سید علی عباس جلالپوری (پیدائش:19 اکتوبر 1914) پاکستان میں تحریک خرد افروزی کے بانی تھے۔ اُن کا تعلق ننھیال ڈنگہ ضلع گجرات اور ددھیال جلالپور شریف ضلع جہلم سے تھا
سید علی عباس کا تعلق چشتیہ سلسلہ سے نسبت رکھنے والے خانوادہ (پیر سید حیدر شاہ) سے تھا جس کا شجرہ نسب 30 واسطوں سے حضرت علی ابن ابی طالب سے منسلک بتایا جاتا ہے۔ والد کا نام سید سیدن شاہ جو ڈنگہ کی عدالت میں منصف کے عہدے پر فائز تھے، ان کا ذاتی کتب خانہ تھا، عربی و فارسی میں مہارت رکھتے تھے، موسم گرما و سرما میں مستحق افرادکو موسم کے مطابق پارچہ جات تقسیم کیا کرتے تھے، سنجیدہ اور کم گو انسان تھے۔ سید علی عباس جلالپوری کی والدہ کا نام فضل بیگم، تھا، نہایت مدبر، محنتی اور کم گو خاتون تھیں جس کی وجہ سے گھر کا ماحول پرامن رہتا تھا۔
علی عباس جلالپوری اپنے گھر کے ماحول کے بارے میں کہتے تھے: ”خوش قسمتی سے میں ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جہاں علم و حکمت کا چرچا تھا۔ ہمارے ہاں کم وبیش تمام ادبی رسائل آتے تھے۔ میں ساتویں جماعت میں تھا کہ بچوں کے رسالے ” پھول“ کے ساتھ ساتھ ”ہمایوںِِ“ ” زمانہ“ وغیرہ میں چھپے ہوئے افسانے بھی پڑھنے لگا تھا۔ ان کے علاوہ خواجہ حسن نظامی، راشد الخیری اور نذیر احمد دہلوی کی کتابیں بھی میری نظر سے گزرنے لگی تھی۔ اس زمانے میں ایک دن اپنے کتب خانے کو کھنگالتے ہوئے دو نایاب کتب مرے ہاتھ لگیں جن کے مطالعے نے مجھے دنیا و مافیہا سے بے خبر کردیا۔ ان میں، ایک ”داستان امیر حمزہ“ اور دوسری ”الف لیلیٰ“ تھی-
انہوں نے 1931ء میں سندر داس ہائی اسکول ڈنگہ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور گورنمنٹ انٹر کالج گجرات میں پڑھنے لگے، ان کے مضامین میں فلسفہ، انگریزی تاریخ اور فارسی شامل تھے۔ 1934ء میں انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے میں داخلہ لیا۔ ان کے اساتذہ میں مسٹر گیرٹ، مسٹر کھنہ، مسٹر ڈکنسن، مسٹر ھیچ اور جناب احمد شاہ پطرس بخاری شامل تھے۔ "راوی” کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں: ”مسٹر ھیچ میرے ٹیٹوریل گروپ کے انچارج تھے۔ انہوں نے مجھے دنیا کی سو بہترین کتابوں کی فہرست دی جس میں ہر موضوع پر کتابیں شامل تھیں، مجھے عام اور کلاسیکی کتاب کا فرق یہاں سے معلوم ہوا“-
علی عباس ابھی بی اے میں زیر تعلیم تھے کہ والد انتقال فرماگئے- بی اے کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے، مزید برآں ان کے سوتیلے رشتہ داروں کا ان کے ساتھ سلوک ناگفتہ بہ تھا۔ وہ آبائی وطن جلالپور شریف سدھار گئے۔ خاندان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز عزیز و اقارب کی کمی نہ تھی مگر جلالپوری دیر تک وعدہ فروا پر بہلائے جاتے رہے، غالباً ان کی لیاقت اور خودداری حسد اور بغض کی بڑی وجہ تھی۔ دریں اثنا ان کے بچپن کے استاد خدا بخش کشمیری نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ بی ٹی کا کورس کرکے مدرس کے عہدے پر کام کریں اور سلسلہ حصول علم بھی جاری رکھیں۔ اس مخلصانہ مشورے پر عمل کرتے ہوئے جلالپوری نے45-1944ء میں گورنمنٹ سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور سے بی ٹی کا کورس کیا۔ دوران تعلیم اپنے مہربان بزرگ سید کرم شاہ کے ہاں مقیم رہے، یہاں موسیقی کی محافل بپا رہتی تھیں۔ ایک پنڈت جی سے وائلن بجانا بھی سیکھا ۔ راگ ایمن، بھیرویں اور درباری خاص طور پر پسند کرتے تھے۔ ملکہ ترنم نور جہاں اگرچہ اس وقت کم سن تھیں مگر گائیکی میں توجہ جذب کر لیا کرتی تھیں ۔ ان کا ذکر انہوں نے اپنے مضمون ”یادوں کے چراغ“ میں کیا ہے جو کہ ” فنون“ کے ایک شمارے میں اشاعت پذیر ہوا۔ مشہور موسیقار خواجہ خورشیدانور ان کے ہم جماعت تھے۔ جلالپوری کہا کرتے تھے-
” اگر میں فلسفی نہ ہوتا تو موسیقار ہوتا “
بی ٹی کا کورس کرکے بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ پنڈ دادن خان، چکوال، بھوچھال کلاں اور پنڈی گھیب میں خدمات انجام دیں۔ ان کے خطوط میں وہاں کے حالات کا تذکرہ ملتا ہے۔ یہ خطوط ”مکاتب علی عباس جلالپوری“ کے عنوان سے کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں،جن کو مرتب ان کی صاحبزادی پروفیسر لالہ رخ بخاری نے کیں جو گوجرانوالہ کے گورنمنٹ کالج میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
جلالپوری کچھ عرصہ انسپکٹر اسکولز (ADI) بھی رہے 1945ء میں شہزادی بیگم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ جلالپوری نے دوران ملازمت 1950ء میں اردو میں ایم اے کیا اور بطور لیکچرار ایمرسن کالج ملتان میں تعینات ہوئے۔ یہاں ایک وسیع لائبریری دامن دل کشا کئے ان کو خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ فارسی میں پہلے ہی مہارت حاصل تھی چنانچہ ایم اے (فارسی) کرنے کا ارادہ کیا اور1954ء میں ایم اے (فارسی) میں قابل رشک کامیابی حاصل کی جس پر گولڈ میڈل کے حقدار ٹھہرائے گئے، لیکن ان کا اصل موضوع فلسفہ تھا، مشہور زمانہ فلسفی ول ڈیورانٹ کے ساتھ ان کی خط و کتابت بھی رہی۔ اس کی تاریخ کی کتاب شائع ہوئی تو جلالپوری نے ان میں اغلاط کی نشان دہی کی، ول ڈیورانٹ نے ان اغلاط کا جائزہ لیا اور اقرار کیا کہ وہ اگلے ایڈیشن میں ان کو درست کردیں گے۔ اس خط کا عکس ” مکاتب علی عباس جلالپوری“ میں دیا گیا ہے۔
1958ء میں جلالپوری نے فلسفے کا امتحان امتیازی حیثیت سے پاس کیا۔ ان کے ایک امتحانی پرچے کو ہندوستان کے پروفیسروں نے چیک کیا کیونکہ پاکستان میں اس کا کوئی استاد موجود نہ تھا۔ اب وہ ایم اے (فلسفہ) گولڈ میڈلسٹ تھے۔ میونخ یونیورسٹی جرمنی سے انہیں پی ایچ ڈی کے وظیفے کی دعوت آئی۔ شہزادی بیگم نے بھرپور انداز میں انہیں جانے کے لئے مجبور کیا مگر بیوہ ماں اور بیوہ بہن کے چار بچوں کی کفالت ان کے راستے کی بڑی رکاوٹ تھی۔ انہوں نے وطن میں رہ کر اپنا موقف پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔
1956ء میں ان کا تبادلہ گورنمنٹ کالج فار بوائز سیٹلائٹ ٹاؤن گوجرانوالہ میں ہوگیا۔ اس ادارے کا ادبی مجلہ "مہک” انہوں نے اولین سطح پر جاری کیا۔ اپنے تصنیف کردہ ڈرامے سٹیج کروائے۔ "یادوں کے سائے” نامی ڈراما محفوظ رہ گیا ہے۔ منور سعید اور دلدار پرویز بھٹی ان کے شاگردوں میں سے تھے۔
تصنیف و تالیف کا رجحان ان کے ذوق مطالعہ کا مرہون منت تھا۔ دسویں جماعت میں پہلا افسانہ”ہمایوں“ میں چھپا جسے ادبی مجلے کا اعزازحاصل تھا۔ 1936ء میں جب وہ گورنمنٹ کالج سے بی اے کرچکے تو ان کے افسانے اور مضامین ”ہمایوں“ میں چھپنے لگے- بطور طالب علم کچھ عرصے کے لئے شعرو شاعری کا شوق بھی چرایا لیکن ان کے استاد پطرس بخاری نے انہیں عملی کام کرنے کی تلقین کی غالباً اسی لئے ان کے افسانے اور شاعری سنبھالے نہ جاسکے۔ ادبی دنیا کے مدیر مولانا صلاح الدین نے انہیں علمی کام کرنے کا مشورہ دیا۔
ترقی پسند تحریک کے بانی سجاد ظہیر، رشیدہ جہاں، ڈاکٹر تاثیر، فیض احمد فیض جیسی شخصیات افتخار الدین کے گھر اکٹھی ہوتیں تو جلالپوری بھی ان کی محفلوں میں شرکت کرتے۔ سب کی فرمائش پر انہوں نے مارکسزم پر اپنا ہمدردانہ مقالہ بھی پڑھا۔
تحقیق اور مسلسل اقتباس لکھنے اور تصنیف و تالیف کرنے کا کام زندگی مانگتا ہے جس کی وجہ سے جلالپوری کی زندگی میں مجلس کے تکلفات ختم ہوتے چلے گئے۔ ان کے اقتباسات پر مبنی 60 نوٹ بکس موجود ہیں جو سینکڑوں کتابوں کا نچوڑہیں۔ ان نوٹس بکس کے تقریباً 15،000 صفحات ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لیونارڈو ڈاونچی کے نوٹس ”تحریری و تصویری صفحات“ بھی اتنے ہی ہیں۔
گوجرانوالہ میں رہائش کے دوران انہوں نے اقبال کو فلسفی کی بجائے متکلم ثابت کیا۔ یہ مضمون ”ادبی دنیا“ اور ” فنون“میں شائع ہوئے تو اہل قبہ و جبہ کی مخالفت کا طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ کفر و زندقہ کے فتوے لگے مگر صاحبزادہ فیض الحسن شاہ نے یہ فتوے واپس کرائے اور جلالپوری کے ایک کزن ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ سید حسنات احمد نے ان کی ٹرانسفر24 اگست 1967ء کو سنٹرل ٹریننگ کالج لاہور کروادی۔ ”اقبال کا علم الکلام“ جیسی معرکہ آرا تصنیف لاہور میں شائع ہوئی جس پر ان کا مناظرہ بشیر احمد ڈار سے ہوا مگر عارضہ قلب کی وجہ سے ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ مناظرہ کتابی صورت میں ترتیب دیا جارہا ہے۔ 1972ء میں وہ ریٹائرڈ ہوگئے۔1973ء میں نجم حسین سید (CSP) آصف خان، راجہ رسالو، سید ضیغم الحسن باقری اور جلالپوری نے پنجاب یونیورسٹی لاہور میں پنجابی شعبے کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا۔
79-1978ء میں وہ جلالپور واپس تشریف لے گئے۔ 1984ء تک’ کائنات اورانسان’، ‘خرد نامہ جلالپوری’، ‘رسوم اقوام’، ‘میرا بچپن اور لڑکپن، ‘پریم کا پنچھی پنکھ پسارے’ (ناولٹ)، ‘پنجابی محاورے’ اور ‘سبد گل چیں’ مکمل کیں۔ ‘پریم کا پنچھی پنکھ پسارے’ دوبارہ ایک نوٹ بک میں صاف کرکے لکھا جو ایک ناولٹ ہے۔ یہ ناولٹ جنوری 2011ء میں اُن کی بیٹی نے شائع کرایا ہے۔
14 جون 1984ء میں ان پر فالج کا حملہ ہوا۔ جہلم اور راولپنڈی کے ہسپتالوں میں زیر علاج رہے مگر محدود وسائل کی بناء پر اس معیار کا علاج نہ ہوسکا کہ مکمل صحت یابی ہوجاتی۔ داہنے ہاتھ میں رعشہ ہوگیا تو تصنیف و تالیف سے ناطہ ٹوٹ کیا۔
1986ء میں پاکستان پنجابی ادبی بورڈ لاہور کی جانب سے انہیں ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ان کی دو کتابیں "وحدت الوجودتے پنجابی شاعری” اور "ساڈے وڈکیاں دی سوجھ” کو پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کی تھیں۔
1989ء میں انہیں تحریک خرد افروزی کے لئے اعلیٰ پائے کی تصانیف تحریر کرنے پر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ یہ ایوارڈ وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے دیا تھا۔ دونوں ایوارڈ وصول کرنے کے لئے ان کے بڑے صاحبزادے پرنسپل (ریٹائرڈ) سید حامد رضا تشریف لے گئے۔ اس سے قبل لاہور میں جب ”مقامات وارث شاہ“ منظر عام پر آئی تو انہیں آدم جی انعام کے لئے نامزدکیا گیا۔ کئی ادبی شخصیات نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی مگر جلالپوری صاحب نے سرمایہ دار نمائندہ سے انعام وصول کرنے سے انکار کر دیا۔ اپنے بارے میں وہ کہتے تھے: ”دنیا میں ایک چیز ایسی ہے جس کے لئے میں جان بھی دے سکتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ مجھے کوئی دبا نہیں سکتا۔ نہ نظریئے سے، نہ باتوں میں، نہ کسی قسم کے رعب سے، جب سے ہوش سنبھالا ہے میں باغی ہوں۔“
ذیل میں اُن کی کتابوں کی فہرست اور تعارف دیا جا رہا ہے۔
روح عصر
یہ کتاب 1969ء میں شائع ہوئی، اب اس کا پانچواں ایڈیشن شائع ہوچکا ہے، انسانی ذہن کے ارتقاء، سائنسی طریقہ تحقیق، ادہام اور اساطیری قصوں کے پس منظر کے تاریخی حالات کا جائزہ، مسلسل بدلتی کائنات اور شعور کی ترقی کے ساتھ عصر حاضر میں انسانی مقام کا جائزہ بند دریچوں کو کھول کر تازہ ہوا کے جھونکوں سے فضا کو پاکیزہ کردیتا ہے-
مقامات وارث شاہ
یہ تحقیقی تصنیف جون 1972ء میں وجود میں آئی، وارث شاہ کی ادبی حیثیت ، پنجاب کے رسوم و رواج، سماج میں پھیلی کدورتیں، استحصال، کسانوں کی امنگوں، تمناؤں اور ارمانوں کی آئینہ دار ہے۔ اس کتاب کا انتساب بھی ”جیالے کسانوں کے نام“ ہے۔
روایات فلسفہ
1969ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ فلسفے کو عام قاری کے لئے آسان ترین انداز میں پیش کیا ۔ وجودیت، جلالی مادیت، نوفلاطونیت،موجودیت، تجربت، مثالیت پسندی، ارتقایت، روایات فلسفہ کے اہم موضوعات ہیں۔
اقبال کا علم کلام
1972ء میں "ادبی دنیا” میں چھپنے والے مضامین کو کتابی صورت میں مرتب کیا۔ مسلمان معاشرے کے جمود کی بڑی وجہ شخصیت پرستی کو اہم سبب بیان کیا ہے۔ اقبال خود کو فلسفی کہلوانا پسند نہیں کرتے تھے مگر احباب تھے کہ بزور منوانے پر تلے رہتے تھے۔ جلالپوری نے ان کے اشعار، افکار، خطوط، خطبات، احیائے العلوم (غزالی کی تصنیف،) سے دلائل دے کر ثابت کیا ۔مگر کفر کا فتویٰ لگاکر طوفان برپا کردیا گیالیکن آج تک اس کتاب کا جواب نہیں لکھا جاسکا۔
عام فکری مغالطے
نومبر1985ء میں اس کتاب کی اشاعت ہوئی۔ یہ کتاب دانتے فکر و ادب میں اپنی نوعیت کی اولین کتاب ہے۔بقول محمد ارشاد ”اس بات کو تو معرض بحث میں نہیں لایا جاسکتا کہ اس انداز فکر کا جسے پروفیسر صاحب مغالطہ کہتے ہیں واضح طور پر تہذیب و علوم کے ارتقاء میں رکاوٹ ہے۔ اس لحاظ سے عام فکری مغالطے کی علمی حیثیت عیاں ہے اور غالباً اس موضوع پر پہلی کتاب ہے جو دنیا کی کسی زبان میں لکھی گئی ہے-“
عام فکری مغالطے میں درج ذیل باتوں کو مغالطے قرار دیا ہے:۔
‘تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے.’
‘بے راہ روی کا نام آزادی ہے’۔
‘ماضی کیسا اچھا زمانہ تھا۔’
‘فلسفہ جاں بلب ہے۔’
‘انسانی فطرت ناقابل تغیر ہے’۔
‘وجدان کو عقل پر برتری حاصل ہے’۔
‘دولت مسرت کا باعث ہوتی ہے’۔
‘تصوف مذہب کا جز ہے’۔
‘عشق ایک مرض ہے’۔
‘اخلاقی قدریں ادبی و ابدی ہیں’۔
‘عورت مرد سے کمتر ہے۔’
‘فن برائے فن کار ہے۔’
‘انسان فطرتاً خود غرض ہے’۔
‘ریاست اور مذہب لازم و ملزوم ہیں۔’
‘مقالات جلالپوری’ 1969ء میں لاہور سے شائع ہوئی جس میں13 مضامین ہیں۔ تین مقالے مرزا اسد اللہ خان غالب کے فکروفن، جمالیات، کلام منقبت کے حوالے سے تحریر کئے ہیں۔ فرائڈ، ژنگ کے نظریات کے حوالے سے بھی مقالے درج ہیں۔ اس کے علاوہ خواجہ فرید کی عشقیہ شاعری، کافکا اور فن و فلسفہ سے متعلق تحقیقی،ً و منطقی انداز میں جامع مقالہ جات درج ہیں۔
‘تاریخ کا نیا موڑ’ 1984ء میں شائع ہوئی۔ پروفیسر ظفر علی خان کی تعیناتی گورنمنٹ انٹر کالج فار بوائزمیں ہوئی تو وہ جلالپور شریف آپ سے ملاقات کے لئے تشریف لے گئے، اتنے دن تک قیام پذیر رہے، کہتے ہیں کہ "وہ علم کا سمندر ہیں اور میں پیاسا” معلوم ہی نہ ہوا کہ تین دن اور تین راتیں کیسے گذر گئیں۔ سید علی عباس جلالپوری نے انہیں کتابوں کے مسودے دکھائے اور پبلشروں کی زیادتیوں کی شکایت کی۔ پروفیسر ظفر علی خان نے پیسے اکٹھے کئے اور ان مسودوں کو کتب کا روپ دے دیا۔ فالج کے مرض کے دوران "تاریخ کا نیا موڑ” چھپ کر ہاتھ میں آئی تو زرد چہرے پر سرخی دوڑ گئی۔ دیر تک کتاب پر ہاتھ پھیرتے رہے جیسے اولاد کو پیار سے سہلایا جاتا ہے۔ اس تصنیف میں انسان کی ابتدا اور بتدریج ترقی کو جامعیت سے بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح انسان حالات و حادثات کا جبر توڑتے ہوئے مختلف ادوار سے گزر کر موجودہ سائنس کے دور میں داخل ہوا ہے۔
کائنات اور انسان
پروفیسرظفر علی خان کے مشورے پر جلالپوری کے دونوں بیٹوں سید حامد رضا اور سید جعفر رضا نے مکتبہ خرد افروز قائم کیا اور خود کتابیں چھاپنے لگے، سید جعفر رضا نے اس مقصد کے لئے نہایت لگن اور مستقل مزاجی سے کتابت سیکھی اور بقیہ مسودوں کی خود کتابت کی۔
1989ء میں’ کائنات اور انسان’ کتابی شکل میں آئی۔ ایک بار پھر چہرے پر شگفتگی آگئی۔ پروفیسرظفر علی خان کہتے ہیں کہ کتاب ہاتھ میں لے کر ان کے چہرے پر جو رونق کھل اٹھتی تھی اسے دیکھ کر میری محنت وصول ہوجاتی۔اس کتاب میں انسانی سوچ کا ارتقا فلسفیانہ اندازمیں پیش کیا ہے۔ ” روحوں کا مت کیا ہے، جادو ٹونے کیسے وجود میں آئے، دیومالائی قصے کہانیوں کے اثرات، مذہب اور فلسفے کے مختلف پہلو، منطقی انداز میں یوں سمجھائے کہ ذہن نشین ہوجاتے ہیں۔ اس کتاب میں پیری فقیری کے دلچسپ واقعات اور ادب و فن سے دلائل دے کر ثابت کیا ہے کہ ابھی مقام خرد تک رسائی کے لئے ہماری قوم کو اپنا سفر جاری رکھنے کی کس قدر ضرورت ہے۔
روایات تمدن قدیم
1991ء میں شائع ہوئی۔ سید جعفر رضا نے اس کی کتابت اپنے ہاتھ سے کی تھی۔ اس کتاب میں نمایاں تہذیبوں کا جائزہ جڑوں تک کھود کر پیش کیا گیا ہے۔ عراق، مصر، کنعان، بنی اسرائیل، یونان، ایران، ہند، چین، اس میں شامل ہیں، ان تہذیبوں کا آغاز، رسوم، طبقات، تفریحات، مذاہب، نظریات، انکشافات، جنگیں، اشتمالیت کے تصورات، خیر و شر کی آویزش، توہمات، جادو ٹونے وغیرہ کے باہمی تعلق اور انسانی زندگی پر ان کے اثرات کا جامع تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔
جنسیاتی مطالعہ
1991ء میں شائع ہوئی، جنس ہمارے معاشرے میں طبو ہے، اس پر بات کرنا ممنوع ہے بلکہ گناہ ہے، جلالپوری سے ان کے نوجوان شاگرد مشورے لیا کرتے تھے۔ اس پر انہیں خیال آیا کہ بلوغت کے وقت لڑکوں اور لڑکیوں کو صحت مندانہ رہنمائی کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ والدین اس موضوع پر بات کرنا باعث ننگ و عار سمجھتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نوجوان عمر کے اس پر آشوب دور میں لاعلمی کی بنا پر غلط راستوں پر چل نکلتے ہیں اور عمر بھر پچھتاوے میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کتاب میں جلالپوری نے سائنسی طرز تحقیق سے والدین اور نوجوانوں کو اہم معلومات بہم پہنچائی ہیں۔
رسوم اقوام
مئی 1993ء میں اشاعت پذیر ہوئی۔ اس کتاب میں مصری، یونانی، ہندی، عراقی، چینی اور دیگر اقوام کی رسوم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مثلاً بچے کی پیدائش ، موت، شادی، موسموں، مذہبی تہواروں، اجداد پرستی اور تفریحات وغیرہ کی رسومات کے بارے میں کثیر، معلومات کے ساتھ انسانی نفسیات کا بتدریج اتار چڑھاؤ بھی قرطاس پر ابھر آتا ہے۔ خوف، نفسیاتی الجھنیں، احساس کمتری، چڑچڑا پن، عدم برداشت و عدم توازن کے رویے نمایاں ہوتےہیں
‘خردنامہ جلالپوری’ 1993ء میں شائع ہوئی، اس کتاب کے بارے میں سید علی عباس جلالپوری کہتے ہیں: ”راقم نے bayle کی طرح علمی اور تحقیقی نکتہ نظر سے اس لغات کی تدوین کی ہے۔ اس کتاب کا مقصد یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کے ذہن و دماغ کو روشن کیا جائے اور انہیں تنگ دلی و تنگ نظری سے نجات دلاکر ایسی معلومات بہم پہنچائی جائیں جن سے قاری کی نگاہیں وسعت اور ذہن و قلب میں کشادگی پیدا کی جائے اور وہ انفرادی و اجتماعی مسائل کا جدید سائنس اور جدید فلسفے کی روشنی میں سامنا کرسکیں-“
وحدت الوجود تے پنجابی شاعری
لاہور میں قیام کے دوران یہ کتاب پنجابی ادبی بورڈ نے شائع کی تھی۔ اس کتاب میں تصوف کے آغاز، سفر، شخصیات، موضوعات، مشہور صوفی شعرا اور ان کے کلام سے بحث کی گئی ہے۔ مشرقی پنجاب میں اس کا ترجمہ گورمکھی میں کیا گیا ہے۔
ساڈے وڈکیاں دی سوجھ
یہ کتاب ایک چھوٹے سے پمفلٹ کی مانند ہے جو سید ضیغم الحسن باقری کی فرمائش پر لکھا تھا۔ اس کتاب میں دنیا کی اعلیٰ علمی شخصیات اور ان کی تخلیقات میں سے چیدہ چیدہ اقتباسات کو پنجابی میں ترجمہ کیا گیا تھا۔ شاید اس کا دوسرا ایڈیشن نہیں چھپا جس کی وجہ سے یہ کتابچہ عموماً دستیاب نہیں۔
پریم کا پنچھی پنکھ پسارے
جنوری 2011ء میں اس مختصر ناولٹ کو اُن کی بیٹی پروفیسر لالہ رخ بخاری نے اپنے ناول ‘خواب ہوئے مہتاب’ کے ساتھ شائع کیا- یہ ناولٹ محبت کی ایک ایسی کہانی ہے جو ذات پات، قوم و مذہب، اونچ نیچ، کی تمام جکڑ بندیوں کی نشاندہی کرتی ہے۔ حسن و عشق کی شگفتگی اور دلنشین مکالمات، دیہات کا پس منظر اور تحریر کا گداز من موہ لیتا ہے۔ جلالپوری نے ثابت کیا کہ فلسفہ خشک مضمون نہیں بلکہ ادب کو بھی اپنے رنگ میں رنگ سکتا ہے۔
مکاتیب سیدعلی عباس جلالپوری
یہ کتاب جون 2013ء میں شائع ہوئی۔ اس کی بھی مرتبہ اُن کی بیٹی پروفیسر لالہ رخ بخاری ہیں۔ اس کتاب میں اُن کے وہ خطوط شامل ہیں جو انہوں نے دوران ملازمت دور دراز مقامات سے اپنی بیگم اور بچوں کو تحریر کیے تھے۔اس میں دیگر افراد کےنام بھی شامل ہیں۔مثلاً جگتار سنگھ، احمد ندیم قاسمی، سید سبط الحسن ضیغم، مشتاق احمد، پروفیسر ظفر علی خان، سید محمد کاظم اور ول ڈیورانٹ شامل ہیں۔
وقت کے جبر اور فالج کے مرض کی شدت کے باوجود ان کی شگفتگی اور فلسفیانہ فکر میں کمی نہیں آئی تھی۔ زیادہ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ بائیں ہاتھ سے لکھنے کی مشق کی، بیٹی کو دوران ملازمت گھر سے دور جانا پڑتا تو بائیں ہاتھ سے خط لکھ کر پوسٹ کروایا کرتے تھے۔اس زمانے میں ہلکی پھلکی شاعری بھی کیا کرتے تھے۔ چند اشعار منیر نیازی کی ایک غزل کی زمین میں کہے۔
آنکھوں کے ستاروں کو چمکائے ہوئے رہنا
رخسار کے پھولوں کو مہکائے ہوئے رہنا
دزدیدہ نگاہوں سے رہ رہ کہ تکے جانا
کینائے ہوئے رہنا، گھبرائے ہوئے رہنا
اظہار محبت کی جرات نہ کبھی کرنا
سید تیری قسمت ہے پچھتائے ہوئے رہنا
آپ نے چودہ برس نہایت پامردی سے فالج جیسے مرض کا مقابلہ کیا تھا اور اپنی زندگی، اپنے چنے ہوئے راستے، اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کے سلسلے میں ہمیشہ اطمینان کا اظہار کیا۔بیماری کے ایام میں وہ جہلم میں سید حامد رضا کے پاس مقیم تھے اور جلالپور شریف جانے کی خواہش کا اظہار کثرت سے کیا کرتے تھے۔ 7 دسمبر 1998ء کو وفات پائی-
تحریک خردافروزی پاکستان
مغربی ممالک میں اٹھارویں صدی میں استبصار(enlightenment) کی جو تحریک برپا ہوئی اس کا ترجمہ جلالپوری نے تحریک خرد افروزی سے کیا ہے۔ مغرب میں کلیساء اس تحریک کو کچلنے میں ناکام رہااور ہر جگہ سائنسی علوم کی روشنی میں معاشرے کو مدون کرنے کے رجحانات با ر پا گئے ۔مشرقی ممالک میں عقلیت پسندی اور خرد افروزی کو درخور اعتنا سمجھنے کی بجائے علم کلام کے نام پر تقلید جامد کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھا اور سائنسی انکشافات کو ذھنی طور پر قبول نہیں کیا گیا۔
علی عباس جلالپوری نے خرد افروزی کے عناصر ترکیبی یہ بتائے ہیں۔
سائنس اور فلسفے کو مذہبی تحکم سے نجات دلانے کی کوشش کرنا، انقلابیت، عقلیت پسندی، یا سائنسی علوم کی روشنی میں معاشرے کو از سر نو مرتب کرنے کی کوشش کرنا، مذھبی منافرت اور جنون کا انسداد، انسان دوستی کا فروغ.
علی عباس جلالپوری زندگی بھر اس مقصد کے لیے کام کیا.