Baam-e-Jahan

گھر کے اندر بھوک اور باہر کورونا



تحریر: ڈاکٹر بخشل تھلو

خوردبین سے نظر آنے والے ایک وائرس نے اشرف المخلوقات کو الجھن میں ڈال دیا ہے، اور اس کی بنائی ہوئی دنیا کو قریب قریب جامد کر دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی نااہل سیاسی و عسکری قیادت اپنے ایٹم بموں، ڈرون میزائلوں، کاغذی یا ڈجیٹل دولت کے باوجود پریشان حال ہے۔ ویکسین بننے اور اس کے استعمال میں کم از کم ایک سال درکار ہوگا۔ المیہ یہ ہے کہ دنیاء کے بیشتر ممالک کی سیاسی و ریاستی کنٹرول (چند مثالیں چھوڑ کر)  ٹرمپ، مودی اور عمران خان جیسے جاہل  اور فاشسٹ حکمرانوں کے پاس ہے، جنہیں عوام کے گرنے سے زیادہ تشویش اسٹاک مارکیٹ کے گرنے کی ہوتی ہے۔ طویل بریفنگ کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا وزیراعلی آخر تک یہ نہیں جان سکا کہ آخر وائرس کہاں سے کاٹتا ہے؟
”حیراں ھوں، دل کو روئوں کہ پیٹوں جگر کو میں“

کورونا اور دنیا

یہ سطور لکھنے تک پوری دنیا میں تقریباً تین لاکھ سے زائد لوگ کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں. اور تیرہ ہزار سے زیادہ لوگوں کی اموات ہوئی ہے۔ وائرس کا بنیادی سراغ ابھی تک اک سوال ہہے، جس پر کچھ دن قبل چین نے نچلی سطح پر آمریکی نیوی کے دو فوجیوں کے بارے میں بات کی اور آمریکا نے اوپر کی سطح پر چین، روس اور ایران کو وائرس سے متعلق غلط بیانات کا مورود الزام ٹھہرایا اور وائرس کو بارھا "چینی” اور ” بیرونی” وائرس کہا۔ لیکن شاید حالات نے دونوں ممالک کو یہ بات سمجھائی کہ موجودہ صورتحال میں الزامات کا سوال ثانوی بنا ہوا ہے۔ چین کا اپنا تجربا ہے۔ چین (صوبہ ہوبئی ، ووہان شہر) سب سے پہلے متاثر ہوا، سبب چاھے جو بھی ہو، مگر چین نے تھوڑی الجھن کے بعد جلد ہی سمجھ لیا کہ پہلی جنگ سرحد کے اندر ہے۔ گھر میں گھس کر آنی والے بھیانک خطرے سے پہلے نمٹا جائے تو اس کے ابتدائی ذراع کے سوال کو بعد میں بھی دیکھہ سکتے ہیں. چین نے پھر وہی کیا ۔ اور نتیجہ یہ ھے کہ آج کورونا کے حوالے سے دنیا کا محفوظ ترین ملک چین ہے۔

"ہر امتحان کو موقعہ مین تبدیل دو” پر عمل کرتے ہوئے تین ہزار سے زائد انسانی زندگیوں کو گنوانے کے بعد چین اب کورونا سے پاک ہوکر جشن منا رہا ہے۔ جبکہ باقی دیگر ممالک خوف اور ماتم والے ماحول میں اپنے آپ کو سنبھالنے میں مصروف ہیں۔ اٹلی (۴۸۲۵)، ایران (۱۵۵٦) اور اسپین (۱۳۸۱) مکلمل اس وائرس کے لپیٹ میں ہیں، اور دیگر ممالک کیلیے خوف کا سبب بن رہیں ہیں۔ ان ممالک میں ایسا کیا ہوا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان ممالک کےحکومتوں اور عوام دونوں نے اس وباء کو سنجیدہ ہی نہیں لیا ۔ اب اس کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ ان حالات میں اور کوئی نہیں مگر چین اور سوشلسٹ انقلاب کا وارث ایک دوسرا ملک کیوبا ہے۔ جنہوں نے اپنے طبی ماہرین اور ڈاکٹروں کو اٹلی بھیجا اور وہ ہر طرف پہنچ رہیں ہیں۔  وہ اس جدید جنگ کے سپہ سالار ہیں۔ اس بحران نے دنیا کو بتایا ہے کہ حب الوطنی صرف فوجی وردی سے نہیں بلکہ اسیران سے بھی جڑ سکتی ہے۔ اس بحران نے ہی سمجھایا کہ ریاست کی خودمختیاری، وقار صرف بندوق اور بم سے نہیں بلند ہوتے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ آخری دفاع علم، سائنس اور ٹیکنالوجی سے ممکن ہے، وہی اس کورونا وائرس کے خلاف حیاتیاتی جنگ کا پہلا و آخری مورچہ ہے۔

میں اپنے دوست مختیار راہو کو بتا رہا تھا کہ انسان فطرت کے کروڑوں سالوں کی ارتقا کا نتیجہ ہے، اپنے آپ کو سنبھال لے گا اور آخر میں سب اچھا ہوگا۔ جواب میں مختیار نے بھی زبردست بات کہی کہ "اگر انسان کے ماحول اور حیاتیات دشمن اقدامات اسی طرح رہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ خود ہی اس مجموعی حیاتیاتی فطرت کیلیے ایک وائرس بن جائے، جس سے نمٹنے کیلیے فطرت خود اینٹی وائرس (کورونا) پیدا کرتی رہے۔”

سچ تو یہ ھے کہ اس بات کے بھی امکانات ہے مگر چین کی مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدل سکتے ہیں۔ بقول اسٹیفن ہاکنگ "ہم ٹیکنالوجی کے ذریعے موجودہ دور تک بھی اپنا دفاع کر سکتے ہیں، صرف سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ اب دنیا اس سیاسی عزم و عمل تک جتنی دیر میں پہنچے گی اس کی قیمت بھی اتنی بھاری ادا کرنی پڑے گی۔

کورونا اور پاکستان

اگرچہ موجودہ پبلک ہیلتھ سسٹم کی ناکامی کا ازالہ نجی یا انفرادی کوششوں سے ممکن نہیں، لیکن ان کاوشوں کو جاری رہنا چاھیے. انفرادی سطح پر ہمارے پاس اس وائرس کو لے کر دو انتہائیں عام ہیں۔ ایک "زیادہ خوف اور خدشات والی، جس میں لوگوں کو لگتا ہے کہ بس قیامت آ ن پہنچی ہے اور بچنے کے امکانات بھی نہیں”۔ اس کے برعکس دوسرا رویہ یہ ہے کہ "گھبرانہ نہیں ہے”۔ یہ دونوں انتہاہیں آخر میں غیر عقلی تصورات، اعتقاد اور بے بنیاد آسرے میں جاکے ایک ہو جاتے ہیں۔ آسرا (توکل) کرنا اچھی بات ہے، لیکن توکل پر اپنی ذمہ داریوں کو چھوڑنا بیوقوفی اور نااہلی کے سیوا کچھ بھی نہیں۔

پیغمبر اسلامؑ کے پاس ایک آدمی آیا، آپ نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا تو جواب ملا کہ گھوڑے پر سوار ہو کر آیا ہوں۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ گھوڑے کو باندھا ہے؟ جواب میں کہا کہ نہیں سائیں، توکل کر کے گھوڑے کو چھوڑ آیا ہوں۔ نبیؑ نے پھر انہیں کہا کہ نہیں، پہلے اپنا کام پورا کر، گھوڑے کو باندھ لو، بعد میں توکل کرنا۔

تو اپنی سستی، لاپرواہی اور مجبوری کو توکل سمجھنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ موت برحق ہے لیکن قسمت اور قدرت کی طرف سے موت کے مقررہ وقت پر یقین رکھنے والے بھی جب مصروف ترین روڈ پار کرتے ہیں تو دونوں اطراف لازما دیکھتے ہیں۔ اس روایتی فکری رویوں سے ہٹ کر دیکھیں تو مکمل لاک ڈائون کی کمزوری کا بڑا سبب سماجی غربت اور حکمرانوں کی نااہلی ہے۔ عام آدمی تو ویسے بھی مجبور ہے، انہیں گھر میں بھوک اور باہر کورونا مار رھا ھے۔ اس بے رحم نظام نے عام لوگوں کیلیے دو ہی راستے چھوڑا ہیں۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ حکومت لاک ڈائون کے فیصلے کے ساتھ دیہاڑی والے مزدوروں کے روز مرہ ضروریات کا بھی بندوبست کرے۔ درمیانہ اور ؐھنت کش طبقہ کے لوگوں کو سارے یوٹیلیٹی بلوں کی ادائیگی سے مستثنیٰ قرار دے، دفاعی بجیٹ میں کٹوتی کر کے اس نئی جنگ کیلیے نئے جرنیل (ڈاکٹرز) ھنگامی بنیادوں پر بھرتی کرے۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت سندھ نے نسبتا زیادہ سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ لیکن معاملہ عوام سے گذارشیں کرنے سے کہیں زیادہ، عوامی ضروریات پوری کرنے اور سخت فیصلے لینے کا ہے۔

کورونا کے بعد دنیا کا امکانی منظر نامہ

ہر روز ۲۴ ہزار لوگ بھوک یا بھوک سے جڑے اسباب کے باعث مرتے ہیں، لیکن اب معاملہ کچھ اور ہے۔ یہ وائرس بھوکوں کو سب سے زیادہ مارتی ہے۔ مگر پیٹ بھروں کو بھی نہیں چھوڑ رہا۔ مذہبی ایران سے لے کر روشن خیالی کے پہلے مرکز اٹلی تک، ملائوں اور ملحدوں کے مابیں فرق نہیں کرتا۔ سماجی تاریخ میں  کئی تباہ کن وبائیں گزری ہون گی، مگر عالمی سرمایہ داری اور ڈجیٹل ٹیکنالوجی کے باعث اس وبا کا انسانی معاشرے (سیاسی اقتصادیات)، ان کی رہن سہن اور نفسیات پر (‏مختلف سہی لیکن) سب سے زیادہ اثرات مرتب ہونے ہیں۔ جس سے انسانیت کا تبدیلیوں، خطرات اور امکانات کے نئے دور میں قدم پڑ رہے ہیں۔ چونکہ اس وقت تک دنیا کی سربراہی، سرمایے اور کثیر القومی (ملٹی نیشنل) کمپنیوں کے ہاتھ میں ہے، اور وہ ہوتی بھی ہماری پولیس جیسی ہیں۔ یعنی جنازہ اٹھے یا ڈھولی، ان کا پیٹ بھرتا رھتا ھے ۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک ایسا الٹا نظام ہے جو اپنے بحرانوں پر بھی پلتا رھتا ہے۔ اس نظام اور اس کے بحرانوں کو اپنی تحقیق کا موضوع بنانے والے ایک دانشور نومی کلین (شاک ڈاکٹرائین: ڈزاسٹر سرمایہ داری کا ابھار ۲۰۰۷) کا کہنا ہے کہ اس نظام کیلیے جنگ اور آفت ہمیشہ منافع بخش کاروبار رہے ہیں۔ بحرانوں میں ہم اپنی روایتی سمجھ کو چھوڑ کر صرف اپنے آپ کو بچانے میں مصروف ہوتے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی حکمرانوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ حکمران بھی ایسے وقت کے منتظر ہوتے ہیں جب وہ عوام کے مخالف اپنی من پسند پالیسیوں پر عملدرآمد کرا سکے اور معاشرے میں دولت اور وسائل کی تقسیم کو اور تیز کر سکے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے گذشتہ دہائی میں پاکستان اور سندھ کے اندر این جی اوز سیلاب سے تباہی کیلیے دعائیں کرتی نظر آتی تھیں۔

لیکن یہ بھی معاملے کا ایک رخ ہے۔ یہ بحران حکمراںوں کے ساتھ عوام کو بھی کچھ دیتے ہیں۔ کیونکہ بحران ہی عام لوگوں کو مجبور کرتا ہے کہ وہ کسی خاص رہنما کی نفسیات یا حکمران جماعت سے اوپر ہوکر پورے نظام پر سوال اٹھائے، جیسے اس وقت آمریکا اور پوری دنیا میں زیادہ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی (Over Militarization)، ماحول دشمن پالیسیاں، خانگی یا نجی صحت کس نظام وغیرہ پر تنقید جاری ہے، اور عام لوگ پہلے سے زیادہ زور دے رھے ہیں کہ ان پر قرضے ختم کیے جائیں، کم از کم اجرت، بیروزگاری یا وباء الائونس کی ترسیل کو یقینی بنایا جائے.

لیکن  اس وقت بحران جتنا بڑا ہے، وہ عام حالات والے ان مطالبات سے رکنے کا نہیں۔ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ یہ وائرس معیشتوں کو اور کمزور کرے گا، جس میں سب سے زیادہ متاثر محروم طبقات اور عام لوگ ہونگے۔ جرائم زیادہ ہونگے اور انہیں بڑھایا بھی جائے گا۔ کچھہ ممالک میں حالات انارکی کی جانب بھی جا سکتے ہیں۔ نظام اور بھی ننگا اور ریاستیں مزید سخت ہونے گے ۔امکانات اپنی جگہ پر لیکن معاشی بحرانات، عوامی مزاحمتیں اور ان کے اثرات کو ریاستوں کی سرحد تک محدود رکھنا، وائرس کی طرح مشکل ہوگا۔ سامراجی اور عوامی بین الاقوامیت دونوں زور پکڑین گے ۔ منصوبہ بند معیشت، سائنس اور ٹیکنالاجی پہ انحصار بڑھے گا۔

بحرحال امکانات میں بربریت اور برابری، دونوں ہیں۔ ہم کس چیز کا انتخاب کرتے ہیں، وہ اختیار کسی اور کے پاس نہیں صرف ہمارے پاس ہے۔ "مانجھی دی مائونٹین مین” فلم کے ایک ڈائلاگ کی طرح کہ "بھگوان کے آسرے پہ نہ بیٹھو، کیا پتا وہ آپ کے آسرے پہ بیٹھا ہو”۔

سندھی سے ترجمہ: رحمت تونیو

ڈاکٹر بخشل تھلو کالم نگار اور عوامی ورکرز پارٹی سندھ کے صدرہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں