تحریر: اسرارالدین اسرار
معروف امریکن صحافی فیلکس گرینی اپنی کتاب ”دی وال ہیز ٹو ساٸیڈز“ میں رقمطراز ہیں کہ جب وہ ساٹھ کی دہاٸی میں چین کے دورے پر تھے تو وہاں کی پولیس کی ایک روایت ان کو بہت پسند آٸی ۔ اس روایت کا نام ”شووفو“ Shuo Fu, means to convince by talk ہے۔ جس کا مطلب بنتا ہے بات چیت کے ذریعے لوگوں کو سمجھانا اور قاٸل کرنا۔
فیلکس اپنی کتاب میں دو واقعات کا خصوصی ذکر کرتے ہوۓ لکھتے ہیں کہ وانگ فوچینگ کی ایک مارکیٹ میں پولیس اہلکار نے ایک ٹیکسی کو روکا جس کا ڈراٸیور مقررہ حد سے زیادہ سامان لادھ کر لے جارہاتھا۔ پولیس اہلکار نے ڈراٸیور کو ٹیکسی سے اتارا اور آدھ گھنٹے تک ان کے سامنے پرجوش لیکچر دیا۔ فیلکس لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے مقامی ترجمان سے پوچھا کہ یہ پولیس اہلکار کیا کہہ رہا ہے ؟ ترجمان نے مجھ بتایا کہ جب بھی کوٸی ڈراٸیور ٹریفک کی خلاف ورزی کرتا ہے تو سزا دینے کی بجاۓ مقامی پولیس اہلکار ان کو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کے تمام نقصانات سے آگاہ کرتا ہے اور ان کو قاٸل کرتا ہے کہ وہ آٸندہ اپنی زندگی میں یہ غلطی نہیں دہراۓ گا۔ جب وہ شخص مکمل قاٸل ہوجاتا ہے تو پولیس اہلکار ان کو جانے کی اجازت دیتاہے۔ اس روایت کو ”شووفو“ کہا جاتا ہے۔
فیلکس لکھتے ہیں کہ دوسرا واقعہ بیجنگ کے ایک بڑے اجتماع کا تھا جس میں لوگ اگلی نشستوں میں بیٹھنے کے لۓ دھکم پیل کر رہے تھے۔ اس دوران پولیس اہلکاروں نےایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر انسان ہاتھوں کی زنجیر بنایا اور مجموعہ کو پیچھے دھکیلنے کی بہت کوشش کی مگر ناکام ہوگۓ۔ اس دوران ایک گاڈی میں ایک پولیس اہلکار آیا اور اس نے لوڈ سپیکرز اپنی گاڈی کے اوپر نصب کٸے اور مجموعہ سے مخاطب ہوکر پرجوش لیکچر شروع کیا۔ محض چند منٹس میں لوگ خود پیچھے ہٹنا شروع ہوگۓ ۔ یہ شووفو کا دوسرا دلچسپ عملی مظاہرہ تھا۔
یہ بات طے ہے کہ انسان ڈنڈے سے زیادہ عقلی بات پر یقین کرتا اور عمل کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ڈانڈا انسانوں پر ہمیشہ منفی اثر کرتا ہے جبکہ تعلیم و تربیت سے مثبت اور دیر پا نتاٸج برآمد ہوتے ہیں۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم ہر مسلے کا حل ڈنڈا سمجھتے ہیں جو کہ غیر منطقی عمل ہے۔
گلگت بلتستان میں حالیہ دنوں لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرنے والے لوگوں کو پولیس کی طرف سے مرغا بنانے اور ڈنڈے مارنے کے کٸ واقعات پیش آۓ ہیں جن کی تصاویر سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔ ان واقعات میں پچاس پچاس لوگوں کو ایک ایک جگہ ساتھ بیٹھا کر سماجی یا طبعی فاصلہ اور دیگر صحت کی قواعد و ضوابط کی بھی خلاف ورزی کی گٸی ہے۔ اس سارے عمل میں پولیس ان کو ڈنڈےمارنے کی بجاۓ لاک ڈاون کے اصل مقصاصد سے آگاہ کرتی تو ان لوگوں کی تذلیل ہوتی اور نہ ہی پولیس سے لوگ نالاں ہوتے بلکہ لاک ڈوان کے اصل مقاصد کے حصول میں پولیس بہتر مددگار ثابت ہوتی۔
ان واقعات میں عام پولیس اہلکاروں کی غلطی نہیں ہے کیونکہ ان کی تربیت میں ایسے حالات سے نمٹنے کے لۓ روایتی طور طریقوں کے علاوہ کوٸی جدید اور ساٸنسی طریقہ شامل نہیں ہے۔ مخصوص حالات میں عام پولیس اہلکار جو بھی اقدامات کرتے ہیں وہ اس کو درست اور جاٸز سمجھ کر کر تے ہیں۔ ہوم سکریٹری اور آٸی جی پی گلگت بلتستان کی طرف سے حالیہ واقعات کا نوٹس لیتے ہوۓ پولیس کو عوام سے اچھے انداز میں پیش آنے کی ہدایات جاری ہوچکی ہیں جوکہ قابل تحسین ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کے مختلف اور مخصوص حالات سے نمٹنے کے لۓ جب پولیس اہلکار تعینات کیۓ جاتے ہیں تو ان کو چند گھنٹوں پر مشتمل ٹرننگ بھی دی جاۓ اور مخصوص حالات کے لۓ مخصوص ایس او پیز تیار کیۓ جاٸیں جو کہ سنٸیر اہلکار جونٸیر پولیس اہلکاروں کو وقتاً فوقتاً سمجھا سکیں۔ تاکہ پولیس عوام کی مشکل میں پہلے سے بہتر مددگار کا کردار ادا کرسکے۔
ان حالات میں پولیس اہلکاروں کی اکثرہت ایسی ہے جو لوگوں کی ہرقسم کی مدد کرتے نظر آتی ہے۔ مشکل حالات میں فراٸض انجام دینے اور لوگوں کی مدد کرنے والے تمام پولیس اہلکاروں کا کردار لاٸق تحسین ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ کورنٹاٸن سینٹرز، ہسپتالوں، چیک پوانٹس، سکریننگ پوانٹس اور دیگر مقامات پر فراٸض سر انجام دینے والے پولیس اہلکاروں کو حفاظتی کٹس فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی حوصلہ افراٸی کے لۓ اضافی تنخواہ اور دیگر عملی قدامات کرے۔
اسرارالدین اسرار حقوق انسانی کمیشن گلگت بلتستان کے سربراہ اور کالم نویس ہیں۔