دس لاشیں دریائے سندھ سے نکال کر ورثاء کے حوالے، دیگر 26 لاشوں کی تلاش جاری
رپورٹ: فرمان بلتستانی
اسکردو: گلگت سکردو روڈ پر مسافر کوسٹر کے حادثے میں جاں بحق 10 مسافروں کی لاشیں دریا سے نکال لیا گیا اور ارمی ہیلی کوپٹر کے ذریعے سی ایم ایچ سکردو پہنچایا گیا جہاں ان کی نماز جنازہ ادا کی گئیں۔ میتیں شناخت کے بعد ورثاء کے حوالے اور آبائی علاقوں میں تدفین کے لئے روانہ کیا گیا۔
حادثے میں جاں بحق میاں بیوی اور ان کے دو بچوں کی میتوں پر رقت آمیز مناظر- جاں بحق خاندان کا تعلق ضلع شگر کے الچوڑی گاؤں سے بتایا جاتاہے۔
امدادی کاروائیاں جاری ہیں، پاک فوج، پولیس اور ریسکیو 1122 کے اہلکار آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں،
اسسٹنٹ کمشنر روندو غلام مرتضی نے بام جہان کو بتایا کہ حادثہ سب ڈویژن روندو میں یولبو کے مقام پر پیش آیا جہاں راولپنڈی سے سکردو جانے والی کوسٹر موڈ کاٹتے ہو ئے کئی سو فٹ نیچے دریا میں جا گری۔
اسسٹنٹ کمشنر مرتضی نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ حادثے میں ڈرائیور سمیت 26 مسافر جاں بحق ہوئے ہیں جن میں سے 10 کی لاشیں دریا سے نکال کر آرمی ہیلی کاپٹر کے زریعے سکردو پہنچا دیں گئیں ہیں جبکہ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہونے والے 16 مسافروں کی لاشیں نکالنے کے لئے امدادی کام جاری ہے۔
فورس کمانڈر گلگت بلتستان میجر جنرل احسان محمود بھی جائے حادثہ پر پہنچ گئے جہاں وہ فوج اور پولیس کے جوانوں کے ہمراہ دریا سے لاشیں نکالنے کے کام میں حصہ لے رہے ہیں۔
مرنے والوں میں جن کی شناخت ہو چکی ہے ان کے نام ذیل میں دیئے گئیے ہیں۔ کوہستان کا رہنے والا 46 سالہ خان صائب، ساجد حسین الچوری شگر بالا ، ان کی بیوی نیلم، دو سال کابیٹا سالار، تین سال کی بچی ردا، بھکر پنجاب کا رہنے والا محمد صادق، اشرف، شگر بالا، 30 سالہ سپاہی محمد اسحاق، 104 انجینئرنگ بٹالین۔
حادثے میں 24 سالہ نوجوان کوہ پیما شبیر حسین سدپارہ اور ان کے دوست مہدی سدپارہ بھی جاں بحق ہوئےہیں، شبیر براڈ پیک سمیت کئی پہاڑ سر کر چکے تھے۔
با وثوق ذرائع نے بام جہان کو بتایا کہ کچھ نجی ٹرانسپورٹ کمپنیاں راولپنڈی تا اسکردو روٹ پر بغیر روٹ پرمٹ کے گاڑیاں چلا رہی ہیں۔
محکمہ ایکسائز و ٹیکیشن نے حال ہی میں انچن ٹریولز کو بغیر پرمٹ کے اسکردو روٹ پر گاڑیاں چلانے پر تنبہ کیا تھا اور بسوں کی حالت ٹھیک کریے کی بھی ھدایت دیں تھیں۔
حکام نے کمپنی کو ایک نوٹس کے ذریعے 10 مارچ کو اپنے افس بلا یا تھا اور اس بارے میں وضاحت طلب کیا ہے۔
پاکستان میں خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں، ڈرائیوروں کی لاپرواہی، بسوں کی ناقص دیکھ بھال، اور مناسب انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے ایسے حادثات عام ہیں۔
پچھلے سال ستمبر میں، اسکردو سے راولپنڈی جانے والی بس کو دیامر ضلع کے بابوسر ٹاپ کے قریب حادثہ پیش آیا تھا جس میں 16 فوجی جوانوں اور خواتین سمیت 26 افراد ہلاک اور 11 زخمی ہوگئے تھے۔
اگست 2019 میں کوہستان ضلع کے تحصیل کنڈیا کے قریب پل ٹوٹنے سے 40 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔
تمام مسافروں کا تعلق ایک ہی کنبہ سے تھا اور وہ شادی کی تقریب میں شرکت کے لئے جا رہے تھے۔
اکتوبر 2018 میں کوہستان کے لوٹر کے علاقے میں شاہراہ قراقرم پر مسافر بس گہری کھائی میں گرنے سے 20 سے زیادہ مسافر ہلاک ہوگئے تھے۔
بس ضلع غیزر سے راولپنڈی جارہی تھی۔
سڑک حادثات
پاکستان سڑک حادثات میں ایشیاء میں پہلے نمبر پر ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، ملک میں ہر سال تقریبا 9000 سڑک حادثات رپورٹ ہوتی ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابو سال 2019ء میں 36،000 سے زیادہ افراد سڑک حادثات میں ہلاک ہوئے۔
ایک رپورٹ کے مطابق، 67٪ حادثات انسانی غلطیوں کی وجہ سے رونماء ہوتے ہیں، 28٪ ناقص انفراسٹرکچر اور سڑ کوں کی خستہ حالت؛ اور 5٪ غیر موزوں گاڑیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
ایک مقامی سیاسی کارکن عابد کریم تائشی کا کہنا ہے کہ جی بی میں سڑکوں اور گاڑیوں کی خستہ حالت، ڈرائوروں کی کم تنخواہ اور زیادہ کام کرنے اور ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی وجہ سے متعدد قیمتی جانیں ضائع ہو رہی ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افسوسناک بات یہ ہے کہ سرکاری حکام اور نجی ٹرانسپورٹ کمپنیاں ٹریفک قوانین کو نافذ کرنے اور پہاڑی سڑکوں پر روزانہ سفر کرنے والے ہزاروں مسافروں کی حفاظت کو یقینی بنانے کی ذمہ داریوں کا ادراک نہیں کرتیں۔
کچھ کارکنوں نے سڑک کی خراب انجینئرنگ اور ناقص تعمیرات کو حادثات کے ذمے دار قرار دیا ہے۔