علی سردار جعفری
گردشِ افلاک نے گودی میں پالا ہے انہیں
سختئی آلام نے سانچے میں ڈھالا ہے انہیں
گھورتی رہتی ہے گرمی میں نگاہِ آفتاب
آسماں کرتا ہے نازل ان پہ کرنوں کا عتاب
سر سے ساون کی گھٹا جاتی ہے منڈلاتی ہوئی
سرد جاڑوں کی ہوا سینوں کو برماتی ہوئی
بیکسی ان کی جوانی، مفلسی ان کا شباب
ساز ان کا سوزِ حسرت، خامشی ان کا رباب
سر سے پا تک داستانیں حسرتِ ناکام کی
نرم و نازک قہقہوں میں تلخیاں ایام کی
خشک لب، پھیکی نظر، مدقوق چہرے، زرد گال
وہ دھنسی آنکھیں، فسردہ رنگ، گرد آلود بال
پپڑیاں ہونٹوں پہ زخموں کے کناروں کی طرح
گرم ہاتھوں پہ عرق مدھم ستاروں کی طرح
بوجھ کا مرہونِ منت ان کے ابرو کا تناؤ
ان کا حاکم ظلم، ان کا پاسباں بیجا دباؤ
ان کے ساتھی پھاوڑے، ان کی سہیلی ہے کدال
زندگی پر یہ وبال اور زندگی ان پر وبال
لیکن ان کی پستیوں کو اپنی رفعت سے نہ دیکھ
ان کی غربت پر نہ جا ان کو حقارت سے نہ دیکھ
اپنی نظروں سے یہ لکھ سکتی ہیں تاریخوں کے باب
ان کے تیور دیکھتی رہتی ہے چشمِ انقلاب
ٹھوکروں پر ان کی جھک سکتے ہیں ایوان و قصور
توڑ دیتی ہیں ہتھوڑوں سے چٹانوں کا غرور
ان کی چوٹوں پر نکلتے ہیں پہاڑوں سے شرار
یہ اگر چاہیں الٹ ڈالیں بساطِ روزگار
بن کے قوت ایک دن ابھرے گی صدیوں کی تھکن
دیکھ لینا یہ بدل دیں گی نظامِ انجمن