Baam-e-Jahan

حکومت کے حق میں لکھیں اور اشتہار لے لیں: صدر نیشنل پریس کلب

بام جہان

وزارت اطلاعات کے ذیلی ادارہ پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ نے اشتہار کے لیے حکومت کے حق میں لکھنے کی شرط عائد کر رکھی ہے۔

"آپ کو اشتہار چاہیے تو آپ کو حکومت کے حق میں لکھنا ہے ورنہ آپ کے اشتہارات بند ہیں”۔

اس بات کا انکشاف نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن کی سب کمیٹی کے اجلاس میں گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

صحافیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے تجاویز بنانے کے حوالے سےسب کمیٹی کا دوسرا اجلاس کنوینئر سید امین الحق کی صدارت میں ہوا۔جس میں وزارت اطلاعات، پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا)، پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے)، نیشنل پریس کلب۔ پاکستان براڈکاسٹنگ ایسو سی ایشن (پی بی اے)، ال پاکستان نیوز پیپر ایسو سی ایشن (اے پی این ایس) اور کونسل آف پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرس ایسو سی ایشن (سی پی این اے) کے عہدیداران نے شرکت کی۔

میٹنگ میں گفتگو کرتے ہوئے صحافتی تنظیموں کے نمائندگان نے صحافیوں کے مالی مشکلات کا تفصیلی ذکر کیا۔

نیشنل پریس کلب کے صدر شکیل قرار نے حکومت اور میڈیا مالکان کو آڑے ہاتھوں لیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے ان اٹھارہ ماہ میں میڈیا کے جو حالات ہوئے ہیں ان میں میڈیا مالکان اور حکومت دونوں برابر کے حصے دار ہیں۔ مالکان کہتے ہیں حکومت اشتہارات نہیں دیتی حکومت کہتی ہے ہمارا کل اشتہاروں میں حصہ صرف پندرہ فیصد ہے۔میڈیا کو اشتہارات تو پرائیویٹ سیکٹر سے ملتے ہیں۔ اس سب میں میڈیا ورکرز پس کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے بچے فیس کی عدم ادائیگیوں کی وجہ سے سکولوں نے نکال دئیے ہیں۔ صحافیوں کے گھر کھانے کو نہیں۔

شکیل قرار نے حکومت کی اشتہاروں کی مد میں میڈیامالکان کو ادائیگیوں کو صحافیوں کی تنخواہوں کی منسلک کرنے پر زور دیا اور اس سلسلے میں کمیٹی سے طریقئہ کار وضع کرنے پر زور دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ہاؤسز نے دس دس مہینے سے تنخواہ نہیں دیئے ہیں۔ سات ہزار سے زائد میڈیا ورکرز اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو چکےہیں۔ اس ساری صورتحال میں ایسا کرنا بہت ضروری ہے ۔

پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کی طرف سے افضل بٹ نے بات کرتے ہوئے کہا کہ میڈیا کے خلاف یہ آج جو بھی ہو رھا ہے یہ سب دانستہ ہے۔ یہ سارا پلان پنڈی میں بنا ہے۔ حکومت اور سٹیٹ میڈیا کی تباہی کی زمہ دار ہیں۔

"جہاں وزیراعظم یہ کہے کہ اخبار مت پڑھیں اور ٹی وی مت دیکھیں اس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حکومت میڈیا کو کتنی اہمیت دیتی ہے. جتنی سینسر شپ آج ہے اتنی کسی دور میں نہیں رہی ۔ پہلے حکومتیں اشتہار دے کر کام لیتیں تھیں اور اس حکومت نے گلا دبانے کا ہی پلان بنا لیا ہے۔”

افضل بٹ نے کمیٹی کو صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے ایک پارلیمانی کمیشن بنانے کی تجویز دی جو میڈیا کے سارے معاملات کا جائزہ لے اور ان سارے کرداروں کو بے نقاب کرے جن کی وجہ سے میڈیا ان حالات کو پہنچا ہے۔

کمیٹی میں بات کرتے ہوئے سی پی این اے کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر جبار خٹک کا کہنا تھا کہ میڈیا کی ریگولیشن کے نام پر سینسر شپ ختم ہونی چاہیے۔ ریاست نے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالا ہے عوام کے پیسوں سے صرف چند بڑے میڈیا ہاؤسز کا پیٹ بھرا گیا ہے ۔ کتنے چھوٹے اور علاقائی اخبارات کو اشتہار دئیے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت سے بقایا جات تو دلوائے جائیں۔ حکومت کے زمہ پانچ سے چھ ارب روپے واجب الاداء ہیں ۔ایف بی آر میں ریفنڈ کے کیسسز سالوں سے پڑے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔

آل پاکستان نیوز پیپر سوسائٹی کے عہدیداران نے کمیٹی کو بتا یا کہ حکومتی اشتہارات میں 70 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ اور پچھلے اٹھارہ سالوں میں اشتہاروں کے ریٹ میں صرف 10 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

پی بی اے کے عہدیداران نے موقف اختیار کیا کہ حکومت نے الیکٹرانک میڈیا کو اشتہارات کی مد میں پونے چار ارب ادا کرنے ہیں۔ اور اس وقت حکومت نے اشتہارات بند کئے ہوئے ہیں ۔

کمیٹی کے کنونئیر سید امین الحق کی جانب اس ساری صورتحال پر سیکرٹری اطلاعات سے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ حکومت میڈیا کی آزادی پر مکمل یقین رکھتی ہے اور ان کی وزارت میڈیا تنظیموں کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل بنانے کے لیے تیار ہے لیکن صحافتی تنظیموں کی اشتہارات کے ادائیگیوں کو تنخواہوں کے ساتھ منسلک کرنے کی تجویز قانونی دائرہ کار میں نہیں آتی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی انڈومنٹ فنڈ موجود ہے تو اسے صحافیوں کے مالی مسائل کو دور کرنے کے لیے استعمال کرنے کا لائحہ عمل بنایا جا سکتا ہے۔

اس موقع پر کمیٹی نے سیکرٹری انفارمیشن کو ہدایئت دیتے ہوئے کہا کہ صحافیوں کی تنخواہوں کی بروقت ادائیگی کو یقینی بنانے کے اقدامات کئے جائیں۔

کمیٹی نے وزارت اطلاعات کو اشتہارات کی مد میں رقوم کی ادائیگیوں کو صحافیوں کی تنخواہوں کی ادائیگیوں کے ساتھ منسلک کرنے کے لیے طریقہ کاروضع کرنے کی ہدایات بھی جاری کیں۔

پارلیمانی کمیشن کی تجویز پر کمیٹی نے وزارت قانون سے رجوع کرنے کا بھی عندیہ دیا اور اس سلسلے میں وزارت قانون سے مشاورت کے بعد لائحہ عمل بنانے کی بھی یقین دھانی کروائی۔کمیٹی نے اس موقع وزارت اطلاعات کو صحافیوں کے مسائل کے حل کے لیے جامع تجاویز بنانے کے احکامات بھی جاری کئے۔
بشکریہ: ڈیجٹل میڈیا مانیٹر

اپنا تبصرہ بھیجیں