 پر لکھا ہے کہ انہیں ستمبر 2014 میں یہ اطلاع بھی ملی تھی کہ اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر السلام نے کچھ کور کمانڈروں کے ہمراہ نواز شریف حکومت کا تختہ فوجی بغاوت کر کے الٹنے کی کوشش کی تھی لیکن جنرل راحیل شریف نے اسے ناکام بنا دیا تھا اور انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

پرویز مشرف یہ تمام عرصہ زیادہ تر کراچی میں رہائش پذیر رہے۔ مارچ 2016 میں سپریم کورٹ میں پرویز مشرف نے اس لسٹ سے اپنا نام نکلوانے کے لیے درخواست کی تھی اور کہا تھا کہ کیونکہ انہیں کمر کے درد کی ایسی بیماری لاحق ہے جس کا علاج پاکستان میں ممکن نہیں، اس لیے انہیں ملک سے باہر جانے دیا جائے۔

نواز شریف حکومت نے جو دو سال قبل کیے گئے دھرنوں سے کمزور ہو چکی تھی پرویز مشرف کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار کا اس میں کلیدی کردار تھا کیونکہ ن لیگی ذرائع کے مطابق چودھری نثار سمیت کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پرویز مشرف کو ملک سے باہر نکالنا ہی ان کے لیے بہتر ہوگا تاکہ فوج کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر رہیں اور وہ ترقیاتی کاموں پر توجہ دے سکیں اور اپنے پانچ سال مکمل کر سکیں۔

یہ الگ بات کہ بعد میں پانامہ سکینڈل سامنے آ گیا اور نواز شریف کو دسمبر 2017 میں سپریم کورٹ نے نا اہل قرار دیا۔

ن لیگی ذرائع کے مطابق 2016 میں اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف حکومت پر پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھیجنے کے لیے مسلسل دباؤ ڈال رہے تھے۔ پرویز مشرف نے خود دسمبر 2016 میں دنیا ٹی وی کو ایک انٹرویو میں جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کیا تھا کہ انہوں نے حکومت پر دباؤ ڈال کر اور حکومت نے عدلیہ پر اثرانداز ہو کر انہیں ملک سے باہر نکلنے میں مدد کی تھی۔

حالانکہ پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 میں اس وقت کی منتخب آئینی حکومت کو برطرف کرکے اقتدار سنبھالا تھا لیکن اس وقت کی سپریم کورٹ نے جنرل پرویز مشرف کو آئینی تحفظ فراہم کیا تھا اور ظفر علی شاہ کیس میں آئین شکن جنرل کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دیا تھا۔

مارچ 2008 میں جب پی پی پی نے حکومت بنائی تو اس نے پرویز مشرف کو ن لیگ کی مدد سے 17 اگست کو مواخذہ کی کارروائی شروع کر کے استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ وکی لیکس سے یہ بات سامنے آئی تھی کہ ان کی جگہ مسند صدارت سنبھالنے والے آصف زرداری نے اس وقت پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن کو یقین دلایا تھا کہ اگر پرویز مشرف استعفیٰ دے دیں گے تو ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی اور انہیں ملک سے باہر جانے دیا جائے گا۔

پرویز مشرف صدارت چھوڑنے کے بعد ملک سے باہر چلے گئے تھے اور پی پی پی کے پورے دور میں ملک سے باہر رہے۔

وہ مئی 2013 کے انتخابات سے صرف ایک ماہ پہلے اپریل میں ملک میں واپس آئے تھے لیکن پشاور ہائی کورٹ نے ان کو تاحیات الیکشن لڑنے سے نااہل قرار دیا۔ اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل کیانی نے مبینہ طور پر انہیں ملک میں واپس نہ آنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ ان کی واپسی پر ان کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے جو فوج کے لیے اچھی خبر نہیں ہو گی اس لیے بہتر ہو گا کہ وہ واپس نہ آئیں لیکن پرویز مشرف اس مشورے کو نظر انداز کر کے واپس آ گئے تھے۔

پرویز مشرف نے کئی بار جنرل کیانی کے کردار پر تنقید کی تھی اور ان پر بیوفائی کا الزام عائد کیا تھا۔

پرویز مشرف کے مقدمے کا فیصلہ تقریباً چھ سال بعد آیا ہے اور اس عرصے میں عدالت کو چھ بار دوبارہ تشکیل کیا گیا۔ جج بدلتے رہے لیکن مقدمہ چلتا رہا اور اس طرح اس مقدمے کی 125 سماعتیں ہوئیں۔

تحریک انصاف حکومت اپنے سوا سالہ دور میں اس معاملے پر الجھاؤ کا شکار رہی۔ اگر تحریک انصاف چاہتی تو جب یہ مقدمہ اپنے اختتام پر نہیں پہنچا تھا تو وہ اس کیس کو واپس لے سکتی تھی کیونکہ سنگین غداری کے مقدمے میں حکومت ہی شکایت کنندہ ہوتی ہے۔ حکومت کے وزرا جن میں وزیر داخلہ اور پرویز مشرف کے قریبی ساتھی اور ان کے دور میں ان کے ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو بریگیڈیئر اعجاز شاہ ایک ٹی وی انٹرویو میں برملا کہہ چکے تھے کہ وہ عمران خان کو مشورہ دیں گے کہ وہ اس معاملے سے دور رہیں۔

پھر اس سال جب استغاثہ اپنا تحریری جواب جمع کرا چکا تھا تو 25 اکتوبر کو حکومت نے ایک طرف استغاثہ ٹیم کو بتائے بغیر اچانک تبدیل کر دیا اور دوسری طرف اسلام آباد ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ وہ خصوصی عدالت کو 19 نومبر کو فیصلہ دینے سے روک دے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایسا کیا بھی لیکن پھر پانچ دسمبر میں دوبارہ کارروائی کا آغاز ہوگیا۔ اس سے پہلے اسی سال اپریل میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کے حتمی بیان کے بغیر کارروائی چلانے کا حکم دیا تھا کیونکہ پرویز مشرف متعدد مواقع دینے کے باوجود اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے پس و پیش سے کام لیتے رہے تھے۔

اس سے پہلے اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے پرویز مشرف جنہیں مفرور قرار دیا گیا تھا اور ان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ منسوخ کیا گیا تھا، مداخلت کر کے اسے بحال کروایا تھا تاکہ وہ واپس آ سکیں لیکن اس کے باوجود پرویز مشرف نہ واپس آئے اور نہ اپنا بیان دینے پر راضی ہوئے۔

پرویز مشرف چار چھ ہفتے میں واپس آنے کا کہہ کر مارچ 2016 میں ملک سے باہر گئے تھے۔ اس عرصے میں ایک ٹی وی چینل پر وہ ہفتہ وار پروگرام کرتے رہے، کئی سرگرمیوں میں شریک رہے لیکن ملک واپس نہ آئے۔ یہاں تک کہ وہ ویڈیو لنک پر بھی اپنا بیان دینے پر راضی نہیں ہوئے۔

اپریل کے حکم نامے میں سپریم کورٹ نے خصوصی عدالت سے کہا تھا کہ کیونکہ پرویز مشرف متعدد مواقع دینے کے باوجود اپنا بیان دینے کے لیے تیار نہیں تھے اس لیے وہ اپنے حق دفاع سے محروم ہو چکے ہیں۔

اسی وجہ سے آخرکار خصوصی عدالت چھ سال بعد اس مقدمے کو حتمی انجام تک لانے میں کامیاب ہوئی۔ یہ اس کے بالکل برعکس تھا جس میں سپریم کورٹ نے نواز شریف کے مقدمے میں ماتحت احتساب عدالت کو نہ صرف چھ ماہ میں مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے پابند کیا تھا بلکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کو اس مقدمے میں نگران جج بھی مقرر کیا تھا۔ اس لیے اس فیصلے کوعجلت پر مبنی قرار دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔

بشکریہ: انڈپینڈینٹ اردو

مرتضیٰ سولنگی اسلامآباد میں مقیم ایک سینیئر تجزیہ کار اور کالم نگار ہیں @murtazasolangi

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے