خواتین کو بازاروں، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ میں دوران سفر اور دیگر عوامی مقامات میں مختلف طریقوں سے ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں
عرفانہ یاسر
’میں گیارہ برس کی تھی اور اپنی والدہ کے ساتھ اتوار بازار پھل لینے گئی۔ میری والدہ میرے سے دو قدم آگے کھڑی تھیں جبکہ میں ان کے پیچھے تھی۔ اچانک مجھے محسوس ہوا کہ کسی نے مجھے پیچھے سے چٹکی کاٹی ہے۔ میں گھبرائی اور خوفزدہ ہو گئی۔‘
یہ کہنا ہے سندس سلیمی کا جو ایک محقق اور ٹیچر ہیں۔ وہ عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے سے اپنے پریشان کر دینے والے تجربے کو بیان کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ ’جب میں نے حیرانی سے پیچھے دیکھا تو دو لڑکے جا رہے تھے۔ وہ مجھے بھاگتے ہوئے نظر آئے۔ لیکن جو میرے لیے زیادہ حیرت کی بات تھی وہ یہ تھی کہ میرے پیچھے ایک چھابڑی والا شخص کھڑا تھا جو اس حرکت پر مسکرا رہا تھا۔ وہ اس قسم کی حرکت سے خوش ہو رہا تھا۔‘
سندس ان دو لڑکوں کی طرف سے غلط حرکت کے ارتکاب کے بعد کہتی ہیں کہ ’مجھے لگا کہ ارد گرد کے لوگ یا تو نظریں پھیر لیتے ہیں، یا پھر ایسا لگنے لگتا ہے کہ وہ بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ میں نے کسی سے کچھ نہیں کہا اور نہ مجھے سمجھ آئی کہ میں کیا کہوں۔‘
سندس کہتی ہیں کہ ‘مجھے اپنے آپ پر بہت غصہ آیا۔ اپنے آپ سے گھن آئی کہ میں کچھ کہہ نہیں سکی۔ نہ میں نے کسی سے کہا اور نہ مجھے سمجھ آئی کہ میں کیا کہوں۔ لیکن اس کے بعد یہ ہوا کہ میں بھیڑ والی جگہ، بازار جانے سے خوفزدہ ہو گئی۔ اور میری کوشش ہوتی تھی کہ میں گھر میں رہوں یا گاڑی میں بیٹھی رہوں۔ یا اگر مجھے جانا بھی پڑتا تو میں دعا کرتی تھی کہ اللہ میاں میری حفاظت کرنا۔’
پاکستان میں خواتین کو بازاروں، دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ میں دوران سفر اور دیگر عوامی مقامات میں مختلف طریقوں سے ہراساں کیے جانے کے واقعات عام ہیں۔ خواتین کو چھونے، ان پر آوازیں کسنے، راستہ روکنے سمیت متعدد طریقوں سے ہراساں کیا جاتا ہے۔
’دل میں ایسا خوف بیٹھ گیا جو نکل ہی نہیں رہا‘
تحریم حسن ایک کمپنی میں کمیونیکیشن کی ملازمت کر رہی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’جب میں 12 برس کی تھی اور میری دو برس کی بہن گلی میں کھیل رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی نے آ کر مجھے دبوچ لیا، مجھے نہیں پتا میں نے کیسے خود کو اس سے کیسے چھڑوایا، اس وقت میرے ذہن میں صرف ایک بات تھی کہ مجھے اپنی بہن کو بچانا ہے، میں نے اپنی بہن کو پکڑا اور بھاگتی ہوئی گھر آ گئی اور کسی کو بھی نہیں بتایا کہ میرے ساتھ باہر کیا ہوا ہے مجھے ڈر لگ رہا تھا۔‘
تحریم اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ‘اس واقعے کے بعد دل میں ایک ایسا خوف بیٹھ گیا کہ جو نکل ہی نہیں رہا‘
تحریم اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اس واقعے کے بعد دل میں ایک ایسا خوف بیٹھ گیا کہ جو نکل ہی نہیں رہا۔ جب آپ کو اس طرح ہراساں کیا جاتا ہے تو آپ کا جسم بلکل ساکت ہو جاتا ہے، آپ کوئی رَدِ عمل نہیں دے پاتے، آپ کو سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ خود کو کیسے بچائیں۔ اس وقت میں بالکل منجمند ہو گئی، میرے جسم پر میرا اختیار ختم ہو گیا ایک ڈر اور خوف چھا گیا اور میں نے اپنا اعتماد کھو دیا۔‘
’بہت بے بسی محسوس ہوئی‘
لاہور کی رہائشی 20 سالہ طالبہ رئیسہ انور اپنے ساتھ پیش آئے ہراساں کرنے کے واقع پر بات کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’میں اس وقت 11 برس کی تھی اور اپنے والدین کے ساتھ لبرٹی مارکیٹ گئی تھی، میں نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور دوپٹہ بھی اوڑھا ہوا تھا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے پیچھے سے کوئی ہاتھ لگا رہا ہے جب میں نے مڑ کر دیکھا تو ایک شحض مسلسل مجھے چھو رہا تھا۔‘
رئیسہ انور کہتی ہیں کہ ’ایک لمبے عرصے تک میں اس بات سے انکاری رہی کہ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے۔ مجھے بہت بے بسی محسوس ہوئی، غصہ بھی آیا، یہ بھی سوچتی رہی کہ میرے ساتھ ہی یہ کیوں ہوا ہے۔ ہم جیسا بھی کر لیں ہمارے جسم کو ہماری مرضی کے بغیر چھوا جاتا ہے اور اسے کنٹرول کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’عوامی مقامات میں عورتوں کے گھومنے پھرنے اور مردوں کے گھومنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔‘
’یہ حق میں نے خود لیا‘
30 سالہ ریم خورشید ایک صحافی ہیں، وہ کہتی ہیں جب میں 15 برس کی تھی مجھے بھی ایک میلے میں ایک ایسے شخص نے چھوا جو وہاں اپنے بیوی اور بچوں کے ساتھ آیا تھا۔ 17 برس کی عمر میں دوبارہ مجھے ایسے ہی ایک کنسرٹ میں ہراساں کیا گیا اور جب میری عمر 19 برس تھی تو ایک استاد نے مجھے ہراساں کیا۔
ریم خورشید کا کہنا ہے کہ ’اب میں خود مختار ہوں، اب میں کہیں بھی آ جا سکتی ہوں، لیکن یہ حق مجھے کسی نے دیا نہیں میں نے خود لیا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک بچی جب پیدا ہوتی ہے تو اس کو بتایا جاتا ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے۔ دوسروں کو کیوں نہیں بتایا جاتا کہ ان کا رویہ کیا ہونا چاہیے۔ ہمیں ہی یہ کہا جاتا ہے یہاں نہیں جانا تھا وہاں نہیں جانا تھا۔ جس کے ساتھ یہ ہو رہا ہے آپ اس کو ہی الزام دیتے ہیں، میرے زندہ رہنے کے حق کی خلاف ورزی کی گئی۔ میں اگر بالکل غائب ہو جاؤں تو پھر شاید میں محفوظ ہوں۔‘
قانون تو ہے لیکن آگاہی نہیں
پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے مطابق اگر کوئی شخض کسی بھی خاتون کی الفاظ سے، یا اپنے رویے سے بے توقیری کرتا ہے تو اسے تین سال قید کی سزا، یا جرمانہ، یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں
پاکستان میں خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون اور سزا پر بات کرتے ہوئے ماہر قانون فائزہ فاروق کا کہنا ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین کو ہراساں کرنے کے حوالے قوانین تو موجود ہیں لیکن ان کے بارے میں آگاہی نہیں ہے۔ خواتین کو یہ علم نہیں ہوتا کہ اگر ان کے ساتھ ایسا کچھ ہوتا ہے تو انھیں کیا کرنا چاہیے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 509 کے مطابق اگر کوئی شخص کسی بھی خاتون کی الفاظ سے، یا اپنے رویے سے بے توقیری کرتا ہے تو اسے تین سال قید کی سزا، یا جرمانہ، یا پھر دونوں ہو سکتے ہیں۔
جبکہ پاکستان کے قانون کی دفعہ 496 سی کے تحت اگر کوئی شحض کسی عورت پر جھوٹا الزام یا تہمت لگاتا ہے تو جرمانہ اور پانج سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ قانون کی دفعہ 354 اے کے تحت اگر کوئی شحض کوئی ایسی حرکت کرتا یے جو نا مناسب ہو، یا کوئی ایسا گانا گائے جس کے الفاظ نا زیبا ہوں تو اسے تین ماہ تک سزا ہو سکتی ہے۔
بشکریہ: بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد