تحریر: ڈاکٹر شاہد صدیقی
پوٹھوہار اونچے نیچے ٹیلوں، ٹاہلیوں، دھریکوں، ندیوں، چشموں اور جفاکش لوگوں کا علاقہ ہے۔ یہاں کسان اپنے کھیتوں میں خوب محنت کرتے ہیں۔ دیہات کے نوجوان فوج میں جانا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ اب بھی پوٹھوہار کے گاؤں میں فوج میں جانے والے نوجوانوں کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ آج سے ایک صدی پہلے پوٹھوہار کے گاؤں مختلف ہوتے تھے۔ نہ بجلی، نہ گیس، نہ ٹیلی وژن، نہ ٹیلی فون‘ نہ ہی زیادہ مالی وسائل، زندگی بہت سادہ تھی۔
یہ 1900ء کی بات ہے۔ اسی سال لاہور میں ایک تاریخی عمارت بریڈ لاء ہال کا سنگِ بنیاد رکھا جا رہا تھا۔ وہی بریڈ لاء ہال جس نے تحریکِ آزادی میں ایک نمایاں کردار ادا کیا تھا‘ جہاں بعد میں لالہ لاجپت رائے نے نیشنل کالج کا آغاز کیا‘ جس کے طالبِ علموں میں مشہور انقلابی رہنما بھگت سنگھ، سکھدیو سنگھ اور ان کے ساتھی شامل تھے، جنہوں نے آزادی کی خاطر اپنی جان دے دی۔ یوں 1900ء کا سال تحریک آزادی کے سفر میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اسی سال اسلام آباد سے تقریباً 45 کلومیٹر دور کلر سیداں سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹے سے گائوں کاہلیاں سیلیاں میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ بچے کا نام امیر حیدر رکھا گیا۔ ابھی امیر حیدر کی عمر پانچ سال کی تھی کہ اس کے والد کا انتقال ہو گیا‘ اور پھر مصیبتوں نے جیسے اس کے گھر کا رستہ دیکھ لیا۔ اس کے چچا کی نظریں جائیداد پر تھیں‘ اور اس کے لیے آسان طریقہ بھائی کی بیوہ سے شادی کرنا تھا۔ اس کا راستہ بھی نکل آیا۔ ایک روز امیر حیدر نے کوئی ایسی چیز کھا لی جس سے اس کی آواز بند ہو گئی تو اس کے چچا گاؤں کے ایک پیر کو لے آئے۔ پیر صاحب نے امیر حیدر کو ایک تعویذ دیا لیکن اس کے ساتھ ہی امیر حیدر کی ماں سے کہا کہ تمہیں اپنے دیور سے شادی کرنا ہو گی۔ گاؤں کے ماحول میں پیر صاحب کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے‘ یوں امیر حیدر کی ماں نہ چاہتے ہوئے بھی امیر حیدر کے چچا کی بیوی بن گئی۔ باپ کا سایہ تو سر سے پہلے ہی اُٹھ گیا تھا۔ اب گاؤں کی گلیاں تھیں اور امیر حیدر تھا۔ اکثر والدہ اس کی آوارہ گردی پر پٹائی کرتی۔ اُس روز بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ ماں نے اس کی پٹائی کی تو وہ گھر سے بھاگ کر پشاور پہنچ گیا اور وہاں مزدوری شروع کر دی۔ وہ بچہ ہی تو تھا۔ رات کو اسے ماں کی یاد شدت سے آتی۔ آخر اسے اپنے گاؤں کی محبت واپس لے آئی۔ ماں نے اپنے بیٹے کو سینے سے لگا لیا اور خاوند کو منا لیا کہ امیر حیدر کو سکول میں داخل کرایا جائے۔ قریب کا سکول بیول میں تھا جو گوجر خان سے تقریباً دس کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ننھے امیر حیدر کو سکول داخل کر ا دیا گیا۔ اس کے ذمے پڑھائی کے علاوہ سکول میں جھاڑو دینا اور اساتذہ اور ہیڈ ماسٹر کے چھوٹے موٹے کام کرنا بھی تھا۔ اس کے بدلے اسے ہیڈ ماسٹر کے گھر کے ایک کونے میں جگہ مل گئی تھی‘ جہاں ڈھور ڈنگر بھی بندے ہوتے۔ امیر حیدر دن بھر کی مشقت کے بعد جانوروں کے ہمراہ میٹھی نیند سو جاتا۔ یوں اس نے تیسری جماعت تک یہاں تعلیم حاصل کی۔ کبھی کبھار بیول میں پڑھائی اور کام کاج کے بعد وہ کھیتوں کی طرف جاتا تو اس کا ننھا ذہن سوچتا‘ یہاں کی فضائوں سے دور بہت پرے کی دنیا کیسی ہو گی۔ اس سوچ ہی سے اس کی آنکھوں میں روشنی جاگ اُٹھتی۔ اب اس کی عمر کا چودھواں سال تھا۔ جفاکشی کی زندگی نے اسے مضبوط بنا دیا تھا۔ اس نے اپنی زندگی کا سب سے اہم فیصلہ کر لیا کہ یہاں سے دور، بہت دور ایک نئی دنیا تلاش کرے گا۔ یہ نئی دنیا بمبئی تھی۔ ایک روز وہ بمبئی کے فٹ پاتھ پر سو رہا تھا کہ کچھ مقامی لڑکوں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ اس پر چودہ سالہ امیر حیدر نے ان کی خوب پٹائی کی اور انہیں چھٹی کا دودھ یاد دلا دیا۔ اس دن اسے دادا کا خطاب ملا۔ بمبئی میں دادا کا اپنا مطلب ہے لیکن بنگالی میں دادا بڑے بھائی کو کہتے ہیں۔ اس دن سے دادا امیر حیدر کے نام کا حصہ بن گیا۔ بمبئی میں دادا کو برٹش مرچنٹ نیوی میں معمولی سی نوکری مل گئی۔ تقریباً چار سال یہاں کام کرنے کے بعد وہ یو ایس مرچنٹ نیوی میں بھرتی ہو گیا۔ اب دور دراز کے مُلک اس کی دسترس میں تھے۔
اسی طرح کے ایک سفر میں اس کی ملاقات آئرلینڈ کے رہنے والے ایک قوم پرست جوزف ملکین سے ہوئی جس نے دادا کی ذہنی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا۔ 1920ء میں دادا کو نیویارک میں غدر پارٹی کے رہنماؤں سے ملنے کا موقع ملا۔ ہندوستان کی آزادی کی تحریک میں غدر پارٹی کا اہم کردار ہے۔ امیر حیدر کا ذہن غدر پارٹی کے انقلابی پروگرام کا اسیر ہو گیا۔ غدر پارٹی کی ہدایت پر امیر حیدر نے پارٹی کے تیارکردہ پمفلٹ ”غدر کی گونج‘‘ بندرگاہ پر تقسیم کرنا شروع کر دیے۔ جلد ہی اس کی سیاسی سرگرمیاں سب کی نظر میں آ گئیں اور اسے نوکری سے نکال دیا گیا۔ یہ دن دادا کی زندگی کے مشکل ترین دن تھے۔ ایک اجنبی ملک میں نہ اس کا گھر تھا نہ ٹھکانہ لیکن کہتے ہیں موسموں کی شدت ہی پھلوں کو رس دار بناتی ہے۔ حا لات کی سختی نے دادا کو اپنے نظریات میں اور پختہ کر دیا۔ اب وہ باقاعدہ سیاسی ایکٹیوسٹ بن گیا تھا۔ اس نے ورکرز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ اسی دوران اسے روس جانے کا موقع ملا، جہاں اس کی اہم انقلابی رہنماؤں سے ملاقات ہوئی۔ جس میں اس نے اُنہیں ہندوستان کی سیاسی صورتحال سے آگاہ کیا۔ 1928ء میں دادا نے ماسکو سے بمبئی کا رُخ کیا۔ بمبئی سے واپسی پر دادا کو میرٹھ سازش کیس میں گرفتاری سے بچانے کے لیے دوستوں نے اسے مدراس بھیج دیا۔ جنوبی ہندوستان میں دادا نے اپنی شناخت بچانے کے لیے شنکر کے فرضی نام سے کام شروع کر دیا اور ”ینگ ورکرز لیگ‘‘ کے نام سے نوجوانوں کا ایک گروہ تشکیل دیا۔ لیکن جلد ہی دادا کو گرفتار کر لیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دادا‘ جس کی سکول کی تعلیم معمولی سی تھی‘ نے اردو اور انگریزی میں مہارت حاصل کر لی تھی۔ اس کی بڑی وجہ دادا کا معاشرے کے مختلف افراد سے میل جول اور مختلف ممالک کے سفر تھے۔ یہ 1932ء کا ذکر ہے جب دادا کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کے حوالے سے ایک پمفلٹ شائع کرنے پر حکومتِ وقت نے گرفتار کرکے پہلے مظفر گڑھ اور پھر انبالہ جیل بھیج دیا۔ جیل میں بھی دادا کا جنون فارغ نہ بیٹھتا۔ وہ قیدیوں کو جمع کرکے معاشرتی ناانصافیوں پر گفتگو کرتا۔1938ء میں جیل سے رہائی ہوئی تو دادا نے کھل کر بمبئی میں سیاسی سرگرمیاں شروع کر دیں۔ لیکن یہ رہائی عارضی تھی۔ شاید جیل اور دادا ایک دوسرے کے بغیر نامکمل تھے۔ 1939ء میں دادا کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔ یہ وہ سال تھا جب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہو رہا تھا اور ہندوستان کی فرنگی حکومت سخت دباؤ میں تھی۔ اب جیل میں دادا نے قیدیوں کو لیکچر دینے کے ساتھ ساتھ اپنی یادداشتیں لکھنا شروع کر دیں۔ 1942ء میں جیل سے رہائی ملی۔ دادا نے پھر سے بمبئی میں ٹریڈ یونین کی سرگرمیاں شروع کر دیں۔
1947ء میں پاکستان بن گیا تو دادا کی سرگرمیوں کا مرکز راولپنڈی بن گیا۔ 1949ء کا سال تھا جب دادا کو کمیونسٹ پارٹی کے دفتر سے گرفتار کر لیا گیا۔ پندرہ ماہ جیل میں رہنے کے بعد دادا کو رہائی ملی تو کامریڈ حسن ناصر اور علی امام کے قانونی دفاع کا چیلنج درپیش تھا۔ کچہری سے دادا کو ایک بار پھر گرفتار کر لیا گیا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد دادا کو اپنے گائوں تک محدود کر دیا گیا۔ 1958ء میں ایوب کے مارشل لاء میں ایک بار پھر دادا کو گرفتار کر لیا گیا لیکن یہ گرفتاریاں، سزائیں اور تازیانے دادا کو جھکا نہ سکے۔ دادا کے آخری ایام راولپنڈی میں گزرے۔ راولپنڈی سے جی ٹی روڈ پر سفر کریں تو روات سے ذرا بعد بائیں ہاتھ ایک سڑک مُڑتی ہے۔ جو کلر سیداں کو جاتی ہے۔ کلرسیداں سے ایک راستہ کاہلیاں سیلیاں کو جاتا ہے‘ جہاں امیر حیدر دادا کا گائوں ہے جس کا نام انقلابی رہنمائوں کی فہرست میں جگمگاتا رہے گا‘ لیکن اس کے اپنے علاقے میں اس کے نام کی نہ کوئی سڑک ہے نہ کوئی تختی۔ نوجوان نسل کے لئے امیر حیدر دادا کا نام اجنبی ہے۔ کیسی ستم ظریفی ہے کہ وہ جس نے ساری عمر آزادی اور سماجی انصاف کی خاطر قربان کر دی فرنگیوں کے لئے بھی مردود رہا اور اپنوں کے لئے بھی نامطلوب۔ کاش ہمارا اجتماعی شعور ہمیں اپنے محسنوں کی قدر کرنا سیکھا سکے۔
بشکریہ: روزنامہ دنیاء